نئے امریکی صدر کی نئی خرابی

امریکہ کے دوسری بار صدر منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ پر ہی کیا موقوف ہے کہ امریکہ کا کوئی بھی صدر ہوگا وہ اسرائیلی حمائت کئے بغیر نامکمل ادھورا ہے اور کسی بھی امریکی صدر کی مسلمانوں کے خلاف ایک ہی پالیسی ہے اور وہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف چلنا انہیں دبائے رکھنا مرعوب رکھنا اور اپنے پراگندہ خیالات کو وسعت دینا اپنی حیوانیت سے کام لینا میں بہت پہلے سعودیہ۔اردن۔دمشق کا وزٹ کرچکا ہوں میں نے بیس سال قبل عرب ممالک میں بڑھتی امریکی مداخلت دیکھی اور حیرانیوں کی طغیانیوں میں کھویا رہا کہ ہر طرح کے وسائل سے مالامال عرب ممالک میں امریکی مداخلت اس قدر راسخ ہو چکی ہے کہ کیا کہئے بلکہ یوں کہئے کہ ہمارے زیادہ عرب ممالک امریکہ پر انحصار کرنے لگے ہیں صدام حسین کے دور میں جب عراق کے میزائل سعودیہ کی سرحدوں کو پھلانگتے آگرتے تو سعودی شہری ایک دوسرے سے کہتے کہ ' لاتفکر' "امریکی آگے ہیں " اور یہ امریکی پالیسی ہے کہ معصوم مسلمانوں کو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کرنا خود ہی مسلم ممالک کو اسلحہ فراہم کرنا خود ہی ایک مسلم ملک کو دوسرے پر چڑھ دوڑنے پر آمادہ کرنا اور دوسرے مسلم ملک کے دفاع کے لیے خود ہی آگے آجانا سعوی عرب ہمارا وہ محسن ملک ہے کہ جس کے خلاف لکھنا میرے لئے احسان فراموشی کے زمرے میں آتا ہے اور یوں بھی ہمارا قبلہ کعبہ ہونے کے ناتے سعودیہ سے ہماری قلبی ایمانی جذباتی بلکہ میں کہتا ہوں حیاتیاتی وابستگی ہے ہم سعودیہ کے ساتھ جیتے مرتے ہیں کہ سعودیہ نے بھی کبھی ہمارے معاملات میں پس و پیش سے کام نہ لیا۔مسلمان کائنات میں جہاں بھی ہیں خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں انکے دل صاف اور شفاف ہیں یہ معصوم ہر طرح کی ریاکاری سے پاک ہیں لیکن شاطر غیر مسلم قوتیں مسلمانوں کے خلاف جو بغض و عناد رکھتی ہیں کانوں کو ہاتھ لگائے بغیر رہا نہیں جاتا۔
ڈونلڈ ٹرمپ اپنی متلون مزاجی پر اپنا ثانی نہیں رکھتے ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کو فلسطینیوں کو الگ کرکے مصر اردن سے کہا ہے کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کو پناہ دیں تاکہ مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکے آپ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منافقانہ شاطرانہ روئیے پر غور فرمائیے کہ مشرق وسطی کہ جسکا امن ہی اسرائیلیوں اور امریکیوں نے جلا کر راکھ کردیا اب امن کے نام پر ایک اور بدامنی برپا کرنے کی سعی کی جارہی ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس نئی خرابی کا اظہار کہ میں چاہتا ہوں کہ مصر اور اردن غزہ لوگوں کو پناہ دیں۔ یہ1.5 ملین افراد کی بات ہے اس لئے کہ پورے علاقے کو صاف کیا جا سکے۔ٹرمپ نے فلسطینیوں کی منتقلی کو طویل المدتی بھی قرار دیا ہے کہ یہ لازم نہیں یہ عارضی ہو بلکہ اس کی مدت طوالت بھی پکڑ سکتی ہے مسٹر ٹرمپ فرماتے ہیں کہ کوشش کرتا ہوں کہ اکثر عرب ممالک سے رابطہ کیا جائے اور وہاں ایک نئی جگہ پر رہائش فراہم کی جائے، جہاں وہ امن کے ساتھ رہ سکیں دوسری جانب ٹرمپ صاحب نے اسرائیل کی برملا اور غیر متزلزل حمایت کا اعلان بھی فرمادیا ہے انہوں نے اعادہ کیا کہ وہ اسرائیلیوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے انہوں نے امریکی وزارت دفاع (پینٹاگون) کو اسرائیل کے لیے دو ہزار پاؤنڈ وزنی بموں کی کھیپ جاری کرنے کا حکم دیا ہے، حالانکہ سابق صدر جو بائیڈن نے اسے روک دیا تھا۔ہم جو بائڈن کو ایک ڈریکولا سے تعبیر کرتے رہے جس نے فلسطینیوں کی نسل کشی کے لئے اسرائیل کو دھڑا دھڑ خطرناک ترین اور جدید ہتھیار فراہم کئے لیکن ٹرمپ اس معاملے میں جو بائڈن کو مات کرکے سبقت لے گئے ہیں دوسری جانب اسرائیل نے جنگ بندی کے اعلان کے باوجود غزہ پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس میں روزانہ کی بنیادوں پر فلسطینی شہید ہورہے ہیں وہ بھی ایک وقت تھا جب سلطان صلاح الدین ایوبی نے یورپ متحدہ افواج کو شکست دے کر بیت المقدس کو آزاد کرایا اور آج کے صلاح الدینیوں کو مسلمانوں کی آپس میں تقسیم کے سبب کافروں نے ایک ایک کرکے شہید کیا ہے لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ ہوں فلسطین یا ایران میں ٹارگٹ کئے گئے حماس کے سربراہ سب کا اسرائیلی سورماؤں نے تعاقب کیا اگرچہ عالم اسلام ایسے جذبہ ایمان سے سرشار متوالے پیدا کرتا رہے گا جنکے نام سے ہمیشہ کافر کانپتا رہے گا لیکن تاریخ عالم میں اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کا قتل عام کرکے جس سفاکیت سے کام لیا ہے تاریخ اس سے شرماتی اور کراہتی رہے گی مجھے ایک بات اور بھی زیادہ بے چین رکھتی ہے کہ سعودی عرب عالم اسلام کا سب سے معتبر ملک ہے جس کے ایک اشارے پر دنیا کے کونے کونے سے مسلمان اکٹھے ہو کر حاضر ہو جائیں لیکن فلسطینیوں کے قتل عام پر سعودیہ کی ہر تشویش۔ اجلاس اور مذمتوں کے باوجود دنیا کے ٹھیکیداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی نہ وہ سعودیہ کے کسی فیصلے کو خاطر میں لائے ہیں یہ بات ہمارے لئے بڑی فکر کی بات ہے اور یہ بات ہمارے لئے ناقابل قبول بھی ہے کہ دنیا ہمارے قبلہ کعبہ سے اٹھنے والے مطالبات کو قبول نہ کرے ہمارے با اثر اسلامی ممالک کو اپنی آواز میں اثر انگیزی پیدا کرنے کیلئے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر یکجان ہونا ہوگا اگر عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک دنیا کے ٹھیکیداروں کے سامنے کھڑے ہو جائیں تو دنیا کے ٹھیکیداروں کو سر اٹھانے کی ہمت نہ ہو مسلمانوں کی تاریخ اس بات کی امین ہے کہ مسلمانوں نے باطل قوتوں کو خس و خاشاک کی طرح اڑا کر رکھ دیا ہے بس مسلمانوں کو اپنا حال تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنے مستقبل کا تعین کرنا ہوگا اگر ایسا ہوگیا تو ٹرمپ جیسے کسی صدر کے کسی ایسے گھناؤنے منصوبے کے اظہار کی بھی جرات نہ ہوگی کیونکہ یہ شریر لوگ ہیں جو اپنی شرارتوں سے تو کبھی باز نہ آئیں گے۔