پی پی کا یوم تاسیس…… بعض یادداشتیں
پاکستان پیپلزپارٹی آج یوم تاسیس منا رہی ہے، دوسرے معنوں میں اس جماعت کی 55ویں سالگرہ ہے کہ خود پارٹی والوں کے مطابق جماعت کا قیام 29 نومبر 1967ء کو گلبرگ لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن (مرحوم) کی رہائش گاہ پر عمل میں آیا تھا، اس سلسلے میں معمولی وضاحت کی ضرورت ہے کہ جماعت کانام، قیام کا فیصلہ تو اس سے پہلے ہی ہالہ شریف (سندھ) میں مخدوم طالب المولیٰ کی رہائش پر ہو گیا تھا، تاہم باقاعدہ اعلان گلبرگ میں ہوا۔ بہت سے ساتھی اور دوست اس اجلاس میں شرکت اور بنیادی رکن ہونے کے دعویدار ہیں تاہم حقیقت میں گلبرگ کے4والی رہائش کے لان میں قریباً ڈھائی تین سو افراد موجود تھے کہ نہ تو پبلسٹی ہوئی اور نہ ہی جگہ بڑی تھی۔ چھ کینال کی کوٹھی کا لان جتنا بڑا ہو سکتا ہے اتنی ہی گنجائش تھی اگرچہ ذوالفقارعلی بھٹو جماعت بنا لینے سے پہلے ہی مقبولیت حاصل کر چکے تھے۔ ابتداء میں تووہ خود ہچکچاہٹ کا شکار رہے، تاہم جب اطراف سے دباؤ آیا تو پھر مخدوم طالب المولیٰ کی رہائش پر مشاورت کے بعد فیصلہ کرہی لیا گیا جماعت کے قیام اور مقاصد کے حوالے سے لکھنے والے بہت ہیں، میرا تو جی چاہتا ہے کہ اس سے ہٹ کر کچھ یادداشتیں تحریر کی جائیں، اسی حوالے سے ایک وضاحت بھی ہو جائے گی جو میرے ذمہ ہے اور ذہنی کشمکش کی وجہ سے ہر بار یہ غلطی کرتا ہوں جس کی تصحیح اس بار متعلقہ شخص کی طرف سے ہو گئی ہے۔
پارٹی کے مقاصد کے حوالے سے اس بار پہل برادر اسلم گورداسپوری نے کر دی حالانکہ چودھری منور انجم بازی لے جانے میں تاک تھے اور محترم بیش (بشیر ریاض) تو ہر موقع پر اپنی یادداشتوں کو کھنگال کر کچھ نیا لے آتے تھے، فرحت اللہ بابر بھی لکھنے والوں میں ہیں اور ان کی تحریروں سے اکثر کئی گوشے بے نقاب ہوتے ہیں، پاکستان پیپلزپارٹی سے ایک رپورٹر(صحافی) کی حیثیت سے میرا واسطہ تو اس تحریک سے رہا ہے جو ایوب خان کی آمریت کے خلاف تھی اور ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی جماعت کے ساتھ اکیلے پرواز کی تھی، جبکہ دوسری طرف باباء اتحاد نوابزادہ نصراللہ خان (مرحوم) اتحاد بنا کر سرگرم عمل ہوئے تھے کہ انہوں نے تو متحدہ مجلس عمل بنا کر ایوب خان کے خلاف مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار بنایا تھا اور ایوب خان نے اپنے نافذ کئے گئے آئین کے تحت بنیادی جمہوریت کے اراکین کے ذریعے دھاندلی کی اور ادھر سے ہمارے مولانا بھاشانی بھی پیچھے ہٹ گئے تھے، بہرحال یہ موضوع الگ ہے آج تو پاکستان پیپلزپارٹی ہی کا ذکر ہونا چاہیے۔
اسلم گورداسپوری کے حوالے سے مجھے تیز گام کا وہ سفر یاد آ رہا ہے جو ہم نے بھٹو صاحب کے ساتھ اکٹھے کیا تھا اور وہ یہ سفر ڈپٹی وزیراعظم کی حیثیت سے کررہے تھے، بہرحال اس سے قبل ایک اہم اور دلچسپ واقعہ بھی یاد آ رہا ہے، 1965ء کی پاک بھارت جنگ اور پھر معاہدہ تاشقند کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے ایوب خان کے ساتھ اختلاف ہو گئے تھے اور انہوں نے تاشقند سے واپسی پر وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا اور ان کا یہ فیصلہ ہی ان کی شہرت کا سبب بنا تھا اگرچہ وہ ابتداء میں بہت ہی پس و پیش کرتے رہے اس حوالے سے بعض حضرات ان کے خوف سے بھی منسوب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ملک امیر محمد خان جیسا سخت گیر گورنر تھا جس کی مونچھ کا ذکر ہوتا تھا۔
ان دنوں لاہور میں دو شریف افسر تعینات تھے جو ہم اخبار نویسوں اور وکلاء کے لئے بھی دلچسپی کا باعث تھے۔ لودھی صاحب ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل اور سید ناصر شاہ سٹی مجسٹریٹ تھے، اس دور میں مجسٹریسی نظام تھا اور ان حضرات کو عدالتی کے ساتھ ساتھ انتظامی اختیارات بھی حاصل تھے، میں ان دنوں کورٹس رپورٹنگ بھی کرتا تھا، چنانچہ ہم تین چار رپورٹر دوستوں کی ان کے ساتھ بے تکلفی بھی تھی۔ یوں بھی وہ دور اچھا تھا، ڈپٹی کمشنر اور مجسٹریٹ بھی نسبی لوگ تھے۔ یہ اسی دور کا ذکر ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بذریعہ ٹرین اسلام آباد سے کراچی اور وہاں سے لاڑکانہ جانے کا پروگرام بنایا، اس حوالے سے بھی کئی کہانیاں ہیں، تاہم یہ بات تصدیق شدہ ہے کہ ان کی شہرت ان سے پہلے پہنچ گئی تھی، ان کی ٹرین لاہور پہنچنے سے پہلے ہی لاہوریئے پرجوش تھے اور بہت پہلے سے ریلوے سٹیشن پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ میری تو ڈیوٹی تھی چنانچہ شوق سے پہنچا تو اندر باہر بہت ہجوم ہو گیا تھا ہمارے سینئرز بھی آئے ہوئے تھے، لودھی صاحب اور سید ناصر علی شاہ ریلوے اسٹیشن کی مرکزی عمارت کے باہر بائیں طرف کھڑے دیکھ رہے تھے، لوگ آتے چلے جا رہے تھے۔ اچانک دباؤ کے باعث کچھ ٹوٹنے کی آوازیں آئیں، شاید اندر کے حصے میں کسی کیبن کا شیشہ ٹوٹا تھا سیدناصر علی شاہ برہم ہوگئے اور وہ لاٹھی چارج کا حکم دینے والے تھے کہ لودھی صاحب اپنے مخصوص انداز میں بولے۔ارے، مرواؤ گے یار، نظر نہیں آتا لوگ پرجوش ہیں۔ ناصر شاہ صاحب مان گئے ورنہ لاٹھی چارج سے بڑا مسئلہ پیدا ہو جانا تھا، اندر کی رپورٹ یہ رہی کہ ہجوم نے ٹرین کو روک لیا تھا، چھت پر بھی نوجوان تھے اور بھٹوسے باہر آنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔وہ کمپارٹمنٹ میں یہ سب دیکھ اور سوچ رہے تھے۔ ان کو حقیقتاً ہچکچاہٹ تھی شاید ان کے لئے یہ پہلا موقع تھا، بہرحال ان کو کمپارٹمنٹ سے باہر آنا پڑا اور انہوں نے نوجوانوں کے نعروں کے جواب میں ہاتھ ہلائے تاہم اصرار کے باوجود اس روز خطاب نہ کیا البتہ یہ ظاہر ہو گیا تھا کہ حالات ان کے موافق ہو چکے ہیں اور پھر کچھ عرصہ لاہور کی تقریبات میں شرکت اور خطاب کے بعد جماعت بنانے پر مجبور اور تیار ہو گئے۔ لاہور میں ان کو راشد بٹ اور ان کے طالب علم ساتھیوں نے لارڈز ریسٹورنٹ (مال روڈ) پر مدعو کیا اور پھر ایک بڑی تقریب وائی ایم سی اے ہال میں بھی ہوئی اور راقم کی چند وکیل دوستوں کے ساتھ کوشش سے وہ ڈسٹرکٹ بار بھی آئے اور منصور ملک (مرحوم) کے ساتھ دورہ کیا اور مختصر خطاب بھی کیا، وائی ایم سی اے میں تو محترم مجید نظامی نے بھی پذیرائی کی تھی۔
ذکر برادر اسلم گورداسپوری سے شروع کیا تھا، بات کہیں سے کہیں چلی گئی میں بھٹو، بے نظیر اور پھر محترمہ شہید کے تمام ادوار دیکھے اور بیٹ رپورٹر کی حیثیت سے کور کئے ہوئے ہیں اس لئے بہت سے گوشے ابھی سامنے نہیں آ سکے جو تحریر کئے جا سکتے ہیں، کالم میں اتنی گنجائش کہاں؟ بہرحال اس واقع کا ذکر تو کر ہی دوں۔ یہ اس دور کی بات ہے جب اقتدار کی منتقلی پر زور دیا جا رہا تھا،یحییٰ خان براجمان تھے، بھٹو صاحب کو نائب وزیراعظم بنا دیا گیا(پرویز الٰہی اور اسحاق ڈار سے قبل یہ اعزاز انہی کے پاس تھا) اور انہوں نے تیزگام سے کراچی تک کے سفر کا راولپنڈی سے آغاز کیا، صحافی دوست بھی ساتھ لاہور سے میں بھی شامل ہوا اور ملتان تک گیا۔ اسلم گورداسپوری بھی ساتھ تھے۔ راستے میں وقفے وقفے سے بھٹو اپنے کیبن میں بلاتے رہے۔ اسلم گورداسپوری کی تب نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ بھٹو صاحب نے ان کو سوٹ کا تحفہ بھی دیا جو وہ بڑے فخر سے دکھایا اور بتایا کرتے تھے۔ اس سفر اور بعد کے حالات کے حوالے سے بہت کچھ ہے تاہم گنجائش نہیں اسلم گورداسپوری ترقی پسند اور بنیادی ہیں میں بھی گواہ ہوں۔ (وضاحت یہ ہے کہ ڈاکٹر جہانگیر بدر (مرحوم) کی بارات16اپریل اور ولیمہ 17اپریل 1977ء کو تھا، تصحیح برخوردار ذوالفقار علی بدر نے کی)