رمادی پر پھر عراقی پرچم، داعش کو شدید دھچکا
تجزیہ : آفتاب احمد خان
رمادی شہر پر پھر سے عراقی پرچم لہرانے لگا ہے، یہ شہر عراقی فوج نے بڑی جدوجہد کے بعد داعش سے واپس لیا ہے جس سے داعش کو بڑا ہی دھچکا لگا ہے۔ دوسری طرف اس سے عراقی فورسز کا حوصلہ بڑھا ہے اور وزیراعظم حیدرالعبادی کے لئے بھی یہ بہت اچھی خبر ہے جن کی پوزیشن پورے 2015ء میں بہت کمزور رہی۔ رمادی سے داعش کا پسپا ہونا اس بات کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ مختلف علاقوں پر اس کا تسلط اب سمٹ رہا ہے، امسال چودہ فیصد علاقہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
داعش نے رمادی پر سات ماہ پہلے قبضہ کیا تھا، تب عراقی فوج شکست کھا کر تتر بتر ہوگئی تھی، شہر پر عراقی فوج کا پھر سے قبضہ بمبار اتحادی طیاروں کی بھرپور معاونت سے ممکن ہوا ہے، اس معرکے میں اتحادیوں نے گنجان آباد شہری علاقوں میں داعش کے ٹھکانوں پر حملوں سے بھی گریز نہیں کیا۔ داعش سے رمادی چھن جانے کے بعد وہ دارالحکومت بغداد پھر سے حملے کے قابل نہیں رہے گی اور قصبوں اور دیہات پر قبضہ مضبوط کرنے کو ترویج دی جائے گی، یہی جنگ کا اصول ہوتا ہے کہ اپنے زیر قبضہ علاقوں پر ایسی گرفت رکھی جائے کہ دشمن انہیں چھین نہ سکے۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ اب وہ بڑے شہروں میں خودکش حملے، گھات لگا کر فائرنگ اور دیگر ہتھکنڈوں سے زیادہ کام لے گی۔ رمادی کے قرب و جوار میں جنگجو اب بھی موجود ہیں، جو اس شہر میں دہشت گردی کرسکتے ہیں۔
اتحادی طیاروں اور عراقی فوج کی کارروائیاں تیز ہونے سے داعش کے لئے ہتھیاروں کی سپلائی لائن توڑنے میں بھی مدد ملے گی، اسے جہاں سے بھی ہتھیار مل رہے ہیں انہیں روکنا عراق فورسز کی بہت اہم کامیابی ہوگی، یہ سپلائی لائن داعش کے زیر قبضہ علاقوں سے لڑائی والے علاقوں تک ہوسکتی ہے۔
وزیراعظم حیدرالعبادی کے لئے ایک مشکل یہ ہے کہ تکریت اور بیجی میں داعش کے خلاف لڑنے والی مقامی ملیشیاز پر ان کا کنٹرول نہیں ہے، ان شہروں میں عراقی فورسز نہیں لڑیں، البتہ انہوں نے ملیشیاز کی مدد ضرور کی ہے۔ داعش نے موسم گرما میں لڑائی کم کر دی تھی جس کی وجہ سے عراقی فورسز کو رمادی میں سرایت کر جانے کا موقع ملا۔ تب اس نے داعش کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگیں صاف کر دیں اور خودکش حملوں کے لئے تیار کی گئی گاڑیاں قبضے میں لے لیں۔
رمادی پر قبضہ برقرار رکھنا عراقی فورسز کے لئے اس وجہ سے ضروری ہے کہ اس سے ان کی پوزیشن بہتر ہونا یقینی ہے۔ رمادی سے بھاگنے والے داعش کے جنگجوؤں کی تعداد ہزاروں میں ہے جو پھر سے یکجا ہوکر حملہ کرسکتے ہیں۔ مئی میں رمادی پر قبضے سے پہلے داعش نے کئی ماہ تک بمباری اور دیگر حملے کیے تھے جن میں بارود سے بھری گاڑیوں سے خودکش حملے بھی شامل ہیں۔ موصل اور بیجی پر بھی داعش کی گرفت کمزور ہو رہی ہے۔ موصل شہر کو تین اطراف سے کردوں کی فورس نے گھیر رکھا ہے، اس طرح داعش اس قابل معلوم نہیں ہوتی کہ اپنے زیر تسلط شہری علاقوں میں اطمینان کے ساتھ نظام چلا سکے۔