بیالیسویں قسط۔ ۔ ۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ

بیالیسویں قسط۔ ۔ ۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی ...
بیالیسویں قسط۔ ۔ ۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک بہت اہم اور مفید بیان احکم التاریخ کے مضمون میں سے جس کے یہ چندالفاظ نہایت پر معنی ہیں۔
’’کوہ جود (یا جوگ) کے مفسدوں نے فسادبرپا کیا۔ شہاب الدین بذات خود وہاں (یعنی ٹلہ جوگیاں) گیا اور ان کو سزا دی جب وہان سے فارغ ہوا تو راستے میں بمقام دمیک (یا دھمیک) چند مفسد قوم کھگر رات کے وقت شاہی خیمہ میں موقع پا کر چھپ رہے اور سلطان کو بحالت خواب جام شہادت پلا دیا۔‘‘(منشی محمد حسین صدیقی مصنف احکم التاریخ ص ۳۰۰ )
لاہور کو شہاب الدین کی واپسی
قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ شہاب الدین نے باغیوں کی خلاف اول کارروائی اس پہاڑی علاقہ کے مغربی حصہ میں کی اور پھر وسطی حصہ میں مکمل طور پر کھکروں اور کفار تراہیہ وغیرہ کو مغلوب کیا اور پھر یہاں سے مشرق کی طرف جودی یا جوگی پہاڑ پر جو اس وقت مقامی زبان میں ٹلہ جوگیاں کے نام سے مشہور ہے حملہ آور ہوا۔ یہاں آخری فتح پا کر دانیاں کافر سے بھی فارغ ہوا اور پہاڑ کے مشرق میں نیچے کی طرف واپسی شروع ہوئیا ور بقمام ’’سکودی سراں‘‘ میں اترے یہ پہاڑ کے دامن میں عمدہ سا مقام تھاجو قلعہ رہتاس کے قریب سامنے مغرب کی طرف دینہ سے جنوب کو چار میل اور جہلم سے بطرف مغرب بیس میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہاں آرام کرنے کے بعد مکمل واپسی شروع ہوئی اوریہاں سے روانہ ہو کر مغرب میں موضع ڈومیلی کے شمال میں عام راستے پرایک میدانی علاقہ میں جہاں کوٹ دھمیک واقع ہے ڈیرے لگائے تاکہ یہاں آرام کریں اور رات وہیں گزاریں۔

اکتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
واضح ہو کہ اس زمانہ میں جہلم اور گندھارا والے لاہور یا دیہند کے درمیان یہی عام راستہ تھا جو جہلم شہر سے مغرب کی طرف قلعہ رہتاس کے پاس ہی شمال میں گزرتا ہوا ڈومیلی کے مشرق شمال میں گزرتا ہوا کوٹ دھمیک تک اور وہاں سے مندرہ کے قریب روات تک ہوتا ہوا مغرب میں دیہند اور لاہور پہنچتا تھا۔ اب بھی اس راستے کی بعض جگہ نشانی واضح طور پر اور بعض جگہ صرف آثار موجود ہیں جسے میں نے بعض جگہ خود دیکھا ہے۔
قلعہ رہتاس کے متعلق تاریخ ہند میں یوں درج ہے:
’’شیر شاہ نے پنجاب میں کھوکھروں کی جنگجو قوم سے مقابلہ کرکے بغاوت کو دور کیا اور دریائے جہلم کے مغربی کنارے رہتاس کا مضبوط قلعہ بنوا کر اس میں اپنی فوج رکھی۔‘‘
قبل ازیں قطب الدین کی وفات کا ذکر ہوا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس کے مدفن کے متعلق بھی کچھ لکھا جائے۔ مرزا کے متعلق نور احمد اپنی کتاب ’’تحقیقات چشتی‘‘ ص ۲۳۹ میں لکھتے ہیں:
احوال مرزا قطب الدین غوری
دروازہ لاہوری کے باہر بطرف قصاب خانہ و شرق گدام شراب خانہ واقع بازار انار کلی ایک مکان بنام قطب غوریہ مشہور ہے۔ یہ مکان بہت بڑا عالیشان کشادہ تھا۔ یہاں عمارات عالیشان سنگ مرمر وغیرہ کی تھی مگر مہاراجہ نے مسمار کرکے روانہ امرت سر کر دیں۔ اب صرف ایک قبر خشتی بلندچبوترہ پر موجود ہے۔ معمر لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اس قبر پر گنبد دو منزلہ سنگ مرمر کا دیکھا ہے اور وہ گنبد ایسا خوشنما تھا کہ نواح لاہور میں ایسی عمارت اور دوسری نہ تھی۔ واضح ہو کہ اس قبر سے زیادہ پرانی کوئی اور عمارت نواح لاہور میں نہیں کیوں کہ یہ قطلب الدین غوری میں سے تھا اور سلطنت غوریہ شاہان چغتائی (مغل) سے بہت پہلے تھی۔۔۔اس وقت شہر لاہور کے بارہ دروازے بڑے اور ایک چھوٹا مفصل ذیل ہیں۔ لاہوری دروازہ، شاہ عالمی دروازہ، موچی دروازہ، اکبری دروازہ، دہلی دروازہ، ذکی دروازہ، (المشہور یکی دروازہ)، شیرانوالہ دروازہ جس کو خضری دروازہ بھی کہتے ہیں۔ کشمیری دروازہ، مستی دروازہ، روشنائی دروازہ، ٹیکسالی دروازہ، بھاٹی دروازہ، موری دروازہ یہ چھوٹا ہے۔‘‘
لاہوری دروازہ
تاریخ تحقیقات چشتی کے مصنف نے دو مرتبہ یہ نام درج کیا ہے جو قابل غور و تعجب ہے کہ اسی شہر میں لاہور کے نام سے ایک دروازہ کیوں اور کیسا رکھا گیا تھا۔ اگر یہ لاہوری نام صحیح ہوا اور لکھنے میں کاتب سے غلطی بھی نہ ہوئی ہو تو پھر یہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ اس وقت لاہور نامی شہر کسی دوسرے مقام پر موجود تھا جس کی نسبت سے یہاں ایک دروازے کا نام لاہوری دروازہ رکھا گیا جیسا کہ دہلی دروازہ اور کشمیری دروازہ۔
لاہور سے قبل پنجاب کا مرکزی شہر سیالکوٹ
اس سے پہلے پنجاب کا مرکزی مقام سیالکوٹ تھا ابراہیم بٹنی کے قلمی نسخہ میں بھی پنجاب والے لاہور کا ذکر نہیں بلکہ سیالکوٹ کا ذکر اس طرح ہے کہ
زبدۃ الاخبار میں ہے کہ:
’’سیالکوٹ بنا کر وہ شہاب الدین محمد غوری است قبل ترین از بناہائے راجہ سالباہن است۔‘‘
ٹاڈر راجستان کا مصنف لکھتا ہے:
بھٹی قوم جب زابلستان وغیرہ سے بھاگے تو سالبانپور، (سیالکوت) کو درالحکومت بنایا۔‘‘
اللہ بخش یوسفی لکھتے ہیں کہ :
’’۴۴ ھ میں ابومہلب نے بنہ اور الاھوار تک کے علاقہ کو روند ڈالا اور یہ دونوں مقامات گندھارا میں واقع ہیں۔ گندھارا پر اولین اسلامی لشکر سبکتگین سے قبل عہد امیر معاویہ میں ابو مہلب کی زیر قیادت پہنچ چکا تھا۔ مقام بنہ اور الاہوار کے متعلق عرب مورخین کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کابل اور ملتان کے درمیان شاہراہ پر مشہورمقامات کی حیثیت سے آباد تھے اور اس وقت بھی شہر بنہ ایک اونچا ٹیلہ خود وخیل میں قدیم شاہراہ کابلی و ملتان پر الاھوار (لاہور) سے آٹھ میل شمال میں موجود ہے۔ بلاذری نے الاھوار، الاھوار اور ایک جگہ لہور بھی لکھا ہے اور یعقوب نے لاہوار لکھا ہے ۔ ‘‘ آگے لکھتا ہے:
البیرونی پنجاب سے کابل تک ایک سیاحت کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
’’دریائے سندھ کے مغرب میں دیہند تک جو قندھارا کا دارالحکومت ہے پورشاور (پشاور) سے چودہ فرسخ کا فاصلہ ہے۔‘‘ پھر لکھتا ہے کہ:
اب ایسی حالت میں کہ تمام مورخین ضلع مردان کے موضع ہنڈ کو قدیم دہند داہند یا دیہند کے متعرادف خیال کرنے لگے ہیں تو لازما دریائے سندھ کے کنارے لاہور کو الاھوار قرار دینا پڑے گا جو دیہند سے چار میل کے فاصلہ پر واقع ہے اور جسے ابورحیان ، رشید الدین، اور ابو الفداء نے گندھارا کا دارالسلطنت بتایا تھا۔ مسعودی بھی ۹۱۵ء میں سفر ہندوستان کے موقع پر اس لاہور کو ہندو شاہیہ کا دارالحکومت قرار دیتا ہے۔ پھر اس سے بھی تاریخ کی روشنی میں انکار نہیں کیا جا سکتا کہ محمود غزنوی نے راجہ جے پال کو اسی ہنڈ کے قریب لاہور میں گرفتار کیا تھا نہ کہ پنجاب کے لاہور میں (یوسف زئی پٹھان)

جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔