جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر 37
یہ دنیا میرے فہم سے ماورا تھی۔میں خود کو ایک صحرا میں کھڑادیکھ رہا تھا ۔میرے پیر ننگے تھے تن پر بھی کوئی کپڑا نہ تھا۔جابجا کانٹے دار چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں دکھائی دے رہی تھیں ۔دور تک کوئی سایہ درا درخت نہیں تھا ۔سورج عین اوپر تھا اور لگتا تھا یہ جہنم کا صحرا ہے۔سورج قہر برسا رہاتھا۔ریت اتنی گرم تھی کہ انسان کا ماس جل کر پگل جاتا ۔مجھے بڑی شدید پیاس محسوس ہورہی تھی ۔میں پانی پانی کے لئے چلانا چاہ رہا تھا مگر آواز میرے حلق میں کانٹا بن کر چبھ جاتی اور میں گلا دبا کر بیٹھ جاتا ۔میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ،گالوں تک آنے سے پہلے ہی خشک ہوجاتے ۔گرمی جو اسقدر زیادہ تھی ۔مجھے اماں کی یاد آئی اور اماں اماں پکارنے کی کوشش کرنے لگا لیکن وائے حسرتے ۔اماں کا لفظ خود میرے کان بھی نہ سن سکے۔میں بے حال ہوکر ریت پر بیٹھ گیا لیکن اگلے ہی لمحے اچھل کر کھڑا ہوگیا ۔میری پشت ایسے جلی تھی جیسے شدیدگرم توے پر بیٹھ گیا ہوں۔میرے پیروں میں بھی چھالے پڑ گئے تھے ،ساری جلد بھٹی میں جلے تپے لوہے کی طرح سرخ ہوگئی تھی ۔
جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر 36
اس لمحہ ساری دنیا کا منظر بدل گیا اور میں پھر سے اسی حجرے کے حصار میں حافظ صاحب کے سامنے بیٹھا تھا ۔
” تیراروگ بہت بڑاہے ۔تو جہنم کا سودا کررہا ہے “ حافظ صاحب نے تاسف آمیز انداز میں کہا ” میں تمہیں اس وقت ہی بچا سکوں گا جب اللہ کا اذن ہوگا “
” حافظ صاحب کیا ہوگیا ہے میرے لعل کو “ ماں نے ہذیانی ہوکر پوچھا ” مجھے بڑا خوف آرہا ہے آپ کی بات سن “
” میری بہن میں اپنے تئیں کوشش تو کررہا ہوں کہ یہ بچ جائے لیکن اسکے لئے آپ کو ہمت کرنی ہوگی ،کیونکہ میں خود بھی الجھ رہا ہوں کہ اس پر جو شیطانی قوتیں سوار ہیں انہوں نے اسکو بری طرح اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے “ یہ کہتے ہوئے انہوں نے میرے پیروں کی جانب اشارہ کیا اور پھر میرے پیٹ سے قمیض اٹھا کر دکھائی ۔وہ ابھی تک سرخ تھی ،پیروں کے چھالے بتا رہے تھے کہ میں کسی خواب سے بیدار نہیں ہوا بلکہ کوئی کشٹ جھیل کر آیا ہوں ۔
”ہائے میں مرگئی ....“ اماں میری حالت دیکھ کر سسک پڑی اور اٹھ کر میرے پاس آنے لگی تو حافظ صاحب نے فوری اسکو روک دیا ۔
” ہاتھ نہ لگانا اسکو “ حافظ صاحب نے کہا اور پھر اماں سے سوال کیا ” مجھے اس کے بارے میں سب کو کچھ بتاو۔یہ عام آسیب کا چکر نہیں ہے “
ماں پہلے تو متردد ہوئی پھر اس نے سب کو کچھ بتادیا ۔ حافظ صاحب سن کر سناٹے میں آگئے” تم کیسی عورت ہو ،ایک کالا علم کرنے والے کافر کے ساتھ زندگی گزار رہی ہو ۔تمہارا تو اس سے نکاح قائم نہیں رہ سکتا ۔عجیب عورت ہو ۔وہ مسلمان نہیں ہے کیونکہ وہ اس سے منحرف ہوچکا ہے ۔کالا علم کرنے کے دیوی دیوتاوں کو سجدے کرتا اور شیطان کی پوجا کرتا ہے تو ایسے میں تیری جیسی نمازی پرہیز گار عورت کیسے رہ سکتی ہے “ حافظ صاحب جلال میں آگئے” تم فوری طور پر اس کو چھوڑ دو ورنہ جان بوجھ کر بھی اسکے ساتھ رہوگی تو گناہ کروگی ۔اور پھر یہ تمہارا بیٹا اسی آگ میں جلتا رہے گا “
ماں روپڑی ” میں بڑی کمزور عورت ہوں حافظ صاحب ،ایک عرصہ سے اسکے ظلم کو سہہ رہی ہوں اور یہ امید رکھ رہی تھی کہ ایک دن اسکو خدا کا خوف آئے گا۔وہ توبہ کرلے گا“
” جن کے دلوں پر اللہ نے سیاہی پھیر دی ہو ،تالے لگادئے ہوں وہ بڑا بے رحم اور اندھا بہرہ ہوجاتا ہے ۔تم ایک عام عورت ہو فاطمہ .... اور عام عورت ہی رہو ۔تمہارا اور اسکا ملاپ نہیں ہونا چاہئے ۔بچہ اور ایما ن چاہئے تو اس سے الگ ہوجاو“
” مجھے بتائیں میں کیا کروں ؟“ اماں نے نڈھال ہوکر پوچھا ” میرا کوئی نہیں ان دونوں کے سوا “
” اللہ ہے ناں ۔ہم سب محلے دار اس کو نکال دیں گے یہاں سے ۔دفع ہوجائے وہ منحوس اپنی شکل لیکر ....“ حافظ صاحب ابھی کچھ کہہ ہی رہے تھے کہ ایک سات آ ٹھ سالہ گول مٹول سی سرخ رنگت والی بچی اندر آگئی ۔اس نے ہاتھ میں چائے کا کپ اٹھا رکھا تھا ، حافظ صاحب نے اسے دیکھا تو ان کا چہرہ پرسکون ہوگیا ۔” رکھ دوادھر بٹیا“ انہوں نے پیار سے اسکے سر پر ہاتھ رکھا تو اسنے چائے کا کپ میری اماں کے سامنے رکھ دیا ” چائے پئیں آپ ،سوچتاہوں کیا کرسکتے ہیں آپ کے لئے “ حافظ صاحب نے ٹھنڈی سانس لی ۔وہ بچی مجھے غور سے دیکھنے لگی ۔مجھے بے حد پیاس لگ رہی تھی ۔میں نے کہا” مجھے پانی پلادیں “
یہ سنتے ہی وہ تیزی سے بولی ” اچھا میں لاتی ہوں “ مگر اس سے پہلے کہ وہ جاتی ، حافظ صاحب نے کہا ” نہیں بٹیا آپ جاو ،میں خود پلادوں گا پانی ،آپ جاو اور اپنا سبق یاد کرو“
بچی نے جاتے جاتے مڑ کر میری جانب ایسی مظلومانہ نظروں سے دیکھا جیسے اسکو مجھ پر رحم آیا ہو۔اس نے ہونٹ سکیڑے اور آہستہ سے بولی” ابو میں نے سورہ ملک یاد کرلی ہے ۔اب کون سی سورہ مبارکہ حفظ کروں “
” ماشاءاللہ ۔آپ ابھی سورہ ملک ہی دہراو میری جان ۔میںان کو فارغ کرلوں پھر آپ سے سنتا ہوں “
وہ حجرے سے باہر چلی گئی ،میرے ذہن پر اسکا عکس سا بیٹھ گیا ۔اسکا بھولپن،سادگی اور پارسائی دیکھ کر مجھے بہت بھلا لگا ،میں اس وقت اپنی تکلیف میں تھا لیکن یہ بات میرے اندر چھپی شیطانیت محسوس کرارہی تھی کہ میرا نفس اب زندہ ہے ۔
”ہاں تو فاطمہ بہن کیا سوچا ہے ؟“ اماں کو چپ لگ گئی ،مجھے تکتکی چلی گئی ،پھر جب بولی تو اسکا خوف اسکی زبان سے چھلکنے لگا” وہ اسکو لے جائے گا،بڑا پیار کرتا ہے بابر سے “
حافظ صاحب نے اماں کو تسلی دی اور شریعت کی رو سے سمجھایا کہ اسلام میں عورت کتنی مضبوط ہوتی ہے ،اماں کو حوصلہ ہوا۔ حافظ صاحب اب میری جانب متوجہ ہوئے اور بولے ”پانی پینا ہے “
میں نے اقرار میں سر ہلایا ۔وہ اٹھے اور شیشے کی الماری کھول کر اس میں رکھی ایک چھوٹی سی بوتل نکالی اور اسے کپ میں ڈال کر کہا ” لو پی لو“
میں نے کپ کو منہ لگایا اور غٹاغت پینے لگا تو وہ بولے” آرام سے گھونٹ گھونٹ کرکے پئیو ۔یہ آب زم زم ہے“ مجھے تو معلوم نہیں تھا اس دور میں کہ آب زم زم کیا ہوتا ہے ۔لیکن اس مقدس پانی کی تاثیرنے حلق سے اترتے ہی اپنی تاثیر دکھا دی تھی ۔یہ اللہ کا انعام یافتہ پانی تھا اور اللہ کا ایک نیک بندہ ہی مجھے پلارہا تھا ۔پانی پیتے ہی جیسے میرے پورے بدن میں سنسنی سے پھیلنے لگی ،اس میں سرور تھا ۔لگا جیسے تپے ہوئے برتن میں پانی ڈال دیا جائے،جیسے گرم زمین پر پانی انڈیل دیا جائے ۔میرے جسم کی رگوں میں بھڑکتے شیطانی لاوے پر آب زم زم کی تاثیر پہنچی تو کلیجے تک سرور پہنچا ،ذہن ہلکا سا ہوا ۔
حافظ صاحب نے اماں کو ایک تعویذ دیا اور سمجھایا کہ اسکو گھر میں جاکر جلانا ،دوسرا تعویذ انہوں نے پانی میں گھول کردیا اور کہا کہ جب اسے پیاس لگے ،اسکو پانی یہ دم والا دینا ہے ۔اماں نے میرا ہاتھ تھاما اور جب میں کھڑا ہوا تو حیرت انگیز طور پر میرے پیروں کے چھالے ختم ہوگئے تھے ا ور بدن کی لالی بھی ختم ہوگئی تھی ۔اماں بڑی مطمئین تھی ۔میں اپنے پیروں پر چل کر اسکے ساتھ گھر آیااور آتے ہی سو گیا ۔اماں نے حافظ صاحب کی ہدایت پر عمل کیا اور تعویذات کی دھونی پورے گھر میں دی ۔وہ بڑی مطمئین تھی۔اب وہ ماں بن کر سوچ رہی تھی ۔یونہی ایک ہفتہ اماں مجھے دم والا پانی پلاتی رہی اور میرے اندر کافی تبدیلی آگئی لیکن کوئی ایسی چیز تھی جس نے اب میرا پیٹ پکڑ لیا تھا ۔یکایک مجھے ابکائیاں آنے لگتیں لیکن میں قے کرنے کی کوشش میں کافی دیر تک پیٹ تھامے ڈکراٹا رہتا۔ حافظ صاحب سے بات ہوئی تو اماں کوتسلی دیکر انہوں نے کہا کہ یہ جادو عملیات کے اثرات ہیں جو جلد ختم ہوجائیں گے ۔اس روز میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ اس گڑیا جیسی بچی نے مجھے اپنے ہاتھوں سے پانی بھی پلایا تھا ۔وہ بڑی خوش ہوئی ،مجھے اس سے لگن سی محسوس ہوئی ۔اس نے ہمیں اپنی پیاری سے قرآت میں سورہ ملک بھی پڑھ کر سنائی ۔بعد میں اس نے پوچھا ” تمہیں کون کون سی سورت حفظ ہے “ میں خاموش رہا تو اماں نے کہا ” اس نے قرآن نہیں پڑھا “
وہ پریشان ہوگئی” قرآن نہیں پڑھا اور اتنا بڑا ہوگیا “ اسکی معصومانہ بات سن کر حافظ صاحب مسکرائے تو وہ بولی” ابو آپ اسکو قرآن پڑھائیں ناں “
یہ بات اماں کو بہت اچھی لگی ۔بولی” یہ تو سب سے اچھی بات ہوجائے گی ۔میں چاہتی ہوں کہ بابر حسین بھی حافظ قرآن بن جائے تاکہ ....“ وہ بات کرتے کرتے رک گئی۔اسکی ادھوری بات حافظ صاحب پوری طرح سمجھ گئے ۔طے پاگیا کہ جمعہ کے روز سے میں باقاعدہ حافظ صاحب کے پاس قرآن پاک حفظ کرنے کے لئے آیا کروں گا اور جب تک میں حفظ نہ کرلیتا ،سکول نہیں جاوں گا ۔(جاری ہے )