عمران خان کے نام کھلاخط

کسی طرف نظریاتی ہونے کا دعویٰ ہے تو کسی طرف روایتی سیاست کی طرف لوٹ جانے کے الزامات، سیاست کا یہ کھیل اب پھر اسی کروٹ بیٹھ رہا ہے جہاں سے دشنام طرازی کے سلسلے جنم لیتے ہیں۔ کہیں کرپشن کے مقدمات میں پھنسی قیادت ہے تو کہیں دیرینہ ساتھی روایتی سیاست کی طرف رجحان کے عندیے دیتے رخصت ہو رہے ہیں۔ ملک کی وہ پارٹی جو نوجوانوں کو سیاست میں لے آئی تھی اب اپنی مقبولیت کھوتی جارہی ہے۔ شروع سے ساتھ چلنے والے بدلتی منزلوں کے عنوانات سے تھکتے جا رہے ہیں۔ پارٹی میں دوسری پارٹیوں کو چھوڑ کے آنے والوں کا راج ہے،وہ جو کل آپ پہ تنقید کرتے نہ تھکتے تھے ،آج جب ان کے ہونٹوں سے آپ کی تعریفیں سنتا ہوں تو دھنگ رہ جاتا ہوں کہ واہ انسان تیرے بدلتے رنگ، یعنی نظریہ گم اور فقط ایک دھن اور وہ ہے، جیت کی دھن اس جیت کو پا لینے کے لئے سب کچھ قربان کر دینے کا جوش ،ہوش مندوں پہ گراں گذر رہا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کی کئی سالہ مشقت کے بعد چند لوگ دائرہ ایمان میں آئے تھے ، نو سو سال کی تگ و دو کے بعد صرف ایک کشتی کے مسافر جن میں انسان، حیوان ، پرند ،چرند سب ہی تو تھے ۔ پھر ایسے میں کیا میں یہ کہہ دوں کہ نعوذباللہ حضرت نوح علیہ السلام کا بتایارستہ درست نہ تھا ؟؟ حکمرانی اور اکثریت ہی در حقیقت کامیابی نہیں ہوتی ، آپ کے ساتھ چند نظریاتی ساتھی ہوں تو مشکل وقت میں بھی آپ کا ساتھ دیں گے لیکن جب مفاد پرست ہوں گے تو آگے بڑھنے کے نعرے لگاتے مڑ کے دیکھنے پہ کہیں نظر نہ آئیں گے ،کیا یہ سب ہماری ملکی سیاست نے پہلے نہیں دیکھا ؟؟کیا وہ خود کہتے آپ کو سنائی نہیں دیتے کہ مصیبت میں سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور اپنے ہی رہ جاتے ہیں ۔
اصولوں پہ ڈٹ جانے والوں کے نزدیک درست رستہ اور نظریہ ہی انسان کا وقار اور نام زندہ رکھتا ہے،دلوں کی حکومت ہی اصل حکومت ہے اور آپ ان دلوں کو توڑ کر وہ تاج سر پہ سجانا چاہتے ہیں جس نے کبھی کسی سے وفا نہیں کی۔ پچھلے کچھ ماہ سے پرندے پھر سے اڑنے جو شروع ہوئے تو اپنے مفاد میں اس پارٹی کی چھتری پہ بیٹھنے لگے کہ جس کے نظریاتی ہونے کا خوب ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا ، ان مہاجر پرندوں نے تو شاید اس دھرتی کی رہت بہت ہی بدل دی جس پہ وہ کچھ دیر کو بیٹھے تھے اور یہ یقین غالب ہے کہ جب سفینہ ڈوبنے لگے گا اور دھرتی پہ دانہ دنکا چن لیا جائے گا تو سب سے پہلے یہی اڑنے والے پرندے آپ کو مسکراتے خدا حافظ کہیں گے اور ساتھ رہ جائیں گے پھر چند آپ کے نظریاتی دوست۔ حکومتی پارٹی پہ جب کوئی قدغن لگاتا ہے تو وہ یہ کہہ کے جان چھڑوا لیتے ہیں کہ اسے یا اس کے کسی قریبی رشتہ دار کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا لیکن جب آپ کے پاس دینے کو کچھ نہ تھا تو یہ یہ لوگ تھے آپ کی دولت۔
جناب جسٹس وجیہہ الدین کی شخصیت کو کیسے متنازعہ بنایا گیا؟؟ کس سے ڈھکا چھپا ہے؟ایک عمر کی وفاداری اور محبت بھرے نغمات سے دل گرمانے والا سلیمان احمد کتنا دل برداشتہ ہے؟ کراچی اور پارٹی سیاست کو چھوڑ کے ایک اینکر آپ کو کامیابیوں کی ضمانت دیتا آپ کے ساتھ آن بیٹھا ہے، واہ ری سیاست تیری مجبوریاں ؟؟ تیری حکمرانی کے دوام بخشتے تیرے اصول اور تیرے نظریات؟؟ کہتے تھے انجن ٹھیک ہو تو ریل منزل مقصود پہ ہی پہنچتی ہے لیکن سینٹ کے الیکشن پہ کیا سب کچھ آپ پہ آشکار نہیں ہو گیا کہ ریل کے ڈبے اپنی مرضی سے اپنے سٹیشن اور منزلیں بدلتے ہیں اور انجن کو بے بس کر دیتے ہیں۔ اب شاید اس نظریے کے پرچار کی ضرورت آپ کو بھی دوبارہ پیش نہ آئے اور انصافین کو سمجھنے کے لئے بھی یہی کافی ہے۔
مجھے وہ دن یاد ہیں جب محترمہ فوزیہ قصوری آپ کے نظریات کا مقدمہ ایسے لڑا کرتی تھیں کہ آواز ہی بیٹھ جاتی تھی ، میں کہتا ہوں جب آپ کی کشتی میں چند لوگ تھے تو محترمہ فوزیہ قصوری ان میں سے تھیں، اب جب آپ بحری بیڑے کے کپتان ہیں تو ان پہ یہ الزام بھی تھوپ دیا کہ انہیں بھی ممبر اسمبلی کی نشست چاہیئے تھی اور وہ امریکی قومیت سے بندھی ہوئی ہیں۔
صاحب جس دن وہ آپ کی کشتی میں سوار ہوئی تھیں انہیں بھی بتا دیا جاتا کہ آپ کا سیاست میں دہری قومیت کی وجہ سے کوئی کردار نہیں ہے لیکن اس وقت آپ کو کب پتہ تھا کہ ربّ آپ کو سیاسی میدانوں میں اتنی مقبولیت اور کامیابی دے گا،اس لئے وہ ہر طرح سے آپ کو عزیز تھیں۔ ربّ کبھی لے کے اور کبھی دے کے آزماتا ہے۔ نہ دیجیئے انہیں کوئی حکومتی ذمہ داری مگر کچھ عزت ضرور دیجیئے۔ جسے آپ نے ان کی جگہ دی ہے خدا کرے وہ آپ کو کامیابیاں دلائیں لیکن بظاہر ان کے ہاتھوں یہ ہوتا ہوا دشوار نظر آتا ہے ۔ پانامہ سے پہلے جن کا طوطی بولتا تھا اب وہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ کیوں نکالا۔ آپ کی نوجوان قوت آہستہ آہستہ وہ جوش وہ جذبہ کھو رہی ہے آپ کو شاید سب برا لگے لیکن خدا نہ کرے کہ آپ پہ وہ دن آئے جب آپ بھی لوگوں سے پوچھتے پھریں کہ کیا ہوا۔ آپ کے ہی دوست عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید صاحب کا یہ مشہور معقولہ ہے جو ایک دفعہ بکتا ہے وہ سو دفعہ بکتا ہے ۔آپ اپنے گرد ایسے لوگوں کی تعداد کو گن لیجیئے اور اپنے مستقبل کو فیصلہ کیجیئے کہ آپ کو کیا کرنا ہے؟؟ مجھے پتہ ہے کہ جب یہ مضمون چھپے گا تو مجھ پہ بھی آپ کے شیدائی لعنتیں بھیجیں گے لیکن خدا گواہ ہے کہ میں نے سچے دل سے اور نوجوانوں کی نبض پہ ہاتھ رکھ کے آپ کی درست سمت میں راہنمائی کی ہے باقی جو مزاجِ یار میں آئے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔