پٹرول کے پس پردہ
ءکی دہائی کے اوائل میں امریکہ نے معاہدئہ برٹن وڈ سے ہاتھ کھینچ لیا اور ڈالر کی پشت سے سونے کی قیمت کو ختم کر دیا۔ بعد ازاں ڈالر کو مضبوط کرنے کے لئے عربوں سے تعاون حاصل کیا۔ اوپیک نے تیل کی خریداری کے لئے ڈالر کو معیار مقرر کر دیا۔ تیل کے خریدار ممالک پہلے امریکی ڈالر خریدیں، پھر ان کے ذریعے تیل خرید کریں۔ امریکی چھاپہ خانے دھڑا دھڑ ڈالر کی چھپائی کریں، ڈالر فروخت کریں اور تیل صرف چھپائی کے خرچے پر حاصل کر لیں۔ یہ تاریخی حقائق میرے لئے اہم ہیں، لیکن اہم ترین نہیں.... چین نے امریکی جارہ داری ختم کرتے ہوئے ماضی قریب میں یہ اعلان کیا کہ اب دنیا کا کوئی بھی ملک چینی کرنسی یو آن میں خام تیل خرید اور بیچ سکتا ہے۔ ساتھ ہی روس نے چین کی طلب کے مطابق تیل فراہم کرنے پر آمادگی کا اظہار کر دیا ۔ ایک تجزیہ نگار کے بقول خام تیل دنیا کے لئے معیاری کرنسی ہے۔ ین نہیں، پاو¿نڈ نہیں، ڈالر نہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ رقم خام تیل میں استعمال ہوتی ہے، کسی بھی شے سے زیادہ۔ یہ بھی میرے لئے اہم ہے، لیکن اہم ترین نہیں....ہماری نئی منتخب حکومت قانون کے نفاذ سے قبل عوام سے پٹرولیم پراڈکٹس پر ایک فیصد زائد سیلز ٹیکس حاصل کرتی ہے تو سپریم کورٹ کو حرکت میں آنا پڑتا ہے، تاکہ عوام کی جیب کی حفاظت کی جائے، یہ بھی میرے لئے اہم ہے، لیکن اہم ترین نہیں۔
میرے لئے اس وقت اہم ترین کیا ہے؟ جی ہاں! توجہ فرمائیے۔ ذرائع کے مطابق کئی ایک پٹرول پمپوں مالکان دن دہاڑے، دیدہ دلیری سے میری اور آپ کی جیبوں میں سوراخ کر رہے ہیں۔ یکم ستمبر 2013ءکو قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو پٹرول کی قیمت، آئل مارکیٹنگ کمپنیز کا مارجن، ڈیلر کمیشن، پٹرولیم لیوی اور سیلز ٹیکس سمیت109.13 مقرر کی گئی۔ اس کو ”میگزمم ایکس ڈپو سیل پرائس“ کہا جاتا ہے۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیز سولہ مخصوص مقامات پر اپنے ڈیلرز (پٹرول پمپوں یا فلنگ سٹیشنوں) کے ذریعے اسی قیمت پر پٹرول فروخت کرتی ہیں۔ دیگر مقامات اور پٹرول پمپوں پر پالیسی کے مطابق اور فاصلے کے اعتبار سے ان کو سیکنڈری فریٹ (ثانوی کرایہ) شامل کرنے کا اختیار ہے۔ اگر پرائمری فریٹ (بنیادی کرایہ) کو مدنظر رکھا جائے تو ثانوی کرائے کا اضافہ اندازاً50 سے 80 پیسہ تک ہونا چاہئے، لیکن کئی ایک پٹرول پمپوں پر 112.50 سے بھی زائد قیمت وصول کی جا رہی ہے۔ ایسے ہی ایک پٹرول پمپ سے ذرائع نے تحقیقات کا آغاز کیا۔
اوگرا کی ویب سائٹ پر آئل مارکیٹنگ کمپنیز کی جاری کردہ ”پٹرول پمپس ریٹیل پرائس“ سے موازنہ کیا۔ متعلقہ آئل مارکیٹنگ کمپنی کی ویب سائٹ پر اس شہر کا ثانوی کرایہ دریافت کرنے کے لئے رابطہ کیا، تو شکایات و تجاویز کے ”تعلق“ نامی شعبے سے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ پھر ریٹیل ڈویژن کو ای میل کی تو متعلقہ ڈویژن کے ڈی ایم آر نے ٹرخانے کی پالیسی اختیار کی۔ دوسری آئل مارکیٹنگ کمپنی سے یہی معلومات طلب کی گئیں، تو بلا تاخیر ای میل سے تسلی بخش جواب موصول ہوا اور صورت حال نکھر کر سامنے آ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ عیاری جاری ہے، چھوٹے شہروں میں نرخ کا فرق غیر معمولی ہے، جبکہ بڑے شہروں میں فرق معمولی ہے تاکہ دونوں سے معقول رقم اکٹھی کی جاسکے۔ بعض شہروں میں پٹرول پمپ مالکان ملی بھگت سے اپنے قرب و جوار کے لئے ایک ہی نرخ پر اتفاق کر لیتے ہیں جو کمپنیوں کی مقرر کردہ قیمت سے زیادہ ہوتا ہے۔ اوگرا اور آئل مارکیٹنگ کمپنیز اس چالبازی پر قابو پانے سے قاصر ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو نا اہلی نظر آتی ہے اور دوسری وجہ پٹرول پمپ مالکان کی طرف سے متعلقہ افراد کو پیش کردہ نذرانہ بھی ہو سکتا ہے۔
اگر ایک فلنگ سٹیشن کی روزانہ اوسط فروخت دس ہزار لیٹر پٹرول تصور کی جائے اور ایسے فتنہ پرداز فلنگ سٹیشنوں کی تعداد ایک ہزار تصور کی جائے جو دو روپے فی لیٹر اضافی وصول کر رہے ہیں تو یہ رقم دو کروڑ روپے روزانہ بنتی ہے۔ ڈیزل اور دیگر مصنوعات کی فروخت شمار نہیں کی گئی۔ یاد رہے کہ صرف ایک بڑی آئل مارکیٹنگ کمپنی کے ڈیلروں (فلنگ سٹیشنوں) کی تعداد 3000 سے زائد ہے۔ اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیز کی ہیلپ لائن پر بذریعہ ایس ایم ایس کسی بھی شہر اور فلنگ سٹیشن کی ریٹیل پرائس معلوم کرنے کی سہولت ہو، علاوہ ازیں فریب کار فلنگ سٹیشنوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ یقیناً اوگرا اور آئل مارکیٹنگ کمپنیاں صارفین کے مفاد کا خیال رکھیں گی اور میرے تجویز کردہ حل سے بہتر راہ ڈھونڈ نکالیں گی، کیونکہ یہی صارفین تو اربوں روپے کمانے کا ذریعہ ہیں۔ بندوبست پائیدار ہو تاکہ یہ بے رحمی دوبارہ پنجے نہ گاڑے۔
قارئین کرام! ”جاگتے رہنا، صرف میرے پر نہ رہنا“.... جیبیں کاٹنے والے بہت زیادہ ہیں۔ اب تو جیبوں میں پیسہ بھی تھوڑا رہ گیا ہے اور جو رہ گیا ہے وہ تیل ڈلواتے ہوئے نہ دے آنا۔سوال یہ ہے کہ اب تک ہضم کئے گئے اربوں کیا واپس مل سکتے ہیں؟ اوگرا کو ”توقیر“ و ”صادق“ سے ”فرصت“ اور ”دولت“ حاصل ہوئی تو شاید کوئی سبیل نکلے۔ دعا گو رہنا، ایسی تحریریں بعض محب مال عناصر کو ناگوار ہوا کرتی ہیں۔ ٭