سیاسی دلدل

  سیاسی دلدل
  سیاسی دلدل

  


 پاکستان آج سیاسی بحران کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ آج کا سیاسی بحران کتنی شدت کا ہے اس کی وضاحت مجیب الرحمن شامی صاحب نے  ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال کی فنڈ ریزنگ تقریب سے خطاب کے دوران یوں کی ہے۔”پاکستان کی آج جو معیشت اور سیاست کی حالت ہے وہ کبھی پہلے دیکھی نہیں تھی۔ مقتدر حلقوں نے خرچوں پر زور دیا کمانے پر زور نہیں دیا۔ آج وہ کروڑوں افراد جو دو ڈھائی سال پہلے تک مڈل اور لوئرمڈل کلاس میں شمار ہوتے تھے۔  اب لقموں کو ترس رہے ہیں“۔
پاکستان ماضی میں بھی سیاسی بحرانوں سے دو چار رہا ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس حقیقت سے کوئی  اختلاف نہیں کر سکتا کہ پی ڈی ایم پلس پیپلز پارٹی جب سے اقتدار میں آئے ہیں مہنگائی کا منہ زور طوفان امڈتا ہی چلا جا رہا ہے۔ پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی بیشی مہنگائی پر اثر انداز ہوتی ہے، ماضی میں کبھی یکمشت پٹرولیم کی قیمت میں 35روپے لیٹر اضافہ نہیں ہوا۔ اس میں چند دن بعد15فروری2023ء کو22روپے لیٹر مزید اضافہ کر دیا گیا۔ 
بحران کا ذمہ دار کون ہے؟ بحران آج کا ہو یا ماضی کے کسی بھی دور کا، اس کے آغاز کار کی جو بھی وجہ یا وجوہات ہوں اس میں اضافے کی ذمہ دار حکومت ہی ٹھہرتی ہے۔ نوے کی دہائی میں چار حکومتیں مدت پوری کئے بنا ہٹا دی گئیں۔ یہ پوری دہائی بحرانوں کی دہائی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی نوے میں حکومت توڑی گئی تو ان کے خلاف مقدمات درج ہونے لگے۔93 ء میں میاں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو ان کے خلاف بھی نئی آنے والی حکومت  کی جانب سے انتقامی کارروائیاں شروع کر دی گئیں، یہ پلے اور ایکشن ری پلے 12اکتوبر99ء میاں نواز شریف کا اقتدار آمریت کی بھینٹ چڑھ جانے تک جاری رہا۔


ایک پارٹی  پانچ سال کے    لئے   اقتدار میں آتی ہے، اسے دو تین یا چار سال میں اقتدار سے نکال دیا جاتا ہے۔،اس کے لیے یہی ایک بڑا تازیانہ ہے، وہ تو اسی کے زخم سہلاتا رہتا ہے، اس نے تو ماتم کرنا ہی ہوتا ہے، اسے رونے دیں پیٹنے دیں، شور شرابہ کرنے دیں، حکومت اپنا کام کرتی رہے۔ حالات تب بگڑتے اور بے قابو ہو نے کی حد تک بھی چلے جاتے ہیں جب حکومت اپنے پیشرو کو فکس کرنے کے اقدامات کرتی ہے، ایسا نوے کی دہائی میں کئی بار اور آج ایک بار پھر نظر آ رہا ہے۔
نوے کی دہائی میں ایک پارٹی کی حکومت توڑی گئی تو اگلے انتخابات میں وہ پارٹی شکست سے دو چار ہوئی۔ آج ایسا ہوتا بہت سے حلقوں میں نظر نہیں آ رہا،بادیئ النظر میں عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو چکا ہے، ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو اس وقت تک مہنگائی کی وجہ سے ان کی مقبولیت گراور ساکھ متاثرہورہی تھی۔ پی ٹی آئی کی عوام میں عدم پزیرائی بلکہ رسوائی کا یہ عالم تھا کہ ایک آدھ کے سوا کوئی ضمنی الیکشن جیت نہیں پا رہی تھی۔ جیسے ہی ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آتی ہے وہ احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں جس سے سیاسی عدم استحکام کی شروعات ہوتی ہے، اس موقع پر حکومت کو گریس دکھانے کی ضرورت تھی۔ ہمیں یہاں نوے کی دہائی کی یاد آتی ہے۔ تحریک انصاف پر الزام لگتا ہے کہ ان کی حکومت میں بھی انتقامی کارروائیاں ہوتی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ اس کا بدلہ لینے کے لیے آئے یا حالات کو بہتر کرنے کے لیے آئے۔


سیاسی عدم استحکام کی بنیادی وجہ عمران خان کا اپنی حکومت کے خاتمے کے خلاف بیانیہ اور احتجاج بنا جس کو حکومت کی طرف سے مقدمات کے ایک کے بعد دوسرے، تیسرے اور پھر چل سو چل سے بڑھاوا ملا جس کا خمیازہ آج ہر شہری کو مہنگائی کے طوفانوں کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔اس دوران حکومت بھی سکھ کا سانس نہیں لے پا رہی۔
عمران خان نے اقتدار سے باہر آنے کے بعد ضمنی انتخابات میں  کامیابی پر کامیابی حاصل کی۔ اس کی وجہ عمران خان  کی سحر انگیز شخصیت یا ان کے کوئی ناقابل فراموش کارنامے نہیں ہیں بلکہ یہ عوام کا حکومت کی پالیسیوں خصوصی طورپر آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی پر اظہارِ ناراضگی ہے۔ حکومتی اتحاد بھی اسی بنا پر انتخابات کرانے سے گریزاں ہے، آخر کب تک انتخابات نہیں ہونگے۔ حکمران طبقے کی طرف سے یہ ہاتھوں سے دی وہ گانٹھیں ہیں جو دانتوں سے کھولنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ عمران خان آج  بھلے مقبولیت کے ساتویں آسمان پر بھی کیوں نہ ہوں۔ حکومت عوام کے بنیادی مسائل حل کر کے کچھ خود اوپر جاسکتی ہے اور کچھ ان کو نیچے لا سکتی ہے۔ عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، اس میں کمی پاکستان میں سیاسی استحکام سے آ سکتی ہے، اس کے لیے اپوزیشن کا تعاون ضرور ی ہے جس کے لیے اپوزیشن تیار نہیں۔ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں، اسے احتجاج مظاہرے کرنے دیں، ایسے اقدامات نہ کریں جسے انتقام سے تعبیر کیا جائے۔

اس سے حالات معمول کی طرف آنا شروع ہو سکتے ہیں، عمران خان کہتے ہیں کہ ان کے خلاف 143مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ مقدمات کی ایسی بھر مارسے عمران خان کا قد بڑھ رہا ہے یا کم ہو  رہا ہے”عمران خان پر جو مقدمے درج ہو رہے ہیں‘اس سے ان کا قد چھوٹا نہیں ہو رہا‘ ان کے دیوانوں میں جوش بڑھتا جا رہا ہے اور خان صاحب کے نعرے بھی بلند ہوتے جا رہے ہیں۔سیاسی رہنماؤں کو عدالتوں نے تحفظ فراہم کیا ہے‘ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے عہد میں چودھری ظہور الٰہی اور جاوید ہاشمی پر مقدمات کی یلغار ہوئی تو عدالتوں ہی نے انہیں تحفظ فراہم کیا تھا۔ جاوید ہاشمی اُس وقت طالب علم رہنما تھے‘ان پر کم و بیش ایک سو مقدمات قائم ہوئے تھے۔چوھری ظہور الٰہی کا معاملہ تو یہ تھا کہ ایک مقدمے میں ضمانت ہوتی تو دوسرا درج کر لیا جاتا……۔ یہاں تک کہ عدالت عالیہ نے تنگ آکر یہ حکم جاری کیا کہ جو مقدمات درج ہو چکے ہیں‘ان میں بھی ضمانت اور جو آئندہ درج ہوں گے ان میں بھی ضمانت……”شاید ایسا ریلیف عمران خان کو بھی مل جائے“۔
بات ہورہی تھی بحرانوں کی دلدل سے نکلنے کی۔اس کیلئے حکومت کو پہل کرنی ہوتی ہے مگر حکومت نہ جانے کیوں کسی اور زاویئے سے سوچتی ہے۔سپریم کورٹ میں نوے روز کے اندر انتخاب  کا معاملہ زیرسماعت تھاتو حکومت کی طرف سے عدالتی اصلاحات کا بل پیش اور پاس کردیا گیا۔اُدھر تین دو اور چارتین کی بحت سپریم کورٹ کے اندر بھی چل پڑی۔اِدھر پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کے سو موٹواختیار میں ”اصلاح“ کی اُدھر جسٹس قاضی فائزعیسیٰ صاحب کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اکثریتی فیصلے میں از خود نوٹس کے تمام کیسز ملتوی کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ چیف جسٹس کو خصوصی بنچ بنانے کا اختیار نہیں۔

مزید :

رائے -کالم -