وہ وعدے کر تو لیتے ہیں نبھانا بھول جاتے ہیں۔۔۔
حسینوں کا یہ شیوہ ہے کہ آنا بھول جاتے ہیں
وہ وعدے کر تو لیتے ہیں نبھانا بھول جاتے ہیں
کریں گے قیدیوں کی بھوک کا بھی آج اندازہ
اڑیں جو طوطے مالک کا وہ دانا بھول جاتے ہیں
گریباں چاک رہتا ہے مری گردن میں بھی یارو
ستم گر اتنے ہیں پوشاک لا نا بھول جاتے ہیں
مرا ہی حوصلہ ہے حوصلے پر داد دیجے گا
مجھے معلوم تھا قاتل جلانا بھول جاتے ہیں
ابھی اکسیر ٹھہری ہے خزاں کی بے وفائی بھی
چمن میں ہر کسی کے گل کھلانا بھول جاتے ہیں
کہیں ظاہر ہو ہی جاتی ہے کمزوری حکیموں کی
ہتھیلی پر جو سرسوں بھی جمانا بھول جاتے ہیں
نہ کرنا دوستی بھی ناصبی لوگوں سے امبر جی
کمینوں کی یہ خصلت ہے گھرانا بھول جاتے ہیں
کلام :ڈاکٹر شہباز امبر رانجھا