الیکشن سال کا بجٹ

الیکشن سال کا بجٹ
 الیکشن سال کا بجٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کے سالانہ بجٹ 2017-18ء کا سب سے اچھا شگون تو یہ ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈارنے اپنی حکومت کا لگاتار پانچواں بجٹ پیش کیا۔ اس سے پہلے میاں نواز شریف کی دونوں حکومتوں کو چوتھا بجٹ پیش کرنے کی نوبت نہیں آئی تھی۔باقی سب اچھی اور بری باتیں ایک طرف، سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب عوام کی منتخب کردہ حکومتیں اپنی مدت پورا کرتی ہیں،اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسحاق ڈار پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ بجٹ پیش کرنے والے وزیر خزانہ ہیں، انہوں نے موجودہ حکومت کے پانچوں بجٹ تو پیش کئے ہی ہیں، پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی پہلا بجٹ انہوں نے ہی پیش کیا تھا، کیونکہ شروع کے کچھ ماہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت بنی تھی جس میں وہ وزیر خزانہ تھے، اس سے پہلے وہ میاں نواز شریف کے پچھلے دور حکومت کے بجٹ بھی پیش کرتے رہے ہیں، اس لئے بجٹ پیش کرنے میں ان کا کوئی اور ثانی پاکستان میں موجود نہیں ۔ ہر سال کا معمول ہے کہ بجٹ اعلان سے پہلے ہی حکومت کے حامی اور مخالفین نے اپنے اپنے بیانات تیار کئے ہوتے ہیں جنہیں وہ بجٹ تقریر کے دوران سے ہی داغنا شروع کر دیتے ہیں۔ جونہی بجٹ تقریر ختم ہوتی ہے، دونوں طرف کے بیانات کا ایک اژدہام شروع ہو جاتا ہے، خواہ کسی نے تقریر سنی ہو یا نہ سنی ہو، اعدادو شمار پر غور کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ ہمارے ملک میں شروع کیبرسوں سے جو روایات چلی آ رہی ہیں، ان میں سے ایک روایت یہ بھی ہے، ہر سال ہوتی ہے، اس لئے اس سال بھی ہوئی اورآئندہ بھی ہوتی رہے گی۔ حکومت کے حامیوں کے جو بیانات ہر سال بجٹ پر آتے ہیں، اس میں بجٹ کو عوام دوست، غریب پروراور مثالی قرار دیا جاتا ہے۔ ان بیانات میں بتایا جاتا ہے کہ اس بجٹ کے بعد ترقی اور خوش حالی کا ایک نیا دور شروع ہوگا، جس کے بعد ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی، ملک سے غربت عنقا ہو جائے گی اور ایسا متوازن بجٹ اس سے پہلے ملک کی پوری تاریخ میں کبھی پیش نہیں کیا گیا ۔

دوسری طرف حکومت کے مخالفین نے جو بیانات پہلے سے ہی تیار کر رکھے ہوتے ہیں، ان میں بتایا گیا ہوتا ہے کہ بجٹ انتہائی مایوس کن ہے، یہ غریبوں سے جینے کا حق بھی چھین لے گا، ملک میں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو گا اور یہ کہ اس سال کا بجٹ بھی نئی بوتل میں پرانی شراب ہے۔ میں چونکہ اوائل عمری سے ہی دونوں کیمپوں کے اسی نوعیت کے بیانات سنتا اور پڑھتا آیا ہوں اس لئے ان پر وقت ضائع کرنے کی بجائے ایسے مستند ماہرین اقتصادیات کی آراء پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں جو حکومتی یا اپوزیشن کیمپوں سے تعلق نہ رکھتے ہوں اور خالصتاً پیشہ ورانہ طریقے سے بجٹ کا تجزیہ کریں۔ اسی طرح تاجر تنظیموں، جن میں خاص طور پر ایوان ہائے صنعت و تجارت کے عہدیداران ، صنعت اور زراعت سے وابستہ اہم افراداور معاشی سکالر شامل ہیں، ان ماہرین کے تجزئیے میرے خیال میں حکومتی اور اپوزیشن لیڈروں کے روائتی بیانات سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ اس سال کا بجٹ الیکشن سال کا بجٹ ہے اور اسی مناسبت سے اس میں ترقیاتی پراجیکٹس کے لئے خطیر رقم رکھی گئی ہے اور ایک انتہائی تجربہ کار وزیر خزانہ کو حکومت کا پانچواں بجٹ جیسا پیش کرنا چاہئے، اسحاق ڈار نے بالکل ویسا ہی بجٹ پیش کیا، جس میں زیادہ تر فوکس ترقیاتی کاموں پر دیا گیا ہے تاکہ اگلا الیکشن جیتا جا سکے۔ پاکستا ن کی تاریخ میں پہلی بار ایک ہزار ایک ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ رکھا گیا ہے۔ موجودہ حکومت لگاتار تیسری حکومت ہے جو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرکے جمہوری تسلسل کی ہیٹ ٹرک کرے گی۔ اس سے پہلے 2007ء میں قائد اعظم مسلم لیگ اور 2012ء میں پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے بھی اپنے اپنے پانچویں، یعنی الیکشن سال کے بجٹ پیش کئے تھے، لیکن ان دونوں حکومتوں نے الیکشن سال کی مناسبت سے اتنے بھاری بھرکم ترقیاتی بجٹ نہیں رکھے تھے اور وہ دونوں حکومتیں ہونے والے الیکشن میں شکست سے دو چار ہوئی تھیں۔ اس بات کا کریڈٹ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو جاتا ہے جنہوں نے دوسروں کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے ان کی غلطیوں کو نہ دہرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

جب ایک ہزار ارب روپے سے زائد کے ترقیاتی کام ہوں گے تو پورے ملک میں کاموں کی بھرمار نظر آنی یقینی ہے، جس کا فائدہ بہر حال حکومتی پارٹی کے امیدواروں کو ہو گا، کیونکہ ہر حلقے میں ترقیاتی کام ہو رہے ہوں گے۔ ایک ہزار ایک ارب روپے کی رقم کو تاریخی کہا جا رہا ہے، کیونکہ اس سکیل پر ترقیاتی کاموں کا اس سے پہلے کبھی نہیں سوچا گیا تھا۔ اس رقم کا نصف، یعنی 501ارب روپے، سپیشل پراجیکٹس اور سی پیک کے منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا، جبکہ باقی کے نصف میں سے 201 ارب روپے پی ایس ڈی پی پروگراموں کے لئے مختص کئے گئے ہیں جو گذشتہ سال کے مقابلہ میں 25 فیصد زائد ہیں۔ ظاہر ہے الیکشن سال کی وجہ سے بہت سی ترقیاتی سکیمیں سیاسی بنیادوں پر ہی ہوں گی۔ آنے والے سال میں پی ایس ڈی پی پروگراموں کے پراجیکٹس کی تعداد 1145 ہے جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 153 پراجیکٹس زیادہ ہیں، ان پراجیکٹس کا تقریباً 87 فیصد ان منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا جو وزارت منصوبہ بندی نے تیار کئے ہیں۔ موجودہ سال کے بجٹ میں 272 ارب روپے، یعنی ترقیاتی بجٹ کے 27 فیصد سے بھی زیادہ کو سپیشل پراجیکٹس کی مد میں مخصوص کیا گیا ہے۔ یہ وہ رقم ہے جو وزیر اعظم ہاؤس کی صوابدید پر وزیر اعظم، وزراء ممبران اسمبلی اور سینٹ کے ترقیاتی کاموں پر خرچ کی جائے گی اور یہی وہ خطیر رقم ہے جو اگلے سال ہونے والے الیکشن کو مدنظر رکھتے ہوئے رکھی گئی ہے تاکہ تمام حلقوں میں ترقیاتی کاموں کی بہتات نظر آئے۔ سی پیک منصوبوں کے حوالے سے رکھی جانے والی رقم اس سے تقریباً ایک سو ارب کم، یعنی 175 ارب روپے ہے۔ اس سال کے بجٹ میں مختلف وفاقی وزارتوں اور وفاقی کارپوریشنوں، دونوں کے لئے تقریباً ایک جیسی رقم رکھی گئی ہے جو بالترتیب 378 اور381 ارب روپے ہے۔ گذشتہ برس کے بجٹ کے مقابلے میں یہ رقم بھی تقریباً ایک چوتھائی زیادہ ہے۔ مواصلات، ٹرانسپورٹ، ہائی ویز، موٹر ویز اور ریلوے کے لئے بھی ریکارڈ رقومات رکھی گئی ہیں، نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے لئے تقریباً 320 ارب اور پاکستان ریلوے کے لئے 43 ارب کی ریکارڈ رقومات رکھی گئی ہیں۔ سوئی گیس کے انفراسٹرکچر کے لئے 25 ارب اور آپریشن ضربِ عضب کے متاثرین کی بحالی کے لئے 90 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

موجودہ حکومت جب بر سراقتدار آئی تھی تو ترقیاتی پروگراموں کا بجٹ تقریباً 500ارب روپے تھا جو اب دوگنا سے بھی زائد ہو چکا ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ پر تو بہت خطیر رقومات خرچ کی جا رہی ہیں، لیکن انسانی ترقی کے پروگراموں کو اس حساب سے اہمیت نہیں دی گئی۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے جس کا بہت تفصیل سے جائزہ لینا اور اس کا دوسرے ملکوں سے موازنہ انتہائی ضروری ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت، تعلیم اور دوسرے کئی ایسے شعبہ جات، جن کا تعلق انسانی ترقی سے ہے، چونکہ صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں، اس لئے اس ضمن میں صوبوں کے آنے والے بجٹ دیکھنا بھی انتہائی ضروری ہیں۔ بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ صوبوں کو منتقلی کے باوجود وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے نہ صرف صحت، تعلیم اور انسانی ترقی کے تمام شعبوں کے وفاقی بجٹ میں بھی خاصا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ الیکشن سال ہونے کی وجہ سے ترجیحات اس کے مطابق ہیں۔

مزید :

کالم -