وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر56
پٹیالہ کی فضاؤں میں چند روز قیام کے دوران بھولو کو ایک عجیب سا نشہ اور سرشاری محسوس ہو رہی تھی۔ پہلوان کے مزاج میں اس تبدیلی کو امام بخش اور حمیدا پہلوان نے بھی محسوس کر لیا تھا۔ ایک روز حمیدا پہلوان نے امام بخش سے کہا۔
’’بھاجی! میں محسوس کر رہا ہوں، اپنا بھولو تیور بدل رہا ہے‘‘۔
’’ہاں یار! دراصل فصل پک چکی ہے ناں۔ اب واپسی پر اس کی شادی کروں گا تو سنبھل جائیگا‘‘۔ امام بخش نے بڑی گہری بات کی تھی۔
’’مگر بھاجی ایسی بات نہیں ہے۔ بھولو صرف میرا بھانجا اور پٹھہ ہی نہیں میرا رازداں بھی ہے۔ وہ مجھ سے کبھی کوئی بات نہیں چھپاتا۔ میرا خیال ہے آپ نے غلط محسوس کیا ہے۔ اس کے من کی بے کلی کا کوئی اور ہی سبب لگتا ہے‘‘
’’تو پھر کیا ہو سکتا ہے؟‘‘ امام بخش نے پوچھا۔
’’جہاں تک شادی کا سوال ہے یہ میری تربیت کا اثر ہے بھولو کو اپنی شادی کی بجائے اپنے مستقبل کی زیادہ فکر ہے‘‘۔
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر55 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’یار سیدھی بات کرو، مسئلہ کیا ہے‘‘۔
میں نے تھوڑی سی کھوج لگائی ہے کہ بھولو میراں کے چکر میں ہے‘‘۔ حمیدا پہلوان نے دبے لفظوں میں انکشاف کیا۔
امام بخش پہلوان نے چونک کر حمیدا پہلوان کو دیکھا۔ ’’کیا کہہ رہے ہو یار، میراں کون ہے؟‘‘
’’صبح دم جو گاتی نہیں ہے‘‘۔
’’ہاں اچھا وہ‘‘۔ امام بخش کو جیسے یاد آ گیا۔ ’’اللہ کی حمد و ثناء کرنیوالی کا نام میراں ہے‘‘۔
’’بھاجی! بھولو اگر واقعی میراں میں دلچسپی لینے لگا ہے تو میں کل ہی اس کا کھوج لگا لوں گا‘‘۔
’’دیکھنا ذرا دھیان سے۔ بھولو کو شرمندہ نہ کرنا۔ بڑا سیانا پتر ہے۔ ابھی سنبھل جائے گا‘‘۔
آدھی رات کا سمے تھا۔ پہلوان حسب معمول بستروں سے نکلے اور اکھاڑے میں چل دئیے۔ محنت و ریاضت کے بعد جب سب واپس اپنے بستروں میں دوبارہ گئے تو پو پھوٹ رہی تھی اور لیلابھون میراں کی جادوئی آواز کے سحر میں ڈوب رہا تھا۔ بھولو نے نور خاں صفی کو ساتھ لیا اور پکے ارادے سے میراں کے دیدار کو چل دیا۔ حمیدا پہلوان دونوں کے تعاقب میں تھا۔ وہ نپے تلے قدموں سے خود کو چھپاتا ہوا ان سے بہت نزدیک تر تھا۔ بھولو کل کی طرح میراں کے چوبارے پر چڑھ گیا۔ نور خاں صفی کو اس نے نیچے ہی ٹھہرا دیا۔ حمیدا پہلوان نے اسے جا لیا۔ نور خاں حمیدا پہلوان کو دیکھ کر بوکھلا گیا۔
ٹھنڈ کافی تھی۔ اس کے باوجود نور خاں کو پسینہ آنے لگا۔
’’استاد جی! آپ۔۔۔‘‘
’’بھولو کہاں ہے؟‘‘ حمیدا پہلوان نے سوال کیا۔
’’وہ ۔۔۔ اوپر گئے ہیں جی۔۔۔‘‘
’’تو نیچے پہرے پر کھڑا ہے۔ چل ہمیں بھی ساتھ لے چل‘‘۔ حمیدا پہلوان نے نور خاں صفی کا ہاتھ تھاما اورسیڑھیاں چڑھنے لگا۔ نور خاں صفی کا ہاتھ مارے خجالت و دہشت سے کانپ رہا تھا۔ اسے اپنی موت نظر آ رہی تھی۔ جب دونوں اوپر پہنچے تو حیران رہ گئے۔ بھولو دروازے میں ہی دو زانو بیٹھا وجد کی حالت میں جھوم رہا تھا۔ اسے حمیدا پہلوان کی آمد ذرا بھر محسوس نہ ہوئی۔ میراں ان سب سے بے خبر اپنے کلام میں مصروف تھی۔ حمیدا پہلوان خود بھی درویش صفت انسان تھا۔ اس نے جب بھولو کو وجد کی حالت میں دیکھا تو چونک سا گیا۔ وہ کیا سمجھا تھا اور یہاں کچھ اور نظر آ رہا تھا۔معاً حمیدا پہلوان کو بہاولپور کا واقعہ یاد آ گیا۔ بھولو کا قیام ابھی نیا نیا تھا اور اسے بہاولپور کے مزاروں اور قوالوں سے بڑی عقیدت ہو گئی تھی۔ وہ ہر جمعرات کسی نہ کسی دربار پر قوالی سننے جاتا تھا یوں وجد کی حالت میں جھومتا رہتا تھا۔ میراں کے در آستاں پر بھی بھولو اسی بے خودی سے جھوم رہا تھا۔ پہلے تو حمیدا پہلوان نے آگے بڑھ کر بھولو کو اٹھانا چاہا پھر غیر محسوس انداز میں وہ نور خاں صفی کو ساتھ لے کر نیچے اتر گیا اور جاتے جاتے اسے ہدایت کر دی کہ وہ بھولو کو اس کی آمد کے بارے میں نہ بتائے۔ نور خاں صفی نے خدا کا شکر ادا کیا اور پھر تعجب آمیز نظروں سے پہلوان کو دیکھنے لگا جو اب واپس جا رہا تھا۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی جب بھولو واپس آ گیا اس نے آتے ہی پوچھا۔
’’خیر تو رہی ہے، کوئی آیا تو نہیں‘‘۔
نور خاں صفی نے جھوٹ بول دیا۔ ’’نہیں پہلوان جی۔ خیر ہی رہی ہے‘‘۔
بھولو جب استراحت کیلئے کمرے میں لوٹا تو حمیدا پہلوان کو اپنا منتظر پایا۔ ’’آؤ میرے شیر کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘
’’ماما جی! ادھر ہی تھا‘‘۔ بھولو نے کہا۔
’’میراں کو سن کر آ رہے ہو‘‘۔
بھولو کا دل دھڑک اٹھا۔ اس نے خوفزدہ نظروں سے اپنے ماموں کو دیکھا اور بمشکل کہا۔ ’’جی ماموں جی‘‘۔
’’تم اچھا نہیں کر رہے‘‘۔ حمیدا پہلوان نے سرزنش کے انداز میں مختصر جملہ ادا کیا۔ بھولو اپنے ماموں کے کہے کی گہرائی ناپنا جانتا تھا۔
’’آئندہ شکایت نہیں ہو گی مگر ماموں آپ جانتے ہی ہیں مجھے حمدوثناء سننے کا بہت شوق ہے۔ جب سے پٹیالہ آیا ہوں میں میراں کی آواز میں ڈوب گیا ہوں۔ میرے قدم اپنے اندر جذب کرنا چاہ رہا ہوتا ہوں مگر قسم ہے ماموں جی! نہ تو ابھی تک میراں کو اس بات کی خبر ہے اور نہ میں اسے ملنا چاہ رہا ہوں۔ وہ حجاب میں رہنا پسند کرتی ہے اور مجھے حجاب توڑنا اچھا نہیں لگتا۔ اس کے باوجود میں اپنی کمزوری کے آگے ہار جاتا ہوں۔ آپ شاید کیا سمجھ رہے ہوں مگر میں یہ وضاحت ضرور کر دوں کہ مجھے سوائے میراں کی آواز سننے کے کسی اور دیدار کی غرض نہیں ہے۔ آپ مطمئن رہیں‘‘۔
حمید پہلوان نے سکون کا سانس لیا۔ ’’اچھا چل اب سو جا‘‘۔
بھولو ماموں کے پہلو میں لیٹ گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد وہ نیند سے جا ملا۔ البتہ حمیدا پہلوان ابھی تک جاگ رہا تھا۔ اس نے غور سے بھولو کا چہرہ دیکھا جو ہمیشہ کی طرح معصوم تھا۔ بھولو کے چہرے پر بال بڑھ رہے تھے اور یہی وہ علامت تھی جس سے حمیدا پہلوان اور امام بخش کو خدشہ ہوا تھا کہ بھولو کہیں دل دے بیٹھا ہے تبھی تو وہ چہرے کے بال نہیں مونڈھ رہا۔
ادھر بھولو کے اندر ایک تبدیلی آ رہی تھی۔ مزاروں اور قوالوں نے اسے خدا کے بڑا قریب کر دیا تھا۔ اب وہ نماز بھی باقاعدگی سے پڑھنے لگا تھا اور داڑھی بھی بڑھا رہا تھا۔ اس مذہبی رحجان کی خبر بہت جلد تمام پہلوانوں کو ہو گئی۔ ایک ہفتے کے بعد تو بھولو کا چہرہ داڑھی میں خوب سج گیا۔ یہی دن ان کی واپسی کے تھے۔ امام بخش اور حمیدا پہلوان کو اب جانے کی ویسے بھی جلدی تھی۔ انہیں کولہاپور پہنچنا تھا۔ جب انہوں نے جانے کی تیاریاں کر لیں تو مہاراجہ بھوپندر سنگھ نے انہیں پھر روک لیا اور اور ایک بڑے شاہی دنگل کا اعلان کر دیا۔ گاماں جی کو اس دنگل کا مہتمم بنا دیا گیا۔
’’اس دنگل میں اچھا پہلوان اور ترنجن پہلوان انبالے والا پسر دتو پہلوان کی بڑی جوڑی رکھی گئی۔ دنگل کے روز خوب رونق جمی تھی۔ سکھوں کی ریاست بسنتی پگڑیوں کی بہار دکھانے لگی اور اکھاڑہ گاہ سکھوں، ہندوؤں اور مسلمانوں سے بھر گئی۔ کشتی بڑے منظم انداز میں ہوئی۔ پٹیالہ میں اس کشتی کا اعلان ڈھولچیوں نے بڑے دلچسپ انداز میں کیا۔ ڈھولچی جب اسلم پہلوان عرف اچھا پہلوان پسر امام بخش کے نام کا اعلان کر رہے تھے تو گاماں پہلوان تڑپ سا گیا۔ اس نے تمام ڈھولچیوں کو بلایا اور پھر سے اعلان کرایا کہ اچھا پہلوان پسر گاماں پہلوان رستم زماں کے نام کا اعلان کیا جائے۔ اچھا پہلوان چونکہ گاماں جی کے زیر سایہ آ چکا تھا اور امام بخش نے اپنے بھائی کو اپنا لخت جگر سونپ دیا تھا لہٰذا اب ولدیت کے خانے میں گاماں جی کا نام استعمال ہونے لگا تھا۔
اسلم عرف اچھا پہلوان نے گاماں جی کے نام کی لاج بھی خوب رکھی۔ وہ جب ترنجن پہلوان کے مقابلے پر اترا تو پٹیالہ والوں کو گماں ہوا جیسے گاماں جی نیا جنم لے کر میدان میں اترے ہیں۔ ترنجن پہلوان بڑا کاریگر پہلوان تھا۔ اچھا پہلوان جب اس کے مقابلہ پر آیا تو ترنجن نے اسے آتے ہی کسوٹے پر رکھا۔ اس نے بڑے حوصلے سے حریف کا وار برداشت کیا اور شیر کی طرح ترنجن پر جھپٹا۔ ترنجن نے بھی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپنی طاقت کا جواب دینا چاہا مگر اچھا پہلوان کی تندی و تیزی نے اسے دفاعی کشتی لڑنے پر مجبور کر دیا۔ جونہی وہ پیچھے ہٹنے لگا، اچھا پہلوان نے ڈھاک مار کر اسے نیچے گرا لیا۔ ترنجن کی خوش قسمتی تھی کہ اس کے شانے بیک وقت اکھاڑے میں نہ لگے تھے لہٰذا اسے چت تسلیم نہ کیا گیا۔ اچھا پہلوان تو اپنے تئیں ترنجن کو گرا چکا تھا مگر منصف نے یہ کشتی دوبارہ کرا دی۔ اس بار ترنجن نے اچھا پہلوان کو اپنے آگے رکھ لیا۔ یہ صرف چند لمحوں کا کھیل ہوا۔ اسلم عرف اچھا نے ترنجن کو دوبارہ ڈھاک ماری اور اس بار کشتی صاف کر دی۔ اسلم پہلوان ترنجن کو گرانے کے بعد اکھاڑے میں ہی کھڑا رہا اور منصف کی طرف دیکھنے لگا۔
’’کیوں جی اب بھی کشتی صاف ہوئی ہے کہ نہیں‘‘؟ اچھا پہلوان نے منصف سے پوچھا۔
منصف نے آگے بڑھ کر اچھا پہلوان کا ہاتھ بلند کیا اور اچھا پہلوان وفور مسرت سے بھاگتا ہوا گیا اور گاماں کے قدموں سے لپٹ گیا۔ گاماں جی نے اسے اٹھایا اور اپنے سینے سے لگا لیا۔
’’بابا جی! کیسی رہی؟‘‘ اچھا پہلوان نے خوشی سے جھومتے ہوئے گاماں جی سے پوچھا۔
’’واہ پترا مزے آ گئے‘‘۔ گاماں جی نے اس کا منہ چومتے ہوئے کہا۔
دنگل کے بعد مہاراجہ نے پہلوانوں کو الوداعی عشائیہ دیا اور انعامات سے نوازا۔ اس موقع پر مہاراجہ نے محفل موسیقی بھی سجائی۔ مہاراجہ اپنے پہلوانوں کا مزاج آشنا تھا۔ لہٰذا اس نے محفل نشاط کے رسیا امیروں کو بلانے کی بجائے صرف پہلوانوں کو ہی اس محفل میں مدعو کیا تھا۔شراب اور کسی بھی خاص مشروب کو اس محفل میں لانے کی سختی سے ممانعت کر دی گئی تھی۔ مہاراجہ نے میراں کو خاص طور پر بلایا تھا۔ وہ دودھیا رنگ کی ساڑھی میں ملبوس جب محفل میں آئی تو اس پاکیزہ صفت گائیکہ کو دیکھ کر ہر کوئی دنگ رہ گیا۔ بھولو بغیر آنکھیں جھپکے اسے دیکھتا رہا۔ مہاراجہ نے میراں کا سب پہلوانوں سے تعارف کرایا۔ جب وہ ان تمام پہلوانوں کو سلام کرتی بھولو کے سامنے آئی تو ایک دم سے رک سی گئی۔ دونوں ایک دوسرے کو ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگے۔ بھولو شاید کچھ بولنا چاہ رہا تھا مگر اس کے تو جیسے لب سل گئے۔ میراں کے پنکھڑیوں جیسے لب دھیرے سے کھلے اور وہ بولی۔
’’پہلوان جی! درشن تو ہم سیوکوں کی خوراک ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم آپ کے درشن کرنے آتے، آپ ہمارے چوبارے پر آتے رہے ہیں۔۔۔ اور پھر ملے بغیر ہی چلے جاتے تھے‘‘۔
بھولو کی آنکھیں شرم سے جھک گئیں۔ وہ بولا۔ ’’میراں جی! بندے کے درشن کیا کرنے۔ ہم تو صرف آواز کے درشن کو گئے تھے۔ خدا نے آپ کو بڑی خوبصورت آواز دی ہے۔ یہ آپ کی آواز کا جادو ہے کہ میں بے خودی سے آپ کے چوبارے پر جاتا رہا ہوں۔ مگر اللہ قسم یہ حوصلہ نہیں پڑا کہ آپ سے مل بھی لیتا۔ اگر ملنے کی جرات کرتا تو شاید آپ ناراض ہو جاتیں۔‘‘
’’پہلوان جی! ایسا ہرگز نہ ہوتا‘‘۔ میراں بولی۔ ’’ہم چھچھورے لوگوں کے منہ نہیں لگنا چاہتے۔ اسی وجہ سے حجاب رکھتے ہیں مگر آپ تو بڑے قلندر لوگ ہوتے ہیں۔ آپ سے کیا پردہ۔ جب دل کرے چوبارے پر آ جائیے۔ آپ کو اپنی نئی حمد سناؤں گی‘‘۔
یہ کہہ کر میراں آگے بڑھی اور اپنی مسند پر بیٹھ گئی۔ (جاری ہے)
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر57 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں