عوام کی فلاح و بہبود اور وزیراعلیٰ پنجاب

عجیب اتفاق ہے کہ گوشت پوست کے بنے ہوئے ایک جیسے انسان کرہ ارض پر آکر ایک جیسے نہیں رہتے۔ کچھ چوکھا کھاتے ہیں اور کچھ سارا سارا دن دھکے کھاتے ہیں۔ کچھ سارا وقت انتظار کرنے میں گزار دیتے ہیں اور کچھ کا باقاعدہ ساری زندگی انتظار کیا جاتا ہے اور استثنائی صورت حال کہ انتظار کی گھڑیاں ختم نہیں ہوتیں۔ کڑکتی اور چلچلاتی دھوپ میں سر پر اینٹیں اور گارے کے بٹھل رکھ کر اور خون پسینہ ایک کر کے فلک بوس عمارتیں بنانے والے ذی روح ایک دن آنے پر ان عمارتوں کو دور سے دیکھ کر اپنا رانجھا راضی کرتے ہیں اور ان جیسے ہی ان عمارات میں موسمی تغیرات کے مطابق زندگی کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ کچھ بچے بھوک اور پیاس کی وجہ سے بلک بلک کر سو جاتے ہیں اور بعض بچوں کے لئے تھوک کے حساب سے کھانے کی ڈشیں تیار ہوتی ہیں اور ان کے معدے پھکیوں کے محتاج ہوتے ہیں۔بعض ماں کے لال اِس لئے نہیں پڑھ سکتے کہ ان کی ماں کا سارا زیور ابتدائی کلاسوں کی فیسوں پر ہی خرچ ہو گیا ہے اور باپ کو ہر روز مزدوری کے مواقع نہیں ملتے اور ایسے بھی نونہالان اوطان ہوتے ہیں، جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے کئی کئی ممالک جاتے ہیں اور موج میلہ، غل غپاڑہ اور پھر بے چینی، مایوسی اور ڈپریشن (آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں) کچھ کے لب ویسے ہی سی دیئے جاتے ہیں اور وہ سی تک نہیں کر سکتے اور ان جیسے ایسے بھی ہیں جن کے منہ سے نکلے ہوئے لفظ حرف آخر بن جاتے ہیں اور آخر میں کچھ پر حکومت کی جاتی ہے اور کچھ حکومت کرنے کے لئے پیدا ہوتے ہیں۔ کاش دِل پر حکومت کرنے کا ابن ِ آدم کو ڈھنگ آ جاتا تو مزے ہی مزے ہوتے تم ہمارے اور ہم تمہارے ہوتے، لیکن ایسا کرنے کے لئے آنکھوں اور دِل کے دروازے کھول کر رکھنا پڑتے ہیں اور انسان کی تخلیق اور انجام پر غور کرنا پڑتا ہے تب جا کر بصارت بصیرت اور گفتار کردار میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور یوں معاشرتی ناہمواریوں، معاشی تفکرات اور نسبی اور نسلی تفاوت کا خاتمہ ہونا شروع ہو جاتا ہے یہ سارا کچھ مرحلہ وار ہوتا ہے اور ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر فلاحی ریاست معرض وجود میں آجاتی ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک آسان بات ہے، لیکن یہ کام کرنے کے لئے مدتوں کی محنت اور ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم کی ضرورت ہے۔ چھوٹوں پر دست شفقت رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے،بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی اور منصوبہ سازی کی ضرورت ہوتی ہے۔ زکوہ اور صدقات کے فلسفے کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے اور منکرین زکوہ کے خلاف تلوار بھی اٹھانا پڑے تو پیچھے ہٹنے کی ضرورت نہیں ہے بعض فاقہ کشوں کے گھروں میں تو رات کی تاریکی میں اناج پہنچانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ معاشی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ہر روز گھر بدلنے والوں کو مستقل گھروں میں آباد کرنے کی ضرورت ہے،بلکہ ضرورت تو یہ بھی ہے کہ انسانیت کے لئے آگے بڑھ کر کھیلا جائے اور لوگوں کے دِلوں میں گھر کر لیا جائے وغیرہ وغیرہ۔
مذکورہ بالا صورت حال تفصیلا اور اجمالا بیان کرنے کا مقصد دعوت غور وفکر ہے۔ پیچیدہ اور مایوس کن صورتحال پر مایوس ہونا دانائی نہیں ہے، بلکہ سیانے اور دانا دنیا میں رہتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کرکے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ صوفیاء کے ہاں یہ بات متفق علیہ ہے کہ اپنے آپ کو دیکھنا چاہئے اور اگر آپ اپنے آپ کو دیکھ کر اپنے آپ کو درست کر لیتے ہیں تو آپ کو دیکھنے والے آپ کو دیکھ کر خود کو درست کر لیں گے اور یوں ہم سب کو حضرت علامہ محمد اقبالؒ کا فلسفہ خودی سمجھ بھی آجائے گا اور ہم سب مذکورہ فلسفہ دنیا کو سمجھانے کے قابل بھی ہو جائیں گے اور بقول اقبال (کوئی قابل ہو تو ہم شان کئے دیتے ہیں۔۔۔ ڈھونڈھنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں) اصل مسئلہ ہی ڈھونڈنے کا ہے۔ پاکستان میں کاش ہم سب سے پہلے اپنے مسائل کی نشاندہی کر لیتے تو ہمیں معلوم ہو جاتا کہ ہمارے بے شمار لائق بچے اِس لئے نہیں پڑھ سکتے کہ ان کے والدین میں بچوں کو پڑھانے کی سکت نہ ہے۔ والدین کی غربت کی بدولت ہی بیٹیاں اپنے والدین کے گھروں میں ہی بیٹھ بیٹھ کر بال سفید کر لیتی ہیں اور ان حوا کی بیٹیوں کو اِس لئے کوئی لینے نہیں آتا کہ ان کے والد کے پاس ڈولی اٹھانے کے لئے جہیز کے پیسے نہیں ہیں۔ ایک وقت کی روٹی کے بھی پیسے نہ رکھنے والے تنگ آکر خود کشیوں پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ قسمت کہئے یا حالات بیوہ یا مطلقہ عورتوں کا ہمارے معاشرے میں رہنا کون سا آسان کام ہے۔ معذور بچے ان کا پالنا پوسنا اور پھر ان کو زندگی کے سفر پر روانہ کرنا بس واقفانِ حال ہی جانتے ہیں۔ جھگیوں والے کیسے کیسے ہر روز اپنا گھر بدلتے ہیں اور ساری زندگی سفر میں ہی گزار دیتے ہیں۔ کسان بے چارہ فصل کاشت کرے تو کیسے کرے بیج کھاد اور پانی کے پیسے۔ اُدھار اور استحصال اور اس استحصال کے نتیجے میں ورقے کالے اور لاچیاں اور ڈاچیاں۔مقروض کاشتکار کی فصل اور ٹکا ٹوکری۔ فہرست مسائل کی طویل ہے اور کالم کا دامن تنگ۔ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام حکومت کا ہے کہ وہ مسائل کا تعین کرے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بدولت زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کو آگے لانے کی نیک نیتی اور ایمانداری سے کوشش کرے۔ محترمہ مریم نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب نے محنت اور کام کی وجہ سے سابقہ نامی گرامی وزرائے اعلیٰ کی قطار میں نہ صرف قدم رکھا ہے،بلکہ قدم آگے بڑھایا ہے اور خوب بڑھایا ہے۔انہوں نے متذکرہ بالا مسائل کی نہ صرف نشاندہی کی ہے،بلکہ ان سارے مسائل کو حل کرنے کے لئے جامع اور شفاف پروگرام متعارف کروائے ہیں اور سسٹم کے تابع ان پروگرامز کے عملدرآمد کو یقینی بنایا جارہا ہے۔دھی رانی، اپنی چھت اپنا گھر۔ ہونہار گریجویٹ سکالر شپ، ہمت کارڈ، کسان کارڈ، گرین ٹریکٹر سکیم، لائیو سٹاک کارڈ، ایگری گریجویٹ انٹرن شپ، لائیو سٹاک ایسٹ فار دیہی خواتین، پنجاب میل سکول پروگرام،معاون آلات برائے خصوصی افراد۔پنجاب فری سولر پینل سکیم، مینورٹی کارڈ، پنجاب سوشیو اکنامک رجسٹری وغیرہ وغیرہ یہ سارے پروگراموں کو ملا کر دیکھا جائے تو فلاحی ریاست کے اجزائے ترکیبی سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور سوشل ویلفیئر کا تصور بھی سمجھ آ جاتا ہے۔ محترم سہیل شوکت بٹ وزیر برائے سوشل ویلفیئر اینڈ بیت المال ڈیپارٹمنٹ سے ایک دھی رانی پروگرام کے فنکشن میں ملاقات ہوئی۔ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کے محاورے کو کچھ یوں بدلنے کو جی چاہا ”گرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو“۔ بہرحال کسی بھی وزیراعلیٰ کا پہلا امتحان اس کی کابینہ کے وزراء کی سلیکشن ہوتی ہے۔ محترمہ وزیراعلیٰ اس لحاظ سے بھی انتہائی کامیاب نظر آتی ہیں۔ صوبہ پنجاب کی تعمیر وترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ان کے اب تک کئے گئے اقدامات سے معاشرتی ناہمواریوں، معاشی تفکرات اور ذہنی بے چینی اور پریشانی کو ختم کرنے میں مدد ملے گی اور اگر مذکورہ پروگراموں کے تسلسل کو برقرار رکھا گیا تو پنجاب کے عوام کی فلاح و بہبود کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کا قوی امکان ہے۔
٭٭٭٭٭