جنّات کی قبر پر شرط لگانے والے نوجوان کا ایسا انجام کہ پھر کوئی منکر ایسی حرکت کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا
یہ ان دنوں کی بات ہے جب موبائل تو تھے لیکن ابھی تک ہمارے گاؤں میں انٹر نیٹ نام کی کوئی شے ہی موجود نہ تھی۔ روزانہ کی بنیاد پر ہم چار دوست رات کو گھروں سے باہر چارپائی لے جاتے اور وہاں پر بیٹھ کر گپ بازی کرتے۔ گرمیوں کا موسم ہوتا تھا۔ بجلی معمول کے مطابق نہیں ہوتی تھی اور رات دیر تک گپ شپ میں مصروف رہتے ۔
ایک دن ہماری بات جنات کے واقعات پر ہونے لگی کہ فلاں بزرگ گھوڑے پر سوار رات گئے گاؤں واپس لوٹ رہے تھے انہیں بکری میں ملی انہوں نے اسے اپنے گھوڑے کے اوپر لاد دیا اور تھوڑی دور جا کر دیکھا تو بکری کی ٹاٹگیں بڑی ہو رہی تھیں،اس حد درجہ کہ زمین کو چھونے لگیں۔
ایسے واقعات تو میں شوق سے سنتا لیکن اندر سے ڈر بھی جاتا ۔ گھر کی طرف روانہ ہو کر اسلم کو اپنے راستے پر لے آتا تاکہ اکیلا گھر کی طرف نہ جاوں لیکن ظاہر نہیں ہونے دیتا تھا کہ مجھے بھی ڈر لگتا ہے۔ لیکن اسلم کو ان سب باتوں پر بالکل بھی بھروسہ نہیں تھا اور اس دن بھی وہ ان بزرگوں کے جناتی قصے کہانیوں کا مذاق اڑا نے لگتا۔ ایک دن وسیم نے اسلم سے کہا’’ تو پھر ٹھیک ہے شرط لگی ۔تم اگر قبرستان کی فلاں قبر پر یہ گندہ رومال اور اس کے اوپر اینٹ رکھ کر آگئے تو مان لیں گے تمہیں بھی ‘‘یہ قبر ایک بزرگ کی تھی ۔جن کے بارے کہا جاتا تھا کہ وہ زندہ پیر تھے۔ان کے بہت سے مریدوں میں جنات بھی تھے ۔
اسلم بولا’’ اگر رکھ آیا تو ؟‘‘
’’پھر ہم مان لیں گے یہ سب کچھ نہیں ہوتا اور تم شہر میں جس ہوٹل کا نام لو گے وہاں کھانا کھلائیں گے۔ ‘‘۔
مجھے یہ سب کچھ بہت عجیب لگا ۔ میں نے اسلم کو روکنا چاہا کہ وہ ایسی شرط نہ لگائے لیکن مجھے دوستوں کی اکثریت کے آگے ہارنا پڑا۔
ہم سب اٹھ کر قبرستان کی طرف بڑھنے لگے ۔ میرے ذہن میں پہلے سے سنی قبرستان کی کہانیاں گھومنے لگیں کہ ایک بار ایسے ہی کسی نے شرط لگائی تھی اور وہ واپس نہیں آیاتھا اور یہ کہ اگر کبھی بھی جنات پر شرط لگائی جائے تو وہ عمل انہیں بالکل پسند نہیں جس پر وہ اور زیادہ طیش میں آجاتے ہیں۔ایک بار تو یہ سننے کو ملا کہ کسی نے شرط لگائی اور دو دن بعد لاش نہر کے کنارے سے ملی اور ایک دن یہاں سے تو بچوں کے رونے کی آواز بھی آرہی تھی۔ اس طرح کے ڈھیروں قصے یک بعد دیگرے میں ذہن میں چل رہے تھے۔
گاؤں کے قبرستان سے مجھے ہمیشہ سے خوف آتاتھا۔ میں گرمیوں کی دوپہر کو اورخاص کر کبھی اکیلے وہاں سے نہیں گزرتا تھا ۔ وہاں پر موجود برگد کا درخت ہے جس کی شاخیں جھک کر زمین پر آگئی ہیں۔ ہم بچپن سے اسے دیکھتے آرہے ہیں۔ مجھے ہمیشہ اس درخت سے خوف آتا تھا جیسے وہاں جنات کا بسیرا ہو اور مرے ذہن میں اچانک سے خیال آیا کہ جہاں اسلم نے اپنا رومال رکھنا ہے وہ قبر بھی تو اسی درخت کے نیچے ہے۔
یونہی سوچتے سوچتے ہم منزل کے قریب آ گئے جہاں ہمیں رکنا تھا۔ یہاں سے اسلم کو اکیلے جانا تھا۔ میں تب بھی اس کھیل کو روکنا چاہتا تھا ،اسلم چلا گیا اور ہم وہیں رک گئےَ ایک دوسرے کو چپ چاپ دیکھنے لگے ۔ وسیم نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا ’’اسلم کو گئے ہوئے زیادہ وقت ہو گیا ہے‘‘
’’ہمیں چل کر دیکھنا چاہئے‘‘ مشتاق نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
ہم تینوں نے ہاں میں ہاں ملا دی اور اس قبرستان کے راستے نکل پڑے۔ کچھ نزدیک پہنچنے پر مجھے یوں لگا جیسے کوئی بچہ رو رہا ہو۔ تھوڑا اور نزدیک پہنچنے پر رونے کی آواز نے شدرت اختیار کر لی۔ اس آواز میں ایک خوف تھا۔آواز چھوٹے بچے کی تھی لیکن ساتھ ہی بلیوں کی غرغراہٹ بھی شامل تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد سناٹا چھا گیا۔
ہم برگد کے درخت کے قریب پہنچے تو وہاں اسلم کو لیٹا ہوا پایا ۔ ہمارے اوسان خطا ہو گئے۔ پاس پہنچے تو اسلم کی سانسیں چل رہی تھیں۔ ہم نے فوراً اسے اٹھایا اور واپس آگئے۔ہسپتال میں تین دن اس کا علاج ہوتا رہا ۔ پیروں کے چکر بھی کاٹے لیکن حالت جوں کی توں رہی۔اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی ۔وہ بولنا چاہتا تو بہ مشکل اپنے ہونٹوں کو ایک کونے میں لے جا کر کے کہتا ’’شرط ‘‘۔
اسے نیند نہیں آتی تھی۔ چوبیس گھنٹے آنکھیں کھلی رہتیں ۔ اکثر اوقات اس کے جسم سے درد اٹھتی لیکن وہ چیخ نہیں سکتا تھا۔ صرف آنکھوں سے آنسو نکلتے رہتے اور منہ سے جھاگ۔ یونہی دس دن گزر گئے۔وہ جاگتا رہا ،آنکھوں سے آنسو بہاتا رہا،اور پھر ایک دن وہ اسی حالت میں اللہ کو پیارا ہوگیا ۔یہ اسکے قل والے دن کی بات ہے ۔ہم تینوں جب دعا کرکے اسکے گھر کے باہر نکلے تو ہماری نظر اسکے گھر کی دیوار پر پڑی جس پر وہی گندہ رومال دھرا پڑا تھا،جو اسلم قبر پر رکھنے گیا تھا ،اسے دیکھ کر ہم دہشت زدہ رہ گئے ،آج تک ہمیں اسکی موت کے حقیقی اسرار کا پردہ چاک کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔