ایک نہیں دو بچھڑے،نوابزادہ مرحوم سے معذرت!

بزرگ سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خان کو دنیا سے رخصت ہو کر اللہ کے حضور حاضر ہوئے پندرہویں سال گزر گئے۔ گزشتہ روز (26ستمبر) ان کی پندرویں برسی منائی گئی۔ خیال تھا کہ ان بابائے اتحاد کو آج کے حالات کی روشنی میں اسی روز خراج عقیدت پیش کر دیں گے، لیکن یہ دنیا فانی ہے اس میں حادثات ہوتے اور لوگ آتے جاتے رہتے، منگل کی شام دفتری امور سے فارغ ہو کر گھر گئے اور کھانا کھا کر آرام کی نیت تھی کہ موبائل کی گھنٹی نے متوجہ کیا۔ سکرین پر ہمارے کزن نجیب کا نام تھا، اچانک فون نے چونکا دیا کہ ہماری چچی اور نجیب کی والدہ خاصی علیل ہیں، جب اس جواں سال بھائی کا نام لے کر پکارا تو دوسری طرف سے اجنبی آواز تھی، بولنے والا کوئی نوجوان بچہ تھا اس نے سیدھا سادا جواب دیا نجیب کا انتقال ہو گیا۔
ایک دم جھٹکا لگا، اعتبار نہ آنے والی بات تھی کہ اس کی بیماری کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں تھی، گاہے بگاہے مرحوم سے بات بھی ہو جاتی تھی، پیغام دینے والے سے جب پھر دریافت کیا تو جواب ملا، نجیب فیصل آباد والا فوت ہوا، اسے دل کا دورہ پڑا اور جانبر نہ ہو سکا، نجیب جوان سال اور تین بچوں کا باپ تھا جو اپنی ضعیف اور بزرگ والدہ کی بھی دیکھ بھال کرتا اکھڑ مزاج ہونے کے باوجود بہت ہی تابع قسم کا جوان تھا اور ادب بھی بہت کرتا تھا، پریشانی ہوئی، جانا بھی لازم تھا لیکن صاحبزادہ عاصم چودھری اپنے دفتری امور کے حوالے سے ملتان گیا ہوا ہے اور اپنی گاڑی ساتھ لے گیا۔ اسے فون پر آگاہ کیا تو اس نے روانگی کے لئے انتظام کی کوشش کی جس میں ناکام رہا، بہرحال ہمارے سیر کے ساتھی ، محلے دار اور دوست مرزا منور حسین بیگ ایڈووکیٹ کام آئے۔ ان کو صورت حال سے آگاہ کیا تو وہ اپنی ذاتی کار میں لے جانے پر رضامند ہو گئے اور اپنا کام ملتوی بھی کر دیا۔
صبح ہم دونوں وقت کے لحاظ سے ساڑھے سات بجے روانہ ہو کر ساڑھے نو کے کچھ بعد منیاں والا(فیصل آباد) پہنچ گئے جب گھر پہنچے تو کوئی مرد نظر نہ آیا، آثار ہی سے معلوم ہوا کہ جنازہ جا چکا، معلوم کیا تو بتایا گیا کہ صبح سات بجے کا وقت تھا اور یہاں سے آٹھ بجے روانہ ہوئے ہیں، یہ غلط فہمی کا نتیجہ تھا جوبتانے اور سننے والے کے درمیان ہوئی ہمیں یہی سمجھ آئی تھی کہ جنازہ دس بجے اٹھے گا، بہرحال نماز میں شرکت سے محروم رہے، گھر میں گئے ،بہن مسز فرزانہ فاروق سے ملاقات ہوئی تو آنسو بہہ گئے ، پھر چچی کو دیکھا تو شدید صدمہ ہوا کہ وہ بہت ہی کمزور ہوچکی ہیں، ان سے چلا بھی نہیں جاتا، وہیل چیئر، کرسی اور چارپائی مقدر ہو کر رہ گئی ہے، پہچاننے میں بھی تھوڑی دقت ہوئی تاہم یادداشت اللہ نے سلامت رکھی ہے، انہوں نے بتایا کہ نجیب کی وفات کے بعد ہی انہوں نے بچوں کو اصرار سے کہا کہ لاہور خادم کو ضرور اطلاع کرنا ’’ہم دکھ سکھ کا ذکر کرتے رہے۔ چچی نے بار بار میری مرحومہ اہلیہ کا ذکر چھیڑا یاد کرکے بتاتی رہیں، صدمہ اور دکھ والا وقت گزار کر اجازت لی، جب مرد حضرات قبرستان سے واپس آئے تو ان سے بھی مل کر تعزیت کر لی۔ صدمہ لئے گھر واپسی ہو گئی۔
اسی تقدیر کے کھیل کا ایک سلسلہ اس سے ایک روز قبل ہو چکا تھا کہ ایک دیرینہ ساتھی چودھری محمد اعظم ناصر رضائے الٰہی سے انتقال کر گئے تھے۔ منگل کو ان کی نماز جنازہ تھی،میاں اشفاق انجم نے بتایا کہ عصر کے وقت نماز جنازہ ہوگی، اس روز ہم نے پولیٹیکل (سیاسی) ایڈیشن مرتب کرنا تھا کہ معمول ہے، ادھر کی حاضری کو اگلے روز پر ملتوی کیا لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھاکہ اعظم ناصر کی تعزیت کے لئے جانے کی بجائے نجیب کی وفات پر فیصل آباد جانا پڑ گیا۔ اعظم ناصر کے گھر کا چکر ادھار ہو گیا۔ انشاء اللہ کسی روز جا کر اظہار افسوس کریں گے، چودھری اعظم ناصر ہم سے بہت چھوٹا تھا اور اس کی عادات بھی ایسی ہی تھیں کہ ہم سے تعلق لاڈ پیار والا بھی ہو گیا تھا، روزنامہ امروز کی بندش کے بعد ہم نے قریباً ایک سال کا عرصہ لکشمی چوک میں ان کے دفتر میں بیٹھ کر گزارا اور کوشش کی کہ کچھ اپنا کام ہو، لیکن دور جدید اور زمانے کے تیور کی وجہ سے کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔
اعظم بھی دفتر اٹھا کر ڈیفنس میں اپنے گھر لے گئے اور ہم بھی غم روزگار کے باعث مصروف ہو گئے لہٰذا عمومی ملاقاتیں نہ ہو سکیں، گاہے گاہے کسی تقریب میں ملاقات ہو جاتی تھی، تاہم عرصہ سے ایسا بھی نہ ہوا، معلوم ہوا کہ اعظم ناصر گردوں کی تکلیف میں مبتلا ہو گئے اور ڈائیلسز سے چل رہے تھے۔ اس حالت میں بھی وہ اپنا میگزین باقاعدہ شائع کرتے رہے، ان کا اپنا سلسلہ وفات کے بعد ٹوٹ گیا شاید اب ان کی صاحبزادی یہ کام سنبھال سکیں، اللہ مغفرت کرے ان دونوں کو کہ خوبیوں والے تھے۔
گزارش کی تھی کہ لکھنا نوابزادہ نصراللہ (مرحوم) کے حوالے سے تھا لیکن یہ آپ بیتی سنانا پڑ گئی اور ہم نے اقربا پروری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آج کا کالم چرا کر اپنے دو عزیزوں کے لئے استعمال کرلیا، اس عرصہ میں ہماری قومی کرکٹ ٹیم نے ثابت کر دیا کہ وہ آئندہ سال کے ورلڈکپ اور مختلف سیریز کے لئے کتنی تیار ہے۔ یہ بھی ہمارا پسندیدہ موضوع ہے کہ کھیلوں میں حقیقی دلچسپی کرکٹ سے ہی ہے۔ بشرط صحت و زندگی اب کل ہی کالم لکھنا ہوگا تو پھر ایک امتحان ہو گا کہ کرکٹ ٹیم کی ’’کامیابیوں‘‘ پر مبارکباد دی جائے کہ نوابزادہ نصراللہ کی خدمات کو یاد کیا جائے کہ آج کے دور میں ان کی کمی اور ضرورت محسوس کی جا رہی ہے، بہرحال یار زندہ والی بات ہے انشاء اللہ کل ہی فیصلہ ہو گا کہ پہلے کس موضوع پر لکھا جائے۔ معذرت کہ ذاتیات کا مسئلہ چھیڑ لیا جو کوئی اتنی بھی ذاتی نہیں کہ مرنا جینا سب کے ساتھ لگا ہوا ہے۔