کلام اقبال (شرح بال جبریل)غزل نمبر: 4
اثر کرے نہ کرے سن تو لے میری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد
یہ مشت خاک، یہ صرصر، یہ وسعت افلاک
کرم ہے یا کہ ستم تیری لذت ایجاد
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصل بہاری؟ یہی ہے باد مراد؟
قصوروار غریب الدیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد
مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے
وہ دشت سادہ وہ تیرا جہان بے بنیاد
خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد
مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
بال جبریل کی یہ غزل یا نظم قرآن مجید کی اس آیت سے تحریک پکڑتی محسوس ہوتی ہے ،جس کا ترجمہ ہے:
’’اور جب سوال کریں آپ سے میرے بندے تو میں تو قریب ہی ہوں جب بھی کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں، پس میرے بندوں کو چاہیے کہ وہ مجھے پکاریں تو سہی اور میری ذات پر ایمان بھی لائیں تاکہ وہ بھلائی پائیں۔‘‘
روایات کے مطابق جب رسول اکرمﷺنے اہل دنیا کو ایک ایسے اللہ کا تصور دیا جو اس کی گرفت سے بالا تر ہے نہ نظر آتا ہے، نہ چھوا جا سکتا ہے، نہ ہی اس سے ہم کلامی یعنی گفتگو ہو سکتی ہے، نہ اس کے کان ہیں کہ ہم چپکے سے اس کے ساتھ بات کر سکیں۔
وہ کس چیز کا بنا ہوا ہے، سونے کا ہے ، چاندی کا ہے تو پھر وہ کیاہے کیسا ہے؟ تو اس کے جواب میں شاہ عبدالقادرؒ صاحب فرماتے ہیں کہ مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
قائداعظم محمد علی جناح کے دست راست تحریک پاکستان کے عظیم لیڈر مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’آپﷺسے بعض نے پوچھا کہ ہمارا رب دور ہے تو ہم اس کو پکاریں یا نزدیک ہے تو ہم آہستہ بات کریں۔ اس پر یہ آیت اتری یعنی وہ قریب ہے، ہر ایک کی بات سنتا ہے، آہستہ ہو یا پکار کر ۔‘‘
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:
’’اے نبی ؐ میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتاہے میں اس کی پکارسنتا اور جواب دیتا ہوں لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں، یہ بات تم انہیں سنا دو شاید کہ وہ راہ راست پا لیں۔‘‘(تفہیم القرآن، 1/144)
اسی طرح قرآن مجید کی سورۃ النمل میں ہے:
شاہ رفیع الدین نے اس کا ترجمہ لکھتے ہوئے فرمایا: ’’آیا کون ہے کہ قبول کرتا ہے دعا مضطر کی جس وقت کہ پکارتا ہے اس کو اور کھول دیتا ہے برائی اور کرتا ہے تم کو جائے نشین زمین کا آیا ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے تھوڑے سے نصیحت پکڑتے ہو۔‘‘
ان دونوں تراجم میں ایک ہی بات کہی گئی ہے، فرق صرف انداز کا ہے۔ ایک ترجمے میں پرانی طرز کی اُردو ہے جبکہ دوسرے ترجمہ میں جدید اُردو کو استعمال کیا گیا ہے۔
علامہ نے انہی آیات سے تحریک پکڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور منظوم عرض کی ہے:
اثر کرے نہ کرے سن تو لے میری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد
اے اللہ! تو میری فریادیعنی میری دعا کو سن لے۔ قرآنی آیت میں اس سے زیادہ بلیغ بات کہی، فرمایا: جب بھی کوئی میرا بندہ مجھ سے دعا مانگتا ہے تو میں تو اس کی دعا سننے کے لیے ہر وقت تیار ہوتا ہوں۔ صرف تیار ہی نہیں ہوتا بلکہ’’اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ‘‘صرف اپنے بندوں کی دعاؤں کو نہ صرف یہ کہ سنتا ہوں بلکہ میں ان کی دعاؤں کو قبول بھی کرتا ہوں اور ایک اور جگہ اللہ فرماتا ہے: ’’میں تو اپنے بندوں کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔‘‘
یہاں علامہ نے اپنی طلب اور اللہ کی اجابت میں فرق بھی ملحوظ رکھا۔اللہ اور بندے کی طلب میں یہی فرق ہے کہ بندہ اللہ سے مانگتا ہے اور کہتا ہے : اثر کرے نہ کرے سن تو لے میری فریاد۔ اے اللہ! میری طلب میں وہ کمال نہیں جو تیری ذات عالی کے لائق ہے۔ تاہم اے میرے رب! تو میری فریاد کو شرف سماعت عطا کر۔ دوسری طرف اللہ رحمان و رحیم ہے۔ وہ خود کہتا ہے میری رحمت کا تقاضا ہے کہ فریاد کی ضرورت نہیں میں تو تیری طلب کو قبول کرنے کے لیے خود آ موجود ہوں، تیری ہر مراد کو سن بھی رہا ہوں قبول بھی کر رہا ہوں۔
دوسرے مصرعے میں علامہ شاعروں کی ایک کمزوری کا اظہار کر رہے ہیں کہ شاعر لوگ ہمیشہ اپنی تعریف کے منتظر ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارے شعر کی تعریف کی جائے لیکن اے اللہ! میں اپنے شعر کی تعریف نہیں چاہتا میں تو صرف اس بات کا ملتجی ہوں کہ اے اللہ! میری فریاد سن کر اس کو قبول کر لیں اور میری مطلب براری کریں۔(جاری ہے)