مہنگائی کیوں کم نہیں ہوتی؟

 مہنگائی کیوں کم نہیں ہوتی؟
 مہنگائی کیوں کم نہیں ہوتی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم ایسے ”خوش بخت“ لوگ ہیں کہ ہماری کوئی بھی کل سیدھی نہیں ہے جب بھی ملکی معاملات کی بات ہو تو سیاست اور سیاست دان ہی زیر بحث آتے ہیں، لیکن اس ملک کے نظام اور گورننس کی بات کم ہی کی جاتی ہے،گورننس کے حوالے سے ہم خود بھی ملوث ہوتے ہیں، آج صبح ہی بات ہو رہی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں دوبار کمی کی گئی۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑا کہ مسافر بسوں اور ٹرینوں سے لے کر گڈزفارورڈنگ کے جو نرخ بڑھائے گئے تھے وہ توقع کے مطابق کم نہیں ہوئے۔ نگران وزیرعلیٰ محسن نقوی نے خود بات کرکے دس اور پندرہ فیصد کمی پر آمادہ کیا۔ ٹرانسپورٹر حضرات نے خود یقین دلایا لیکن عملی شکل ابھی تک سامنے نہیں آئی۔اسی طرح مارکیٹوں پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے بلکہ پیاز اور ٹماٹر مزید مہنگے ہو گئے۔ گھی کی بعض اقسام میں معمولی کمی ریکارڈ کی گئی لیکن سبزی، فروٹ ،دالیں اور مصالحے وغیرہ کے نرخ وہیں کے وہیں کھڑے ہیں البتہ حےرت انگیز طور پر برائلری مرغی کے نرخ بہت کم ہو گئے اور مختلف علاقوں میں 390سے 400روپے فی کلو تک گوشت فروخت ہو رہا ہے، اس پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں، یہ کمی بھی حالات کے تحت ہے، صارفین کی استعداد کم ہوئی، ان سے دوسرے ضروری لوازمات پورے نہیں ہو پا رہے،چنانچہ مرغی کا استعمال کم ہوا جبکہ پولٹری والوں نے نرخ پانچ سو روپے سے چھ سو روپے تک پہنچا دیئے تو لالچ کے تحت پیداوار بڑھا دی گئی، ایک طرف سے پیداوار بڑھی اور دوسری طرف خریداری کم ہوگئی۔ نتیجہ کے طور پر مرغیوں کے وزن بڑھنے لگے، برائلر کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کا گوشت ایک خاص وزن تک قابل استعمال ہوتا ہے، اگر وزن بڑھتا رہے تو ایک طرف فیڈ کھاتی ہیں اوردوسری طرف وزن کی حد پوری کر لینے کے بعد گوشت پھٹنا شروع ہو جاتا ہے بلکہ اکثر اوقات خاص قسم کی بو بھی پیدا ہو جاتی ہے اس لئے جو مال لالچ میں ڈالا گیا وہ گلے پڑ گیا چنانچہ نرخ کم کرکے اسے نکالنے کی کوشش کی جا رہی اور قیمت کم کی گئی ہے۔ اب یہ صارفین کا فرض ہے کہ وہ بائیکاٹ تو کر نہیں پاتے اس لئے خریداری کم کی ہے تو اسے برقرار رکھیں کہ اسی سے فائدہ ہوا اور تو اور اب تو نگران وزیراعلیٰ بھی تسلیم کر چکے کہ نرخ کم کرانے میں موثر کامیابی نہیں ہوتی لہٰذا مارکیٹ کے نظام کی طرف جانا ہوگا کہ ضرورت سے زیادہ فراہمی بڑھائی جائے اور یہ دباﺅ مجبور کرکے نرخ کم کروا سکے یہی فارمولا ہے، ورنہ سرکاری عملہ تو مہنگائی کے خلاف مہم سے اپنی روزی کا انتظام کر لیتا ہے اور اسے ایسی مہمات اچھی لگتی ہیں۔ اس حوالے سے محفل میں بات ہو رہی تھی، سب حضرات متفق تھے کہ سب کے سب اپنا اپنا مفاد دیکھتے ہیں، پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بہت کم ہوئے کسی نے بڑھی قیمتوں کو رضا کارانہ طور پر واپس نہیں لیا حتیٰ کہ حالات یہ ہیں کہ مرغی کے نرخ 180سے 200روپے فی کلو کم ہوئے ہیں، کسی نے شوارما، برگر اور مرغ چنوں یا سالن کے نرخ کم نہیں کئے، یوں وہ خام مال کے نرخوں میں کمی کو اپنے منافع میں شامل کر چکے ہیں، اس لئے کیا یہ سب ”قومی ملزم“ نہیں، ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں، وزیراعلیٰ بھاگ بھاگ کر تھک جائیں گے یہ منافع خور مافیاباز نہیں آئے گا یہ اتنے ظالم لوگ ہیں کہ مہنگا دودھ بھی کیمیکل والا پلا کر بچوں، بڑوں کو مختلف اقسام کی بیماریوں میں مبتلا کرتے اور پھر ادویات مافیا جعلی ادویات سے ان کی موت کے اسباب پیدا کر دیتا ہے ہم پر جو مصیبتیں نازل ہوتی ہیں، ان کی وجہ بھی یہ ”قومی بددیانتی“ ہی ہے۔

دودھ اور ملاوٹ کے حوالے سے بھی عوام کو پریس ریلیزوں کے ذریعے بڑی بڑی خوشخبریاں دی جاتی ہیں۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی گاڑیاں شہر میں گھومتی پائی جاتی ہیں، ان میں موبائل ٹیسٹ لیبارٹری والی گاڑیاں بھی ہیں جو موقع پر ہی اصل، نقل کی پڑتال کرکے نتیجہ سامنے لے آتی ہیں، لیکن میں نے ایسی کسی لیبارٹری کو دکانوں پر جا کر موجود دودھ کے معیار کو چیک کرنے کی کوشش نہیں کرتے نہیں دیکھا۔دودھ فروش نے نرخ بڑھا دیئے کوالٹی بڑھانے کی بجائے خراب کر دی کہ زیادہ منافع کما سکیں، یہ ہماری گورننس کا حال ہے، دوسری طرف یہ دور غیر جانبداری کا زمانہ ہے کہتے ہیں کہ ہمیں تو ووٹ مانگنے نہیں جانا، اگر یہ سب درست ہے تو پھر خوف کس بات کا، کیوں نہیں، تھوک فروشوں اور آڑھتیوں کو پرچون فروشوں کے سامنے بٹھا کر بات کی جاتی، اگر ایسا کریں تو ایک حد تک کامیابی کے امکان بھی ہیں، ورنہ بات چیف سیکرٹری سے نیچے تک آئی اور کہاجاتا ہے کہ وہ تو محنت سے کام کر رہے ہیں اگر پھر بھی حالات ٹھیک نہیں ہوتے۔اس کی وجہ کا پتہ لگانے کی ضرورت ہے، جہاں وزیراعلیٰ کا یہ خیال ہے کہ مارکیٹ کی طرف جایا جائے، مال اور اشیاءبڑھا دی جائیں تو مقابلے کی فضا پیدا ہو جائے گی یہ بالکل درست ہے لیکن اس کے لئے ہر ضرورت کی پیداوار بڑھانا ہوگی اور یہ جتنا آسان نظر آتا ہے اتنا ہے نہیں، بہرحال دیانت دارانہ پڑتال بہتر نتائج دے سکتی ہے تاہم یہ دیکھنا بھی لازم ہے کہ موجودہ ذمہ دار عملہ کیا کررہا ہے کیا اسے یہ احساس نہیں کہ یہ صورت حال کس طرف لے کر جا رہی ہے۔

نوید چودھری کو صدمہ

پیپلزپارٹی کے رہنما نوید چودھری بھائیوں جیسے دوست ہیں اور ہمارے شہر دار پکے لاہوری ہیں، ان کو دو روز قبل صدمہ اٹھانا پڑا جب ان کی اہلیہ اللہ کے حضور حاضر ہو گئیں، خاتون ایک مدبر اور چودھری ”ٹبر“ کی دبنگ خاتون تھیں جب کبھی کسی تقریب میں ملاقات ہوتی تو خلوص سے سلام دعا ہو جاتی تھی، نوید چودھری یارباش ہیں اور ان کا حلقہ احباب بھی وسیع ہے چنانچہ مرحومہ کی مغفرت کی دعا کے لئے نماز جنازہ میں بھرپور شرکت تھی اور آج (ہفتہ) قرآن خوانی میں آنے والے افراد میں بھی ہر شعبہ زندگی کے لوگ موجود تھے۔میں اور احباب اس غم میں نوید چودھری ان کے صاحبزادوں، اور صاحبزادی کے علاوہ پوتوں، پوتیوں اور نواسوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ اللہ ان سب کو صبر دے اور اللہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے۔

مزید :

رائے -کالم -