کیا امریکہ کو مائنس کیا جا سکتا ہے

ملک اِس وقت اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر مشکل ترین حالات سے گذر رہا ہے۔اندرونی طور پر ایک ایسی حکومت بنوائی گئی جسے عوام کا ایک حصہ ماننے کو تیار نہیں۔ کپتان کی قید اور سزا پر بھی سوالیہ نشان ہیں، بیرونی دنیا بھی موجودہ پاکستانی حکومت کو فارم47 کی پیداوار کہہ کر اِس سے کوئی تعاون نہیں کر رہی،جس کے نتیجے میں ملک ہر میدان میں پیچھے چلا جا رہا ہے۔امریکہ پاکستان کے معاملات کپتان کی سزا، غیر جمہوری رویوں،انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور میڈیا پابندیوں کی وجہ سے ”نالاں“ ہے اور اِن معاملات میں امریکہ پاکستان کو واضع پیغام دے چکا ہے۔وزیر داخلہ کے دورہ امریکہ میں جو کچھ ہوا وہ اب کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔امریکہ کی جانب سے یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ وہ 24پاکستانی حکام کو مزید دیکھنا نہیں چاہتا، اِن 24حکام کے نام تو کہیں نہیں آئے،لیکن خود ہی اندازے لگا رہے ہیں کہ اِن میں کون کون ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ بارہا یہ باور کرا چکی ہے،لیکن عوام، سیاستدان اور بڑے بڑے بزنس ٹائیکون پتہ نہیں کیوں اِس حقیقت کو اکثر نہیں مانتے تو سخت سزاؤں کو جھیلتے ہیں۔حال ہی میں ایک پراپرٹی ٹائیکون ملک سے باہر جا کر بیٹھ گیا،کیونکہ شاید وہ دوسرے ”پراپرٹی ٹائیکون“ سے بڑا ہونے کی کوشش کر رہا تھا اس کے لئے حالات ایسے کر دیئے گئے کہ اُسے بھاگنا پڑا اور اب وہ باہر بیٹھ کر بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس کی بلیک میلنگ میں آتی ہے یا نہیں۔ایک بات ضرور ہے کہ کپتان کو سزا دینے کے بعد متعدد غیر موافق حالات اِس تیزی سے اُبھرے ہیں کہ سزا کسی کو یاد بھی نہیں، لیکن امریکی موقف کے بعد تمام غیر قانونی اور غیر آئینی واقعات ریورس کئے جائیں گے یا پھر امریکی انحصارختم کیا جائے گا جو بظاہر ممکن نظر نہیں آتا، کیونکہ ملک میں امریکی ایجنٹوں کی بھرمار ہو چکی ہے جو اپنی اپنی جگہ پرامریکی مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں۔
بظاہر ایسے لگتا ہے کہ ملک کے کرتا دھرتا چین سے اپنے حالات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں جو لیڈروں کے ”غیر ذمہ دارانہ بیانات“ اور کرپشن کی وجہ سے انتہائی خراب ہو چکے ہیں شاید اِسی لئے وزیراعظم یا ن لیگی وزراء کی بجائے صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری چین کا دورہ کرنے والے ہیں لیکن میں آپ کو یہاں چینی سفارتخانے کے پولیٹیکل اتاشی کے برطانوی اخبار گارڈین کو دیئے گئے انٹرویو کے کچھ حصے بتانا چاہتی ہوں جس کے بعد آپ بہت سی چیزیں خودبخود سمجھ جائیں گے۔یاد رہے کہ صدر آصف علی زرداری کا دورہ چین تین ماہ سے زیر التواء تھا جو اب یاد آ گیا ہے۔اسلام آباد کے باخبر حلقے کہتے ہیں کہ اس دورے میں امریکہ کو مائنس کر کے چین اور روس سے تعلقات بڑھائے جائیں گے، کہ امریکی ناراضگی اور پابندیوں کی وجہ سے شمالی کوریا، برما، وینزویلا اور ایران وغیرہ کی طرح چین اور روس سے مدد لی جائے۔اب میں آتی ہوں چینی پولیٹیکل اتاشی کے انٹرویو کی طرف۔ چینی اتاشی کا کہنا ہے کہ چین کو سی پیک کے دوسرے مرحلے کے لئے فنڈز جاری کرنے میں شدید تحفظات ہیں اور وہ چینی کارکنوں کی سکیورٹی سے بھی مطمئن نہیں۔انہوں نے گارڈین کو بتایا کہ سی پی کے26 پراجیکٹس پر کام روک دیا گیا ہے اور چینی حکومت نے مزید فنڈز جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔اتاشی کا کہنا تھا چین کی جو پرائیویٹ کمپنیاں کراچی اور سندھ میں کام کر رہی ہیں انہوں نے حکومت کو خط لکھا ہے کہ انہیں سندھ کی پولیس سے تحفظ دیا جائے،کیونکہ ان کی بھتہ خوری روز بروز بڑھ رہی ہے۔
صدر آصف علی زرداری کو چین بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا،اس دورے میں کیونکہ کئی اہم فیصلے ہو سکتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی فیصلہ حتمی نہیں ہو سکتا اِس لئے اسٹیبلشمنٹ کے چند اعلیٰ حکام بھی صدر کے ساتھ چین جائیں گے۔دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بھی اتنا بڑا یوٹرن لیتے ہوئے ہزار بار سوچے گی۔ چین میں اِس وقت پاکستان کے متعلق یہ سوچ ہے کہ اُسے سی پیک پراجیکٹ میں دھوکا دیا گیا اور کام کی رفتار بہت آہستہ رکھی گئی اور سابقہ حکومت نے بائیڈن کے کہنے پر عملاً اس پر کام روکے رکھا۔
اسلام آباد کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ صدر آصف علی زرداری اپنے دورے میں چین کو چینی فوج اور بکتر بند گاڑیاں بھیجنے کا بھی کہہ سکتے ہیں اور گوادر میں اڈے بنانے پر بھی مذاکرات ہو سکتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ چین اب پاکستان پر بھروسہ کرتا ہے۔دوسری طرف کیا اسٹیبلشمنٹ کو چین کے ساتھ ایک حد سے بڑھے ہوئے معاہدے منظور ہوئے تو ٹھیک ہے ورنہ صدر آصف علی زرداری واپسی پر امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر سکتے ہیں اس کے بعد ملکی صورتحال یکسر تبدیل ہو سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭