ای او بی آئی پنشنروں کی فریاد اور قانون کی وضاحت؟

  ای او بی آئی پنشنروں کی فریاد اور قانون کی وضاحت؟
  ای او بی آئی پنشنروں کی فریاد اور قانون کی وضاحت؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لکھنے کے لئے بہت کچھ اور بڑے مسائل ہیں،ان پر لکھا اور بولا بھی جاتا ہے تاہم بعض معاملات اِس نوعیت کے ہیں کہ ان سے لاکھوں لوگ وابستہ ہیں،لیکن اُن پر توجہ نہیں دی جاتی، حتیٰ کہ خود حکومت ِ وقت بھی ان کو نظر انداز کئے ہوئے ہے، حالانکہ ان کا معاملہ کسی قومی خزانے سے نہیں،خود اپنی اس رقم سے ہے،جو وہ ملازمت کے دوران اپنی ماہانہ تنخواہ میں سے کٹواتے رہے ہیں۔ ان کی جمع پونجی کی عرصہ سے لوٹ سیل لگی ہوئی ہے، لیکن ان کی بات نہیں سنی جاتی،یہ لوگ ای او بی آئی (E.O.B.I)کے وہ پنشنر ہیں،جو فریاد کرتے چلے آ رہے ہیں کہ ان کی ماہانہ پنشن اس فیصلے کے مطابق کی جائے جو سرکاری طور پر ہوا کہ پنشن سرکاری طور پر مقرر کردہ مزدور کی تنخواہ کے مساوی ہو گی اس پر عمل نہیں ہوتا۔

اِس سے پہلے کہ بات کو مزید آگے بڑھایا جائے میں بعض بزرگ حضرات کی ایک غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں جو بار بار یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ سب بزرگوں (سینئر سٹیزنز) کو بھی یہ پنشن دی جائے، عرض یہ ہے کہ یہ پنشن ایسی نہیں جو حکومت کی طرف سے دی جاتی ہے،اس کا عمل یا اجراء 1974ء میں باقاعدہ قانون سازی سے ہوا،ذوالفقار علی بھٹو نے بعض ترقی یافتہ رفاحی مملکتوں سے یہ نظریہ لیا کہ ملازمت پیشہ جو لوگ زندگی بھر محنت کے بعد ریٹائرڈ ہوں ان کے گذر اوقات کے لئے کچھ کیا جائے، چنانچہ باقاعدہ تحقیق کے بعد ای او بی آئی کا شعبہ تخلیق کیا گیا۔اس قانون کے تحت25 یا اس سے زیادہ ملازمین والی فیکٹری یا ادارے (نجی یا نیم سرکاری) باقاعدہ رجسٹر کئے جاتے ہیں اور ان رجسٹرڈ اداروں کے ہر ملازم کے ماہانہ مشاہرے میں سے طے شدہ رقم منہا کی جاتی ہے،اسی طرح طے شدہ شرح سے مالک اپنا حصہ ڈالتا اور ایک طے شدہ شرح سے حکومت تعاون کرتی ہے اور یوں یہ تین ذرائع سے حاصل رقم ہر ماہ جمع ہوتی ہے،اِس میں سے کوئی بھی فرد کچھ نہیں لے سکتا،البتہ جب ملازم اپنی مقررہ ملازمت کی مدت پوری کر کے ریٹائر ہو تو اسے ماہانہ مختص پنشن اس فنڈ سے ادا کی جاتی ہے،جو تینوں ذرائع سے جمع ہوتی ہے۔مقصد یہی ہے کہ ریٹائرڈ ہونے والا اپنا وقت گذار سکے۔

اب ذرا انتظامی معاملے کی بات کر لیں تو اس جمع (کٹوتی والی) رقم کو سنبھالنے اور حق داروں تک پہنچانے کے لئے ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹ انسٹیٹیوٹ (E.O.B.I)  کے نام سے ادارہ بنایا گیا جو رجسٹرڈ اجیر کی تصدیق کے بعد اس کے نام پنشن کا اجراء کرتا ہے۔ابتداء ایک ہزار روپے ماہوار سے ہوئی اور1974ء سے اب تک اضافے کے بعد10ہزار روپے ماہانہ ہے۔ بوڑھے پنشنروں کی فریاد بھی نہیں سنی جاتی کہ وہ اپنا حق مانگتے اور سرکاری+ ادارتی فیصلے کے تحت مزدور کی کم از کم ماہانہ تنخواہ کے مطابق پنشن بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن شنوائی نہیں ہوتی۔

اب اس تصویر کا دوسرا رخ ملاحظ فرمائیں کہ انتظام اور ریٹائرڈ بزرگوں کے تحفظ کے لئے جو ادارہ بنایا گیا وہ خود استحصالی نظام کا حصہ بن گیا ہے ،اس ادارے کے ڈھانچے کا اندازہ لگائیں،ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز ہے اس کا چیئرمین ہے، پھر وفاقی سطح پر چار جنرل منیجرز ہیں، اس کے بعد ریجنل دفاتر ہیں، ہر ایک کا سربراہ ریجنل ڈائریکٹر اور کئی ڈائریکٹر اور نیچے ماتحت عملہ ہے یہ سب ان پنشنر حضرات کے مفادات کا تحفظ کرنے کے ذمہ دار ہیں جن کی رقم ان کے پاس امانت کے طور پر جمع ہوتی ہے،اب آپ ان کے مشاہروں اور مراعات کا ملاحظہ کریں تو چیئرمین کی ماہانہ تنخواہ10سے16لاکھ روپے اور دیگر تمام وہ مراعات ہیں جو اعلیٰ ترین سرکاری افسر کو ملتی ہیں،اسی طرح بورڈ کے اراکین کا اعزازیہ دیا جاتا ہے،جبکہ جنرل منیجرز اور ڈائریکٹرز حضرات کی ماہانہ تنخواہ لاکھوں میں ہے اور اس طرح ایک مفید تر منصوبے میں لوٹ مار کی سیل لگی ہوئی ہے اور جن کے لئے یہ سب کیا گیا وہ محروم چلے آ رہے ہیں۔

ای او بی آئی  ادارے کے پاس اربوں روپے جمع ہوئے اور اب بھی ہر ماہ رجسٹرڈ ادارے کروڑوں روپے ماہانہ جمع کراتے ہیں۔ان اربوں روپوں کی خورد برد کا اندازہ یوں لگائیں کہ ایک سابق چیئرمین کے خلاف پانچ ارب روپے غبن کا الزام  لگا، یہ چیئرمین اُس وقت کی حکومت کی   مخالف جماعت سے وابستہ لوگوں کے ریٹائرڈ افسر ہیں۔ نیب نے ان کو گرفتار کر لیا کئی ماہ تحویل میں رہے پھر جیل چلے گئے، حکومت بدلی تو لواحقین نے جماعت تبدیل کر لی پھر ”نیک نام“ چیف جسٹس نے ضمانت منظور کر لی اور وہ رہا ہو کر گمنامی کی زندگی میں ہیں،ممکن ہے باہر چلے گئے ہوں، اسی طرح اس ادارے کے سربراہ اور ان کے ساتھیوں نے ادارے کی بہبود کے لئے کاروبار کے حوالے سے زمینوں کی خریداری شروع کی،ہزاروں روپے مرلہ والی اراضی لاکھوں روپے کے حساب سے خریدی گئی، ایک بڑا رقبہ اس ملک کے دوسرے نمبر کے پراپرٹی ٹائیکون سے خریدا گیا، ان کو ایسا تعاون پیش کیا گیا کہ وہ اس رقم سے اب دوسرے درجہ کے پراپرٹی ٹائیکون بن گئے ہیں، یوں یہ لوٹ سیل اب بھی جاری ہے، لیکن ریٹائرڈ پنشنر اس بدترین مہنگائی کے دور میں منتظر اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ فیصلے کو کئی سال گذر گئے ان کو مزدور کی کم از کم تنخواہ کے برابر پنشن نہیں دی گئی۔ موجودہ وزیر خزانہ اور نگزیب نے تو اس ادارے (ای او بی آئی) سے سرکاری لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے، حالانکہ یہ حکومت اِس ادارے کی مقروض بھی ہے اور جہاں تک لاتعلقی کا سوال ہے تو کیا اورنگزیب صاحب یہ وضاحت کر سکتے ہیں کہ ای او بی آئی کے ڈائریکٹرز اور اس کا چیئرمین کون مقرر کرتا ہے،اِس لئے بہتر ہو کہ کسی احتجاج کے بغیر اِن بوڑھے پنشنرز کی بات سن لی جائے جو اب ایک انجمن بنانے پر مجبور ہو کر مطالبہ کر رہے ہیں اور نہ صرف دھرنے دینے کا پروگرام وضع کر رہے ہیں،بلکہ سپریم کورٹ کے فاضل جج حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ عرصہ سے ای او بی آئی کے حوالے سے جو درخواستیں زیر التواء ہیں، ان کو  سن کر داد رسی کی جائے اور فراڈ میں ملوث مبینہ ملزموں کی ضمانتیں منسوخ کر کے ان کو وصولی تک جیل میں ڈالا جائے۔ اب تو نیب کا بو جھ کم ہو گیا اسے بھی ای او بی آئی کے پانچ ارب روپے سے زیادہ خوردبرد سکینڈل کی تفتیش شروع کر کے ریکوری کرنا چاہئے اور سزا وار کو سزا دلانا چاہئے۔

  بزرگوں کے لئے ای او بی آئی پنشن کا  مطالبہ کرنے والے بھائی اب جان گئے ہوں گے کہ یہ سرکاری رقم نہیں اور نہ ہی سرکاری قواعد لاگو ہیں یہ پنشنروں اور ان کے آجروں کی کٹوتی ہے اِس لئے اس میں سے کسی اور کو کچھ نہیں دیا جا سکتا۔البتہ خود حکومتیں اس سکیم کے مطابق سرکاری اداروں کا نظام بنا کر پنشن کے واجبات سے نجات پا سکتی ہیں۔

شاید اب ہی اتر جائے کسی کے دل میں یہ بات

مزید :

رائے -کالم -