آہنی ہاتھ اور پرویز رشید

پورے وثوق سے نہیں کہہ سکتاغالباً1968ء کے موسم سرما کا واقعہ ہے، راولپنڈی میں طالب علموں کی تحریک زوروں پر تھی جیسے کہ پورے پاکستان میں۔ایک خوبصورت نوجوان ایک تھانے کی حوالات میں قید تھا، ہم کسی دوسرے تھانے میں تھے، لاہور سے راولپنڈی کے طلباء کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے جلوس میں شامل ہوئے اور دھر لئے گئے جس تھانے میں یہ نوجوان قید تھا اسی میں لاہور سے گئے ہوئے خالد چودھری بھی قید تھے۔ دونوں میں دوستی ہو گئی۔ نوجوان بھی بھٹو کا شیدائی تھا اور خالد چودھری پر مستقبل میں لاہور میں بم دھماکہ کرنے کے الزام میں دہشت گردی کا مقدمہ بنا تھا اور یہ ضیاء الحق کے دور کی بات ہے۔ یہ نوجوان جو خالد چودھری کی طرح بھٹو کا شیدائی تھا۔ پرویز رشید ہے۔ زمانہ کروٹ بدلتا ہے اور پرویز رشید، مسلم لیگ ن میں شامل ہو جاتا ہے۔ طالب علمی کے زمانے سے سیاسی تربیت حاصل کرنے والا یہ نوجوان اب بزرگ اپنے آدرشوں میں آج بھی نوجوان ہے۔ نصف صدی سے زائد کی سیاسی زندگی میں کوئی کرپشن اور کوئی سیاسی سمجھوتہ اس کے کردار پر داغِ ندامت نہ بن سکا۔ میاں نوازشریف کے ساتھ دوستی نبھائی اور خوب نبھائی۔ مشرف دور میں پنجاب میں تعینات سیکرٹری داخلہ نے رانا ثناء اللہ اور پرویز رشید کے ساتھ جو کیا وہ ناقابل بیان ہے۔ میاں صاحب کے تیسرے دور میں وہ ڈان لیکس کا شکار ہوا۔ سینیٹ میں اس لئے نہ جا سکا کہ اس نے پنجاب ہاؤس کا بل ادا نہیں کیا تھا۔ بار بار ریاست نے اس پر مہربانی کی۔ مشرف دور میں وہ جس عذاب سے گزرا اسی نے اس کے دماغ کو بھی مضمحل کر دیا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جب معاشرہ آہنی ہاتھوں میں جاتا ہے تو سیاسی کارکنوں پر کیا بیتتی ہے۔ ایک ایماندار اور سیاست میں سچائی کا ساتھ دینے والا کسی بھی صورت سیاست میں آہنی ہاتھوں کی ترکیب کے استعمال کی حمایت کیونکر کر سکتا ہے یہ آج کا اہم سوال ہے۔
پاکستان کو دولخت ہوئے ابھی بمشکل دو برس گزرے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف آہنی ہاتھ استعمال کیا۔ پیپلزپارٹی اگر ملک کی سیکولر اور لبرل جماعت تھی تو دوسری جماعت NAP تھی اور دونوں ایک طرح سے ایک مذہبی سیاسی ماحول کے مقابل ایک دوسرے کی فطری اتحادی جماعتیں تھیں لیکن بھٹو نے اس قدر بڑی زمینی حقیقت کو نظر انداز کر دیا اور پھر انہیں اس کی سزا ملی جب ملک کی تمام دائیں بازو کی جماعتوں نے ان کے خلاف محاذ بنایا تو بھٹو کی حمایت کے لئے ملک کی کوئی دوسری سیاسی پارٹی میدان میں ان کے ساتھ موجود نہ تھی۔ پیپلزپارٹی قومی سیاسی منظر نامہ میں تنہا کھڑی تھی اور آسانی کے ساتھ ضیاء الحق کی سازش اور اس کی منافقت کا شکار ہو گئی۔ پاکستان کی تاریخ میں جب بھی کسی سیاستدان نے آہنی ہاتھ کے استعمال کی بات کی آہنی ہاتھ کا آخر کار خود شکار ہوا۔
میاں نوازشریف خود آہنی ہاتھوں کے سہارے سیاست میں آئے تھے اور آج آہنی ہاتھوں کے سبب ہی ملک کی سیاسی بساط پر ایک بے معنی پیادے کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ پاکستان میں آہنی ہاتھوں کے استعمال کی تاریخ اس کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے البتہ اس کا واضح استعمال اس وقت سامنے آیا جب پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل ایوب خان کو وفاقی کابینہ میں بطور وزیر دفاع شامل کیا گیا اور پھر ایوب خان نے اکتوبر 1958ء میں مارشل لاء لگا کر پورے پاکستان کو آہنی ہاتھوں میں لے لیا۔ یحییٰ خان نے بھی پاکستان کو آہنی ہاتھوں میں لیا تھا لیکن یہ آہنی ہاتھ کمزور پڑ گئے اور پاکستان کی اکثریت کا علاقہ ان ہاتھوں سے ریت کی طرح نکل گیا۔
یہ 1977ء کی بات ہے۔ قومی اتحاد کی تحریک جاری تھی۔ کراچی سے یہ تحریک لاہور منتقل ہو چکی تھی۔ لاہور کے گورنر ہاؤس میں وزیراعظم بھٹو نے ایک اہم اجلاس طلب کیا جس میں صوبائی کابینہ بھی شامل تھی۔ چودھری اعتزازاحسن اس وقت صوبائی وزیر اطلاعات تھے انہوں نے اجلاس میں بھٹوصاحب کو مشورہ دیا کہ تحریک کو امن و امان کا مسئلہ سمجھنے کی بجائے قومی اتحاد کے ساتھ سیاسی مذاکرات کئے جائیں۔ بھٹو صاحب کو یہ مشورہ پسند نہ آیا انہوں نے اعتزازاحسن سے کہا I will use the strong handاس پر اعتزازاحسن نے کہا Sir Than the strong hand will Prevail
بھٹوصاحب اس سے قبل بلوچستان اور صوبہ سرحد میں بھی آہنی ہاتھ استعمال کر چکے تھے اور پھر وہی ہوا جو اعتزازاحسن نے کہا تھا۔ ملک پر آہنی ہاتھ نے قبضہ کرلیا۔ ان دنوں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازصاحبہ کے اہم ترین مشیر پرویز رشید ہیں جنہیں مسلم لیگ ن میں سب سے زیادہ آہنی ہاتھوں کا تجربہ ہے وہ پاکستان پیپلزپارٹی کا حصہ بھی رہے ہیں اور ہر آمرانہ دور میں انہوں نے ایک صاحب کردار سیاسی کارکن کی طرح وقت گزارا ہے۔ وہ ملک کے وزیراطلاعات بھی رہے ہیں۔