جنات کا غلام۔۔۔سترھویں قسط

جنات کا غلام۔۔۔سترھویں قسط
جنات کا غلام۔۔۔سترھویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

معروف صحافی اور محقق ’’شاہد نذیر چوہدری ‘‘ کی اپنے سحر میں جکڑ لینے والی تحقیق پر مبنی سچی داستان ’’جنات کا غلام ‘‘

سولہویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں

گاﺅں کے چوکیدار کو اللہ نے بڑی خصوصیات سے نوازا ہوتا ہے۔ اس کی حسیات بڑی تیز ہوتی ہیں۔ رات کو اس کے ساتھ گاﺅں کے کتے ہی نہیں چوکیداری کر رہے ہوتے بلکہ مرغیاں بکریاں اور دوسرے جانور بھی اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ جب بھی گاﺅں پر کوئی افتاد نازل ہوتی ہے چور‘ ڈاکو آتے ہیں اجنبی گاﺅں میں داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلے کتے بھونکنا شروع کرتے ہیں ۔ اگر کوئی کسی کے گھر میں داخل ہو جائے تو کتے اس کا تعاقب بھی کرتے ہیں۔ چوکیدار جانوروں کی آوازوں سے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کس سمت میں کیا ہو رہا ہے لہٰذا وہ آفت کی طرح اس طرف پہنچ جاتا ہے۔ پس اس وقت گاﺅں کے چوکیدار نے بھی بھانپ لیا تھا کہ کتے کسی شے سے خوفزدہ ہو گئے ہیں لہٰذا اس نے اپنے ساتھ آنے والے لوگوں کو خبردار کر دیا ہو گیا ........ اس وقت ان میں سے کسی نے بندوق کا فائر کر دیا تھا اور پھر لالٹین کی روشنی میں مدافعت سے نپٹنے کے لئے بکھر گئیں۔ اس کا مطلب تھا لوگ دائرہ بنا کر کسی غیر متوقع صورتحال سے نپٹنے کے لئے تیار ہو چکے ہیں۔ مجھے اس وقت شدید خطرہ محسوس ہوا کہ ان لوگوں کے پاس بندوقیں بھی ہیں اور نہ جانے کون بغیر دیکھے مجھ پر گولی چلا دے۔ کتوں کے شور اور درخت کے اوپر برپا ہونے والے عجیب و غریب حالات نے میری قوت گویائی چھین لی تھی اور میں زمین پر بیٹھ گیا۔ اس لمحہ غازی کی آواز بہت قریب سے آئی
”بھیا .... ادھر بھاگ آﺅ“
”مجھ سے بھاگا نہیں جائے گا“ میں اچانک اٹھ پڑا تو مجھے اپنی ٹانگیں بے جان سی محسوس ہونے لگیں۔ خوف نے میرے اندر سے ساری قوت ختم کر دی تھی چونکہ ایک رات پہلے بھی میں ادھر قبرستان میں آیا تھا تو کالی داس سے خوفزدہ ہو کر میں بہت تیز بھاگا تھا مگر اب مجھ میں اتنی قوت ہی نہیں رہی تھی۔
”غازی .... میرے اندر بھاگنے کی سکت نہیں ہے“ میں نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا میری بات سن کر غازی بولا
”بھیا کوشش کرو میں تمہارے پاس نہیں آ سکتا تمہارے گرد کالی داس نے سحری دائرہ پھیلا رکھا ہے۔ اس وجہ سے تہمارے اندر ہمت نہیں رہی“
غازی کی بات سن کر میں مزید خوفزدہ ہو گیا اور مجھے حویلی کے باغیچے میں پیش آنے والا واقعہ یاد آ گیا۔
”میں کیسے ہمت کروں غازی“ میں لاچارگی کے مارے بولا ”اگر تم لوگ اس قدر بے بس ہو سکتے ہو تو میں کیا شے ہوں۔ میں کالی داس کا سحری دائرہ کیسے توڑ سکتا ہوں“
”میرے بھائی یہ تم کر سکتے ہو بابا جی سرکار نے درخت کے اوپر اپنی فوج اتاری تو ہے جس سے کتے خوفزدہ ہو کر بھاگنے والے ہیں مگر یہ معاملہ اب اتنا آسان نہیں رہا۔ حرام خور کالی داس نے اپنے ہرکاروں کو کتوں کو ادھر لانے پر مجبور کیا تھا اور اس نے جہاں تم کھڑے ہو وہاں تک سحری دائرہ قائم کر رکھا تھا ۔تمہیں پہلے بھی بتایا تھا بھیا کہ ہمارے اور کافر جنات کے درمیان جنگ چھڑنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا مگر تم لوگوں کی یہ بستیاں اس جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ اگر ہم نے کالی داس پر حملہ کر دیا تو پورے گاﺅں کی چھتیں اڑ جائیں گی۔ گھر تباہ ہو جائیں گے اور پالتو جانور دہشت سے مر جائیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ پورے علاقے میں جہاں اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں وہ جلال میں آ جائیں گے اور بابا جی سرکار کو اپنے جلال کا شکار بنا دیں گے۔ یہ ہستیاں کبھی نہیں چاہتیں کہ جنات چاہے وہ مسلمان ہوں یا کافر انسانی بستیوں میں جنگ و جدل کریں۔ اس لئے ہم مجبور ہیں بابا جی سرکار مصلحت اور حکمت کے تحت کالی داس کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں جبکہ کالی داس ان کی مصلحت کو سمجھتے ہوئے اسے اپنے حق میں فائدہ مند بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تمہیں شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ کتے جنات کو دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں جنات کو یہ حکم ہے کہ جب کسی انسانی بستی میں جائیں تو کتوں کے سامنے سے نہ گزریں۔ اللہ نے کتوں کو یہ قوت عطا کی ہوئی ہے کہ وہ جنات کی حقیقت بھانپ لیتے ہیں تم نے دیکھا ہے کہ جن گھروں میں کتے رکھے جاتے ہیں اگر وہاں کسی بھی قسم کی غیبی مخلوق جائے گی تو وہ بھونکنا شروع کر دیتے ہیں۔ مسلمان جنات اپنی حدود و قیود کے پابند ہوتے ہیں“۔
مجھے پہلی بار غازی کی باتیں سن کر افسوس ہوا۔ میں انہیں بے حد طاقتور سمجھتا تھا مگر وہ بھی بے بس تھا۔ اگر مجھے اس لمحہ کوئی نقصان پہنچ جاتا تو وہ میری کسی قسم کی مدد نہیں کر سکتے تھے لہٰذا میں نے کہا۔
”غازی۔ میں تمہاری باتوں کا مطلب کیا سمجھوں۔ تم مجھے کالی داس کے رحم و کرم پر چھوڑ کر عجیب باتیں سن رہے ہو“۔
”میرے بھائی ناراض کیوں ہوتے ہو“۔ غازی بولا۔ میں تمہیں ایک وظیفہ بتا رہا ہوں۔ اگر تم یہ پڑھ لو تو اس سحری دائرے سے باہر نکل سکتے ہو۔ یہ کہہ کر غازی نے مجھے آیت الکرسی کی چند آیات کو ایک خاص ترتیب اور تعداد کے ساتھ پڑھنے کی ہدایت کی۔ اس وقت بھی میرے ذہن میں کئی سوال اٹھے کہ غازی ان آیات کو خود پڑھ کر مجھے اس آفت سے کیوں نہیں بچا رہا۔ جنات بھی تو قرآن پاک پڑھتے ہیںانہیں بھی ثواب ملتا ہے۔ جنات بھی قرآن سے وظائف لے کر پڑھتے ہیں پھر اس نے مجھے ہی یہ وظیفہ پڑھنے کی ہدیات کیوں کی ہے۔ میں نے سوالات کو م¶خر کیا اور وظیفہ پڑھنے لگا تو کچھ ہی دیر بعد میرے اندر قوت و توانائی پیدا ہونے لگی۔ میں تیزی سے اٹھا اور غازی کی طرف بھاگ گیا۔ مجھے یوں لگا جیسے کچھ دیر پہلے میں نہ مقہور تھا نہ مجبور۔ غازی نے میرا ہاتھ پکڑا اور تیز تیز قدموں سے قبرستان کی طرف چل دیا۔ میں نے عقب میں دیکھا گاوں والوں کی آوازیں اس درخت کے گرد محسوس ہو رہی تھیں۔ درخت پر ابھی تک افتاد نازل تھی اور ماحول میں عجیب سی بھنبھناہٹ کا احساس بڑھ رہا تھا۔
غازی بولا۔ ”بھیا اب تو بھاگو“۔
وہ تیز تیز چل رہا تھا اور میں نے باقاعدہ دوڑنا شروع کر دیا۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا مگر مجھے اس کے قدموں کا ساتھ دیتے ہوئے پسینہ آ رہا تھا۔ راستے میں ہی میں نے اپنے سوالات کی پٹاری کھول دی اور شکوہ کے انداز میں کہا۔ ”غازی سچ تو یہ ہے کہ مجھے تمہارے رویہ نے کشمکش میں مبتلا کر دیا تھا“۔
”میں سمجھتا ہوں جو تمہارے دل میں خیال پل رہا ہے“۔ غازی بولا۔
یہ فطری سی بات ہے لیکن ایک بات یاد رکھو شاہد بھیا۔ تم انسان اللہ کی بہترین مخلوق ہو۔ ہم سے بھی افضل اور اعلیٰ۔ قرآن کریم کی آیات کا ورد جب تم مسلمان کرتے ہو تو اس کے اثرات کی قوت ہماری استعداد سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ جنات یعنی ہم لوگ علم میں تم سے کم تر ہیں۔ اللہ کے راز اللہ ہی جانتا ہے بھیا۔ لیکن اللہ کریم نے جو فضیلت تم انسانوں کو دی ہے اور جو قوتیں تمہیں عطا کی ہیں اگر ہم جنات کو بھی حاصل ہو جائیں تو فرشتوں میں شمار ہونے لگیں۔ مگر ہمارے خمیر اور تمہارے خمیر کا امتیاز ہمیں ایک دوسرے کے علم کی فضیلت سے مختلف بنا دیتا ہے۔ تم نے کبھی سنا ہے۔ جیساکہ میں نے تمہیں اپنے بھائی ارمان کا قصہ سنایا تھا کہ وہ ایک مولوی صاحب کے پاس جا کر دینی تعلیم حاصل کرتا تھا۔ ہمارے بہت سے جنات علم و فضل حاصل کرنے کے لئے تمہاری دنیا میں آتے ہیں۔ میں نے تمہیں اس وقت وظیفہ پڑھنے کے لئے کہا تو اس کا مقصد یہی تھا کہ تمہاری بشری اور عقلی طاقتیں تمہیں سحری دائرے سے نکال دیں گے۔ تم نے اس وقت پورے یقین اور یکسوئی کے ساتھ وظیفہ پڑھا تو تم کامیاب ہو گئے۔ بابا جی بخوبی جانتے ہیں کہ تمہارے اندر روحانیت موجود ہے جس انسان کے اندر روحانی وجدان ہو اگر وہ وظائف اور ذکر اذکار کرتا رہے تو اس کا روحانی وجدان بڑھتا چلا جاتا ہے۔ تمہارے انہی اوصاف کو مدنظر رکھتے ہوئے بابا جی سرکار تم پر مہربان ہیں اور تمہیں ٹاہلی والی سرکار کے پاس بلایا ہے“۔
ہمارے عقب میں اب شور کم ہو رہا تھا۔ ہم قبرستان پہنچ گئے ہر طرف گھپ اندھیرا تھا۔ کہیں سے جھینگروں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ غازی نے میرا ہاتھ نہ تھام رکھا ہوتا تو میں ٹھوکریں کھا رہا ہوتا لیکن وہ میرے لئے ایک مشعل بردار راہبر بن گیا تھا۔ وہ مجھے قبرستان کے اندر لیکر داخل ہو گیا تو معاً قبرستان کے اندر سے آواز بلند ہوئی۔
”حق.... حق.... اللہ“
”یہ ٹاہلی والی سرکار ہیں“۔ غازی نے مجھے بتایا۔ ”ادھر دائیں جانب ڈیرہ لگا کر بیٹھے ہیں“۔
ہم نے اسی طرف کا رخ کیا تو سامنے جھاڑیوں اور قبروں کے درمیان ایک دیا روشن نظر آیا۔ غازی مجھے ٹاہلی والی سرکار کے پاس لے گیا۔ ملک نصیر کے والد نے مجھے ان کا جو حلیہ بتایا تھا وہ ہوبہو وہی تھے۔ دیئے سے قدرے دور وہ ایک دری بچھا کر قبر کے سرہانے بیٹھے تھے۔
”یہ سرکار کے والد کی قبر ہے۔ وہ بھی بڑے بزرگ تھے“۔ غازی نے مجھے بتایا۔ ”سرکار مہینے میںایک بار یہاں آتے اور دیا روشن کرتے ہیں“۔
بات سن کر ٹاہلی والی سرکار نے نظریں اٹھائیں اور ہمیں دیکھنے لگے۔
”اوئے غازی۔ تم نے کیا بکھیڑا ڈال رکھا ہے“۔ ٹاہلی والی سرکار کی آواز گونجی۔
”سرکار بکھیڑا کیسا۔ ہم تو آپ کی زیارت کے لئے آ رہے تھے اور ادھر کالی داس نے ہمیں پکڑ لیا تھا۔ آپ تو جانتے ہی ہیں سرکار ہم مجبور ہو جاتے ہیں۔“
”اوئے تمہیں کیسی مجبوری ہے۔ تمہیں کس کا خوف ہے“۔ ٹاہلی والی سرکار سر دھنتے ہوئے وجدان میں بولتے چلے گئے“۔ کس کا خوف کالی داس سے ڈرتے ہو تم۔ ہمارے دوستوں کو ایک کافر جن سے خوف آتا ہے تو لعنت ہے تمہارے پر۔ تم کسی وجہ سے اس سے ڈرتے ہو“۔
”سرکار۔ آپ خود تو کہہ رہے ہیں کہ ہم نے کیسا بکھیڑا ڈال رکھا ہے۔ اگر ہم نے اس پر ہاتھ ڈال دیا تو بات بڑھ جائے گی۔“ غازی بھی بڑا دلیر اور جرات مند تھا۔ اس نے نہایت ادب سے بات کرنے میں مضائقہ نہیں سمجھا۔
”بکھیڑا۔ بکھیڑا ہی تو ہے۔ اتنے دن ہو گئے ہیں۔ وہ تم پر حملے کرتا جا رہا ہے اور تم اس کا منہ تک رہے۔ یہ بکھیڑا نہیں ہے تو کیا ہے۔ جا¶ اور بابا جی سے کہو اس کا کام ختم کر دیں۔ میں سنبھال لوں گا جو ہو گا۔ دیکھا جائے گا“۔
”سرکار۔ بس آپ کے حکم کی دیر تھی“۔ غازی چہکنے لگا۔ ”یہ ہمارا مہمان آپ کے پاس ہے۔ بابا جی سرکار کے پاس جاتا ہوں“۔ یہ کہہ کر غازی غائب ہو گیا اور میں ٹاہلی والی سرکار کی طرف دیکھنے لگا۔
”آ¶ بیٹھو“۔
میں ایک کچی قبر کے پاس بیٹھنے لگا تو وہ بولے۔ ”ادھر چٹائی پر آ جا¶“۔ میں نے جوتا اتارا اور چٹائی پر بیٹھ گیا۔ لیکن میرے دل میں نہ جانے کیا خیال آیا کہ میں نے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور جس قبر کی طرف رخ کر کے وہ بیٹھے تھے میں ان کی مغفرت کے لئے دعا کرنے لگا۔ میری ہمیشہ سے عادت رہی ہے کہ جب بھی میں کسی بھی قبرستان کے پاس سے گزرتا ہوں چاہے میرے راستے میں جتنے بھی قبرستان آئیں ہر بستی ہر شہر کے قبرستانوں میں دفن شدہ لوگوں کے لئے دعا کرنا میری عادت ہے۔ غازی کے ساتھ افراتفری میں قبرستان میں آنے کی وجہ سے میں چوک گیا تھا لیکن اب میں دعا کر رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا ٹاہلی والی سرکار نے بھی ہاتھ اٹھائے تھے اور وہ بھی میرے ساتھ دعا میں شامل ہو گئے میں نے دعا ختم کی تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگے۔
”اچھی عادت ہے تمہاری۔ تم اپنا انجام سامنے رکھتے ہو۔ اس لئے قبرستان کے مکینوں کے ایصال ثواب کے لئے دعا کرتے ہو۔ کل کو ہم نے اور تم نے بھی یہاں آنا ہے۔ آج اگر تم ان کے ساتھ بھلائی کرو گے تو کل تمہارے ساتھ بھی بھلائی ہو گی۔ کل کوئی تم جیسا یہاں سے گزرے گا اور وہ دعا کرے گا تم دیکھو گے۔ اس لمحے میں تم قبر کی دنیا میں زندگی گزار رہے ہو گے تمہیں ان دعا¶ں کی بڑی ضرورت ہو گی۔ یہ تو وہی جانتے ہیں جو ان قبروں میں ہیں اور روز محشر کو اٹھائے جائیں گے مگر روز محشر سے پہلے انہیں قبر کی راحتوں اور عذابوں میں سے بھی تو گزرنا ہے۔ پس اے نوجوان۔ تمہارا یہ عمل پسندیدہ عمل ہے“۔
ٹاہلی والی سرکار نے بے حد خوش ہو کر چٹائی کا ایک کونہ اٹھایا اور کوئی شے نکال کر مجھے دی۔
”لو یہ تبرک کھا لو“۔
میں نے ہاتھ آگے بڑھایا تو روٹی کا ایک چھوٹا سا سوکھا سا ٹکڑا تھا۔ پھر انہوں نے قبر کے پاس رکھا آب خورہ اٹھایا اور وہ بھی میرے سامنے کر دیا۔
یہ ٹکڑا جنت کا میوہ ہے۔ درویشوں اور ولیوں کی غذا ہے یہ۔ کھا لو۔ نفس پاکیزہ ہو جائے گا۔ اس میں بھگو کر اسے نرم کر لو۔ میں نے ان کے کہنے پر عمل کیا اور جب وہ پورے کا پورا ٹکڑا پانی میں بھگو کر منہ میں ڈالا تو مجھے ایک ایسے ذائقہ کا احساس ہوا جس کا یہاں ذکر نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے چاچا جی کی وہ بات یاد آ گئی جو انہوں نے بھی سوکھی روٹیاں کھائی تھیں اور اس کے ذائقے کے معترف ہو گئے تھے۔ آج ٹاہلی والی سرکار نے مجھے اس لذت سے آشنا کیا تھا۔ ہم دنیا والے سمجھتے ہیں کہ یہ فقیر درویش بھوکے ننگے لوگ سوکھی روٹیوں جیسی بدمزہ غذائیں کھاتے ہیں تو اس لئے کہ انہیں تازہ روٹیاں اور انواع و اقسام کے کھانے نہیں ملتے۔ یہ ہماری غلط فہمی ہے۔ ان کی یہی روکھی سوکھی روٹیاں جنت کے میوے ہوتی ہیں مگر ہمیں اس کا احساس نہیں۔ ہم درویشوں کی ظاہری غذا¶ں کے مغالطے میں رہتے ہیں۔ ویسے بھی ہماری عقلوں کو ان غذا¶ں کی روحانی فضیلت کا احساس نہیں ہوتا۔ جو لذت اور قوت ان سوکھے ٹکڑوں میں ہوتی ہے شاید ہی کسی دوسری دنیاوی غذا میں ہو۔ اللہ نے اپنے اولیاءاور دریشوں کی ان غذا¶ں میں بہشتی غذا¶ں کی لطافت اور قوت پنہاں رکھی ہے۔ اللہ اپنے پسندیدہ لوگوں کو بھوکا اور ننگا نہیں رکھتا۔ انہیں دنیا کے ذائقوں سے بے نیاز کر کے اپنے لطف و کرم کی مٹھاس اور قوت سے فیض یاب کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے اللہ کے کامل اولیاءہمیشہ تزکیہ نفس اور معمولات زندگی نبھاہتے ہوئے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے روکھی سوکھی روٹیاں کھاتے آئے ہیں۔ ٹاہلی والی سرکار کی دی ہوئی وہ روٹی بہشت کے میوے جیسی تھی۔ میں نے اس کھانے کی لطافت محسوس کی اور میرا پیٹ بھر گیا۔ مجھے اپنے اندر روحانی بالیدگی کا احساس ہوا۔
میں نے اس وقت سے فائدہ اٹھانے کا سوچا اور یہ خیال میرے دل میں آنے لگا کہ یہ موقع اچھا ہے۔ مجھے ٹاہلی والی سرکار سے زلیخا کے بارے بات کرنی چاہئے۔ ممکن ہے وہ میری مدد کر دیں۔ میں ان سے یہ بات کہنے ہی والا تھا کہ وہ خود بول پڑے۔
”میاں۔ بعض اوقات انسان سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔ وہ جس شے کو اپنے لئے معتبر سمجھتا ہے، قدرت اسے اس کیلئے حقیر جانتی ہے اور وہ اس کو عطا نہیں کی جاتی۔ میری بات سمجھ رہے ہو“۔
”جی سرکار“۔ میں نے سر ہلایا۔
”سورج چاند ستارے، دنیابھر کے پھول، آبشاروں کا پانی، ان کی لطافتیں بھی ہیں اور ان میں قہر بھی ہے، زہر بھی ہے۔ ہر انسان ان کو اپنے اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتا ہے لیکن انسان اس وقت یہ بھول جاتا ہے کہ ان کی لطافتوں میں چھپے زہر اور قہر کو اپنے اندر اتارنے سے وہ خود ہی زہریلا بن جاتا ہے۔ اس کے اندر بھی قہر عود آتا ہے۔ وہ حسن کا رسیا ہوتا ہے مگر یہی حسن جب مجازی ہوتا ہے تو اس کا سرایہ اسکے نفس کو قہر پر مائل کرتا ہے۔ میاں۔ یہ قہر گناہ سے جنم لیتا ہے۔ گناہ اور قہر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تمہیں جس حسن نے اپنا اسیر بنا رکھا ہے اس میں بڑا قہر ہے۔ مگر تم نے ابھی صرف جمال دیکھا ہے جلال نہیں دیکھا۔ وہ تمہارے لئے نہیں بنائی گئی۔ وہ جہاں کا خمیر ہے وہیں اچھا رہے گا۔ تمہاری منزلیں اور ہیں، اسکی منزلیں اور“۔
”مگر سرکار۔ میں اسے زیادتی سمجھتا ہوں“۔ میں ان کی بات سمجھ چکا تھا مگر انسانی ہمدردی کے ناطے میں پھر بھی کہنے سے نہیں رکا۔
”یہ زیادتی ظاہری ہے۔ تم نہیں سمجھ سکو گے۔ وہ اپنی رضا سے تمہارے شاہ صاحب سے شادی کر رہی ہے“۔ ٹاہلی والی سرکار نے پوچھا۔ ”کیا تم اس صورتحال کو بدلنا چاہتے ہو“۔
میں خاموش ہو گیا اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ ان سے کیا کہوں۔
”دیکھو۔ فطرت کے راستے میں کبھی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہئے۔ زلیخا جس کی امانت ہے اسکے پاس جائے گی اور یہ عمل بھی ایک فطری عمل ہے۔ وہ ایک سحر زدہ لڑکی ہے۔تمہاری ہوجاتی تو تم سے کبھی سنبھالی نہ جاتی۔ تمہارا اور اس کا جذبہ محض وقتی ہے۔ تم اسے بہت جلد بھول جا¶ گے اور وہ بھی سب کچھ بھول جائے گی۔ ہاں کچھ لوگوں کو اس کی کھسک رہے گی۔ باقی سب لوگ مطمئن ہیں۔ تم بھی مطمئن ہو جا¶ گے اورتمہارے چاچا جی بھی ایک روز۔ اس روز جب تمہیں میری باتوں کی سمجھ آ جائے گی۔ وہ مجھے اشاروں کنایوں میں سمجھا رہے تھے کہ معاً قبرستان کے سناٹے میں ایک چیخ ابھری۔

اٹھارہویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں