مرا حوصلہ نہ ٹوٹے کہیں بد گمانیوں میں۔۔۔
بڑا دل فریب نشّہ دلِ بے قرار میں ہے
کہ عجیب بے خودی سی ترے انتظار میں ہے
کہاں زندگی میں خوشیاں وہی روز و شب کے غم ہیں
دلِ خوش خِصال میرا بسا کس دیار میں ہے
میں ہوں چپ کہ پھر تماشہ نہ بنے کسی کے آگے
پہ مرا حریف جانی ابھی تک خمار میں ہے
میں بھٹک رہا ہوں کب سے کہیں کھو گئی ہے منزل
مرا میرِ کارواں بھی کہیں گم غبار میں ہے
مرا حوصلہ نہ ٹوٹے کہیں بد گمانیوں میں
مری زندگی ابھی تک غمِ روزگار میں ہے
یہ کہیں نہ روٹھ جائے تری چاہتوں کا موسم
کہ فضا بدل دے پل میں ترے اختیار میں ہے
کوئی پھول کھِل سکا ہے نہ کلی ہی مسکرائی
اک عجیب بے رخی سی نگہِ بہار میں ہے
ذرا کر لوں ذہن و دل کو تری یاد سے میں روشن
یہ چراغِ دل ابھی تو مرے اختیار میں ہے
مرے جسم و جاں منور ہیں اسی سے اب بھی منظر
وہ جو عکسِ یار روشن دلِ داغ دار میں ہے
کلام :منظر اعظمی( بھارت )