جنات کا غلام۔۔۔پندرھویں قسط
معروف صحافی اور محقق ’’شاہد نذیر چوہدری ‘‘ کی اپنے سحر میں جکڑ لینے والی تحقیق پر مبنی سچی داستان ’’جنات کا غلام ‘‘
چودھویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
ایک روز بھائی کھانے کی اشیا لائے اور دوازہ کھٹکھٹایا تو وہ دروازے پر نہ آ سکیں۔ بھائی نے تین چار بار دستک دی اور تب بھی کوئی جواب نہ آیا تو وہ پریشان ہو گئے پھر انہوں نے آہستہ سیدہ رقیہ کو آوازیں دیں لیکن تب بھی کوئی جواب نہیں آیا تو بھائی گھبرا گئے۔ انہوں نے کچھ دیر انتظار کے بعد دوبارہ زور سے دروازے پر دستک دی تو دروازہ کھل گیا۔ مگر اسے کھولنے والا ہاتھ باہر نہیں آیا
”سیدہ محترمہ خیریت تو ہے“ بھائی نے مخاطب کیا مگر اندر سے پھر کوئی آواز نہیں سنائی دی تو ان کی پریشانی ہزار گنا بڑھ گئی۔ اب ان کے پاس اندر داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ وہ شرماتے ہوئے اندر گئے اور سیدہ رقیہ کو آوازیں بھی دیتے رہے۔ مولوی صاحب کا گھر تھا ہی کتنا بڑا۔ دو کمرے‘ ایک ڈیوڑھی‘ ایک رسوئی گھر اور پانچ چھ گز کا صحن۔ بھائی سیدہ رقیہ کے کمرے میں پہنچے تو دیکھا وہ بستر پر بے ہوش پڑی ہیں۔ پہلی بار انہوں نے سیدہ رقیہ کو دیکھا تھا‘ دودھیا رنگت‘ گہرے سیاہ دراز بال‘ قامت دراز‘ عکس حور و جمال تھیں وہ۔ لیکن اس وقت بیماری نے ان کے چہرے کو خستہ کیا ہوا تھا۔ بھائی کئی ثانئے تک سیدہ رقیہ کو دیکھتے رہ گئے تھے۔ پھر وہ آگے بڑھے اور سیدہ رقیہ کو اٹھانے لگے ۔ پانی سے چھینٹے مارے پھر بھی ہوش نہیں آیا تو بھائی آخر کار اپنی دنیا میں واپس گئے اور جنات کے طبیب خاص سے دوا لے کر واپس آنے لگے تو میرے والدین نے انہیں پکڑ لیا۔ میری والدہ بھائی ارمان سے بڑی محبت کرتی تھیں۔ دو برس بعد اپنے بھائی کو دیکھا تھا۔ ہم ان سے لپٹ گئے۔ مگر بھائی کی واپسی جلدی تھی والدہ اور والد نے ان کی تعلیم کے بارے میں دریافت کیا اور پھر ان کی شادی کا ذکر چھیڑ دیا۔ والد نے کہا کہ اب وہ زیادہ انتظار نہیں کر سکتے اگلے سال تک اپنی تعلیم مکمل کر لو تاکہ تمہاری شادی کر دی جائے۔ اپنی شادی کا ذکر سن کر بھائی کے چہرے پر اکتاہٹ کے آثار نمودار ہو گئے۔ ہم تو نہیں سمجھے تھے کہ انہیں اپنی شادی کا ذکر پسند کیوں نہیں آیا۔ انہوں نے نہایت تابعداری کے ساتھ کہا کہ وہ فی الحال شادی نہیں کرنا چاہتے۔ کیونکہ ابھی وہ بہت زیادہ دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بھائی جنات کے معلم اعلیٰ بننا چاہتے تھے۔ اس لئے وہ اپنی تعلیم پر توجہ دیتے تھے۔ میرے والد تو ان پڑھ جنات میں سے تھے انہیں شوق تو تھا کہ ان کا صاحبزادہ جنات کا معلم اعلیٰ بن جائے گا مگر اپنی جلالی اور افتاد طبع کی وجہ سے وہ فیصلے اپنی خواہشوں کے مطابق کرتے ہیں۔ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اب وہ ایک سال کا بھی انتظار نہیں کریں گے۔ شادی اگلے مہینے کو ہو گی۔ بھائی کی شادی یہ .... جو صبور ہے نا۔ اس کے قبیلے میں ہی ہو رہی تھی۔ والد کے ان کا ساتھ کاروباری معاملات تھے۔ صبور کا قبیلہ بڑا سخت گیر ہے۔ عزت اور غیرت کے نام پر ہر وقت ان میں لڑائیاں ہوتی ہیں ۔ جناب کی عقلوں پر قہر و غضب کا غلبہ ویسے بھی زیادہ ہے اور پھر ایسے جنات جن کی رسم و رواج اندھی ہوں ان کے قہر و غضب کا کوئی ا ندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ خیر بھائی کسی طرح واپس آئے اور سیدہ رقیہ کو دوا پلائی۔ کچھ دیر بعد انہیں ہوش آ گیا اور جب اس نے آنکھیں کھول کر اردگرد کا جائزہ لیا اور بھائی پر نظر پڑی تو پہلے تو وہ شرم سے گھبرا گئیں پھر دوپٹہ تلاش کرنے لگیں۔ ان کی گھبراہٹ سے پریشان ہو کر بھائی باہر نکلنے لگے تو وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولیں
”آپ کون ہیں“
”میں ارمان قطبی ....“ بھائی نے رخ دروازے کی طرف کئے رکھا۔ ”میں معافی چاہتا ہوں سیدہ۔ اصل وجہ یہ ہے کہ میں کب سے دروازے پر کھڑا دستک دیتا رہا تھا۔ دروازہ بھی کھلا ہوا تھا۔ جب آپ دروازے پر نہیں آئیں تو وسوسے مجھے گھیرنے لگے۔ میں نے اندر آ کر دیکھا تو آپ بے ہوش پڑی تھیں۔ اگر آپ کی طبیعت خراب تھی تو آپ مجھے پیغام بھجوا دیتیں“
”میں معافی چاہتی ہوں۔ اصل میں مجھے خود معلوم نہیں ہو سکا۔ اچانک طبیعت خراب ہوئی اور چکر آنے سے میں بے ہوش ہو گئی“ سیدہ رقیہ شرم سے دہری ہوئی جا رہی تھی
”میں مجبوری کے عالم میں اندر آیا ہوں سیدہ۔ آپ جیسی پردہ پوش کے لئے تو یہ بات ناگوار ہو گی خود میں بھی شرمندگی محسوس کر رہا ہوں کہیں“
”آپ کا قصور کیسا۔ آپ تو فرشتہ بن کر آئے ہیں۔ میں اکیلی گھر میں لاچاروں کی طرح پڑی رہتی ہوں۔ اگر خدانخواستہ مجھے کچھ ہو جائے تو کس سے فوری طور پر کہوں۔ آپ کی یہ عنایت ہے مجھ“ سیدہ رقیہ چارپائی سے اٹھ کر ارمان بھائی کے پاس آ گئیں۔
”آپ سے میرا پردہ اب کیسا۔ آپ تو میرے کفیل ہیں۔ میں نے آج تک کسی غیر مرد کو نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی غیر مرد نے مجھے دیکھا تھا۔ میں نے عہد کیا تھا اگر مجھے کسی غیر مرد نے دیکھ لیا تو میں اس سے عقد کی خواہش کروں گی۔ ارمان قطبی صاحب۔ میرے والد تو آپ سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ آپ نے میرے والد کی بھی بہت خدمت کی تھی اگر آپ کو ناگوار نہ گزرے تو میری اس بات پر غور کر لیجئے گا“ سیدہ رقیہ کا چہرہ حیا نے ڈھانپ لیا اور میرے بھائی ارمان کی کیفیت بدلنے لگی۔ انہوں نے جب سیدہ رقیہ کو پہلی نظر میں ہی اپنے بہت قریب محسوس کیا تھا اور پھر جو احساس ان کے اندر پیدا ہوا تھا اس کو مکمل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا .... مگر یہاں کئی سوال اور اندیشے تھے۔ ارمان ایک جن زادہ اور سیدہ رقیہ انسان تھی۔ یہ شادی کیسے ہو سکتی تھی۔ اگرچہ جن و انس میں شادیوں کا رواج روایات کی صورت میں تو ملتا تھا مگر خود ایک مثال بننے جانا بڑا مشکل امر ہوتا ہے۔ ارمان بھائی سیدہ رقیہ سے شادی کے خواہش مند ہو گئے تھے مگر یہ ملن ناممکنات میں سے تھا۔ ادھر ہمارے والدین ان کی شادی کی تیاری کر چکے تھے اور ادھر یہ معاملہ درپیش تھا۔
ارمان بھائی نے بہت چاہا کہ وہ سیدہ رقیہ کو اپنی اصلیت بتا کر ایک بار ان کو یہ موقع دیں کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کر سکیں۔ مگر یہ چاہت اور عشق کا جو کھیل ہے بہت تنگ کرتا ہے۔ محبوب کے چھن جانے کا خوف سچائی بیان کرنے سے مانع ہوتا ہے۔ بھائی کوشش کے باوجود سیدہ رقیہ کہ یہ نہ بتا سکے کہ ان کی اصلیت کیا ہے۔ بالاخر نتیجہ یہ نکلا کہ بھائی نے سیدہ رقیہ سے شادی کا فیصلہ کر لیا او اس سے اپنے دوسرے معلمین کو بھی آگاہ کر دیا
رمضان المبارک کی ستائیسویں کو نکاح اور رخصتی قرار پائی تھی۔ بدقسمتی سے جس روز بھائی کا نکاح تھا اور وہ نکاح کے لئے تیار بیٹھے تھے‘ میرے والد مدرسے میں آ گئے۔ یہی وہ دن تھا جو میرے والد نے بھائی کی اپنے دوست کی بیٹی کے ساتھ شادی کے لئے رکھا تھا۔ بھائی کو یہ علم نہیں تھا۔ والد نے جب انہیں دلہا بنا دیکھا تو وہ طیش میں آ گئے اور انہوں نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ بھاﺅ کو مسند سے اٹھایا اور زمین پر پٹخ دیا۔ گلاب کے ہار جو ان کے گلے میں تھے پتوں میں بکھر گئے۔ پورے اجتماع پر خوف طاری ہو گیا کیونکہ والد صاحب نے اپنے اصلی روپ میں خفی رہتے ہوئے بھائی پر غصہ ظاہر کیا تھا لوگ حیران تھے کہ ارمان میاں کو یکدم کیا ہوا ہے۔ انہیں ہوا میں اچھلتے اور پھر زمین پر گرتے سبھی نے دیکھا تھا۔ اور سب نے یہ بھی دیکھا تھا کہ جب ارمان بھائی زمین پر سر کے بل گرے اور دوسرے ہی لمحے اٹھ پڑے تو خون کا ایک قطرہ بھی ان کے ناک منہ اور سر سے نہیں بہا تھا۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں اور وہ اپنے والد کو دیکھ کر چلائے تھے
”ابا جان یہاں کیوں آئے ہیں“
جواباً جب والد صاحب بولے تو مدرسے کے درودیوار تک ہل گئے۔ انہوں نے بھائی کو لعن طعن کی اور صاف صاف کہہ دیا ”تم ایک جن زادے ہو کر انسانوں میں شادی کر رہے ہو۔ تمہیں معلوم ہے ہماری رسوم اس کی اجازت نہیں دیتیں اور پھر میرے خاندان میں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے“ لوگوں نے یہ سنا تو سب سر پر پاﺅں رکھ کر بھاگنے لگے۔ ارمان بھائی نے بہت کوشش کی کہ ابا جان کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے مگر اب کوئی فائدہ نہیں تھا۔ جس جس نے یہ سنا وہ خوف کے مارے بھاگ گیا۔ سیدہ رقیہ کو یہ معلوم ہوا کہ ارمان قطبی دراصل ایک جن زادہ ہے تو وہ غم کی شدت سے ایسی بے ہوش ہوئیں کہ پھر دوبارہ اس دنیا میں نہ آ سکیں۔ ارمان بھائی کو ان کی موت کا علم ہو گیا تھا ار پھر وہ ایسے تڑپے اور جلال میں آئے کہ ان کی شرافت اور نرمی کے قصے سنانے والے بھی انگشت بدنداں ہو کر رہ گئے لیکن وہ اکیلے تھے۔ والد صاحب نے انہیں باغی قرار دیا اور پھر میرے بھائی نے جب ان کی کسی بھی قسم کی بات کو ماننے سے انکار کر دیا تو والد نے اپنے دوست قبیلے کے ساتھ مل کر انہیں ختم کر دیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔شاہد بھائی والد نے سنگدلی کی ایسی لرزہ خیز روایت قائم کر دی تھی کہ آج میں اس بارے سوچتا ہوں تو تڑپ اٹھتا ہوں انہیں برف زاروں میں زندہ دفن کر دیا گیا۔ ان کے بدن کو آہنی میخوں سے برف کے بڑے بڑے ستونوں کے ساتھ گاڑھ دیا گیا اور ان کی آتش آمیز حیات سسک سسک کر بجھتی رہی۔ میرا بھائی مر گیا جنات کی اندھی اور فرسودہ روایات جیت گئیں“۔۔۔ غازی اپنے بھائی کی المناک داستان سناتے ہوئے سسکنے لگا تھا اور خود میری بھی سسکیاں نکل رہی تھیں۔
نہ جانے ہم کتنی دیر تک روتے رہے۔ مجھے آج بھی اپنے سینے میں وہ ہچکیوں بھری آہیں سنائی دیتی ہیں اور میں بے اختیار ہو کر غازی کو یاد کرنے لگتا ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں سارے دکھ درد اور پریشانیاں صرف انسانوں میں ہیں عشق و محبت کی مستی اور ہجر و وصل کا لطف و عذاب صرف ہم انسانوں کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے۔ خاندانی اور قبائلی مکروہ رسم و رواج صرف انسانوں کو لطیف اور آفاقی جذبات کے پنپنے سے روکتے ہیں مگر ہمارے علاوہ بھی ایک مخلوق ہے جسے آگ سے تخلیق کیا گیا اور وہ ہواﺅں اور زمین کے گوشے گوشے میں موجود ہے مگر ہم کو اس کی خوشیوں اور غموں کا ادراک نہیں ہے‘ ہاں صرف ہمارے ذہنوں پر اس کا خوف مسلط ہے۔ غازی کو ایک کھلنڈرا لاابالی اور ہمہ وقت بے چین شرارتی ہی پایا تھا مگر وہ قلبی جذبات کی کیفیات اور غم و اندوہ کی حسیات کو سمجھتا تھا۔ مجھ میں اب حوصلہ نہیں رہا تھا کہ اس سے مزید کچھ دریافت کروں۔
”غازی .... میں بابا جی سے ملنا چاہتا ہوں“ میں نے خاصی دیر بعد اسے مخاطب کیا
”بابا جی اس وقت بہت ناراض ہیں بھیا“ وہ آرزدہ سا ہو کر بولا۔ ”میرا دل چاہتا ہے تم یہیں میرے پاس اس وقت تک بیٹھے رہو جب تک سحری کا تارا ڈوب نہیں جاتا“ وہ ستاروں بھرے آسمان کو دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔ وہ خلاﺅں میں گھورتا رہا‘ ایسے لگا جیسے ستارے گن رہا ہے اور کسی خاص ستارے کی کی تلاش میں ہے۔
”کیوں .... وہ مجھ پر بھی ناراض ہیں“ میں نے پوچھا
”کچھ پتہ نہیں .... شاہ صاحب کی تو شامت آئی ہوئی تھی کچھ دیر پہلے۔ اصل بات یہ ہے کہ شاہ صاحب کو معلوم تھا کہ آج بابا جی حاضری نہیں دے سکیں گے لہٰذا انہوں نے آپ سے جو کام لیا ہے وہ اسی غلطی میں لے گئے ہیں۔ اگر انہیں معلوم ہوتا تو شاید وہ آپ کو اس کام پر پھر بھی بھیجتے اور اس کی حفاظت کے لئے ہم میں سے کوئی آپ پر مامور کر دیا جاتا اور آپ کو قبرستان میں ایسے حالات پیش نہ آتے“ اس کی طبیعت اب بحال ہو رہی تھی ”اگر آپ کہو تو میں بابا جی سے آپ کے لئے اجازت کا پروانہ لا سکتا ہوں“
”وہ کیسے“
اس کے لبوں پر شگفتگی کے پھول نئے سرے سے کھل رہے تھے۔ ”جلیبیاں تو ختم .... اب کچھ اور ہونا چاہئے“
میں بے ساختہ مسکرا دیا ”یار.... اب تو یہی کچھ بچا ہے“ میں نے جیب سے پیسے نکال کر اسے دئیے اور وہ اس نے روپے ایسے اچک لئے جیسے چیل مرغی کا بچہ۔
”لو بھیا میں ابھی آیا“ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گیا اور میں باغیچے میں تنہا رہ گیا۔ معاً مجھے صبور کا خیال آ گیا۔ اردگرد دیکھنے لگا مگر مجھے نظر نہیں آیا۔ البتہ احساس ہوا کہ پودوں کے سائے بہت زیادہ گھنے اور ان پر لرزہ طاری ہو رہا ہے۔ ایسے لگتا تھا جیسے ان کے اندر ہزاروں وجود داخل ہو چکے ہیں اور یہ سارے سائے ایک دوسرے میں مدغم ہوتے جا رہے ہیں۔ مجھے فضا میں گھٹن کا بھی احساس ہوا۔ فضا کی خنکی اور رومانیت یکسر موقوف ہو رہی تھی۔ مجھے گھبراہٹ اور خوف محسوس ہونے لگا اور میں جلدی سے مہمان خانے کی طرف بھاگنے لگا مگر جونہی میں نے قدم اٹھائے مجھے احساس ہوا جیسے سارے پودے میرا گھیراﺅ کرنے لگے ہیں اور ا ن کا گھیرا لمحوں میں تنگ سے تنگ تر ہونے لگا۔ مجھے یہ سمجھنے میں اب دیر نہیں لگی کہ جنہیں میں پودوں کے سائے سمجھ رہا تھا درحقیقت وہ وجود ماورائی تھے جو سیاہ لبادوں میں اپنے وجود پھیلا کر آگے ہی آگے بڑھ رہے تھے۔ سائے میرے چاروں طرف پھیل گئے اور میں ان کے حصار میں قید ہو کر رہ گیا۔ ابھی تک مجھے کسی نے کچھ نہیں کہا تھا لیکن ان کے تیور بتا رہے تھے کہ اگر یہ یونہی آگے بڑھتے رہے تو مجھے پیس کر رکھ دیں گے۔ میں نے چیخ کر ان سے پوچھا”کون ہو تم“
مگر مجھے کوئی جواب نہیں ملا اور سائے میرے بالکل قریب آ گئے اور پھر اس سے قبل کہ میں کچھ کرتا محض ایک کربناک چیخ تھی جو میرے اندر سے بلند ہوئی تھی اور میں اتنے زور سے چلایا تھا کہ میری آواز میلوں تک سنی گئی ہو گی۔ اس لمحے چاروں طرف پھیلے سائے ایک دوسرے میں آ کر ضم ہو گئے تھے اور میں ان کے درمیان پس کر رہ گیا تھا مجھے یوں لگا جیسے میرا وجود بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ میری روئیں روئیں دہکنے لگی اور یوں لگا جیسے سر سے پاﺅں تک میرے وجود سے شعلے بلند ہونے لگے ہیں۔ دماغ میں چیونٹیاں سی رینگنے لگی تھیں اور دل کے درودیوار پر کوئی بڑی سی چھپکلی رینگنے لگی ہے۔ اس کے بعد میرے ساتھ کیا ہوا یہ مجھے اس وقت معلوم ہوا جب مجھے بابا جی شفقت بھرے انداز میں پکار رہے تھے۔ ان کی آواز میرے لئے روشنی کی لہر بن رہی تھی اور میرا ذہن تاریکیوں کی پستیوں سے اجالوں کی بلندی کی طرف پرواز کرنے لگا۔ یہ روشنی اور اجالے مجھے اوپر ہی اوپر اس مقام تک لے گئے تھے جہاں مجھے تین چہرے نظر آنے لگے تھے یہ غازی، شاہ صاحب اور بابا جی تھے۔
بابا جی کے چہرے پر مسرت افروز نور پھیلا ہوا تھا۔ احرام میں ان کا پورا وجود گم تھا‘ دودھیا رنگت‘ سفید گیسو ان کے شانوں پر لہرا رہے تھے۔ آج ان کا دیدار پہلے دیدار سے مختلف تھا۔ اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا کر بولے ”میرا ہاتھ تھام لو میرے بیٹے تم ایک بہادر انسان ہو آگے بڑھو“
جونہی انہوں نے مجھے پکارا مجھے احساس ہوا کہ کوئی ایسی قوت اور بھی وہاں موجود ہے جو مجھے اب اجالوں سے پیچھے کی طرف کھینچ کر تاریکیوں میں گم کرنا چاہتی ہے۔ وہ بار بار میرا دامن پکڑ رہی تھی اور مجھے پیچھے کو دھکیلنے کے لئے کوشاں تھی۔
”اس کی پرواہ نہیں کرو .... اپنی پرواز بلند رکھو“ بابا جی نے مجھے حوصلہ دیا۔ مجھے حوصلہ ہوا اور میں زور شور سے اجالوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتا رہا مگر میرے ساتھ معاملہ اب اس گاڑی کی طرح پیش آ رہا تھا جس کے پچھلے ٹائر کسی نرم زمین میں دھنس جاتے ہیں اور ڈرائیور گاڑی کا زور لگاتا ہے تو ٹائر باہر نکلنے کی بجائے مزید دھنستے چلے جاتے ہیں۔
میں نے باباجی کو اپنی کیفیت سے آگاہ کرنا چاہا اور لب کھولے تو ایک لفظ بھی زباں سے نہ نکل سکا ۔ لگا جیسے کسی نے میری زبان کو تالو کے ساتھ چپکا دیا ہے اور گلے میں کانٹے چبھو رہا ہے۔ اس شدت زور اور لاچارگی سے میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور میں بہت زور آزمائی اور کوشش کے بعد محض یہ یہ کہنے میں کامیاب ہو گیا۔
”بابا جی سرکار .... میں کیا کروں۔ کوشش کے باوجود یہ اندھیرے مجھے نہیں چھوڑ رہے“
”بیٹے! یہی وہ مراحل ہوتے ہیں جب انسان کو اس کے امتحان میں سرخروئی حاصل ہوتی ہے“ باباجی نے اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا لیا۔ ” سارے لوگ اندھیروں سے اجالوں میں آنا چاہتے ہیں لیکن قوت موقوف ہونے سے وہ ایسا نہیں کر پاتے اور جانتے ہو تم۔ یہ قوت باطنی‘ روحانی وجدان اور سرشاری کیا شے ہے۔ یہ روح ہی کی طاقت ہوتی ہے جو انسان کو علم و آگہی سے آراستہ کرتی ہے جو لوگ اپنی روح سے ہم کلامی اور اس کی جبلت کو پا لیتے ہیں ان کے لئے اندھیروں یعنی گمراہی سے نکل آنا مشکل نہیں ہوتا۔ یہی معاملہ تمہارے ساتھ پیش آ رہا ہے ۔ تم اندھیروں اور اجالوں میں معلق ہو۔ تمہیں ابھی ان میں تمیز کرنا نہیں آ رہی ۔ جنہیں تم سچائی اور حقیقت سمجھتے ہو حقیقتا وہ بھی گمراہی کا ایک لبادہ ہیں۔ تمہارا دل ابھی تک پراگندہ ہے۔ دوسروں کے لئے اپنے دل کو کشادہ کر لو اور سچائی کی روشنی کو پکڑ لو۔ تم ان اندھیروں سے باہر آ جاﺅ گے۔ میں محسوس کر رہا ہوں کہ تم میں یہ خوبیاں ہیں۔ تم اجالوں کے سفر کے مسافر ہو۔ میں نے تمہیں پکارا اور تم لوٹ آئے لیکن اب تم رک گئے ہو میرے بچے آگے بڑھو دیکھو میں ہی نہیں اپنے شاہ صاحب اور تمہارا غازی بھی اپنے ہاتھ تمہاری طرف بڑھا رہے ہیں۔ آﺅ اور میرے بچے ہمارا ہاتھ تھام لو اور اجالوں کی دنیا میں آ جاﺅ“ یہ کہہ کر ان تینوں نے اپنے اپنے ہاتھ میری طرف بڑھا دئیے اور میں جوش کے عالم میں اندھیروں کے ہاتھ اپنے دامن سے ہٹا کر ان کے ہاتھ تھام لینے میں کامیاب ہو گیا۔ تینوں نے مجھے نہایت آہستگی سے اوپر اٹھایا اور مجھے ایک براق بستر پر لٹا دیا جس کے چاروں طرف خوشبوﺅں کا راج تھا۔ فضا میں طراوت اور نغمگی کا احساس تھا۔ نہایت پرسکون روشنی تھی جو قلب و نظر کو لطف و کرم کے احساسات سے دوچار کر رہی تھی۔ میں نے ایسا بستر اور ایسا ماحول کبھی نہیں دیکھا تھا جو اجالوں کی دنیا میں وارد ہو کر پایا۔ بابا جی شاہ صاحب اور غاری میرے بستر کے گرد کھڑے تھے اور مسکرا رہے تھے۔ میری آنکھوں میں ابھی تک آنسو اٹکے ہوئے تھے۔ میں نے بولنے کی کوشش کی اور پرجوش انداز میں بولا
”بابا جی سرکار مجھے معاف کر دیں۔ میں واقعی شاہ صاحب کے بارے بدگماں تھا مگر اب وعدہ کرتا ہوں کہ یہ میرے بھائی ہیں اور میں ان کی تابعداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا“
بابا جی تحسین آمیز انداز میں پیر ریاض شاہ کی طرف دیکھنے لگے تو ان کے لبوں پر گہری مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ایسی مسکراہٹ جو اکثر فاتح بن کر اور احساس تفاخر سے بھرے لوگوں کے چہروں پر کھلتی ہے مگر لوگ اس مسکراہٹ کا مطلب نہیں جان پاتے کہ اس کے کھلنے میں کتنے قہروںنے اپنا وجود غارت کیا ہو گا۔
”اب تم آرام کرو“ باباجی نے اپنا نرم ریشمی ہاتھ میرے ماتھے پر رکھا تو ان کے لمس کا احساس میرے رگ و پے میں سکون کی لہریں پیدا کر گیا۔ ”جب اٹھو گے تو تمہیں بہت سے کام کرنے ہیں“۔
بابا جی کے لمس کا احساس اتنا بھرپور تھا کہ نیند میری آنکھوں میں اتر گئی اور میں سو گیا۔ بہت ہی گہری ، پرسکون نیند۔ ایسی نیند کہ جب بیدار ہوا تو لگا جیسے اس دنیا کی آلائشوں اور ذہنی و جسمانی تھکاوٹوں کا کبھی شکار ہی نہیں ہوا تھا میں۔ بڑی راحت ملی تھی اور مجھے اپنے وجود میں نئے سرے سے سرشاری اور گرم جوشی محسوس ہونے لگی تھی۔ گویا اس نیند نے مجھے ری چارج کر دیا تھا۔