سیکیورٹی گارڈز یا موت کے سوداگر!

سیکیورٹی گارڈز یا موت کے سوداگر!
 سیکیورٹی گارڈز یا موت کے سوداگر!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

رات پروفیسر تنویر عالم کا فون آیا۔وہ گورنمنٹ کالج آف سائنس کے چیف سیکیورٹی آفیسر بھی ہیں ، خاصے اَپ سیٹ تھے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی موضوعات پر لکھنے سے فرصت ملے تو اِن موضوعات پر بھی توجہ دیجئے جو معاشرے کو اندر ہی اندر سے گھن کی طرح کھا رہے ہیں اور جن کی وجہ سے پورے معاشرے میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے۔پھر انہوں نے فیصل آباد میں پیش آنے والے سانحے کا ذکر کیا،جس میں ایک بارہ سالہ بچے کو شاپنگ سنٹر پر تعینات سیکیورٹی گارڈ نے صرف اِس لئے گولی مار کر ہلاک کر دیا کہ وہ شاپنگ سنٹر کی چھت پر گرنے والی پتنگ کے لئے اُس سے اوپر جانے کی تکرار کر رہا تھا۔

پروفیسر تنویر عالم کا کہنا تھا کہ بچے کو سمجھانے کے بیسیوں اور طریقے تھے،مگر اُس نے سیدھی گولی مار کر اِس بات کا ثبوت فراہم کر دیا کہ وہ ایک قاتل تھا، سیکیورٹی گارڈ نہیں۔ پھر وہ جذباتی ہو کر کہنے لگے کہ دو بہنوں کا اکلوتا بھائی اور والدین کا اکلوتا بیٹا ایک ذرا سی غفلت کے باعث دُنیا سے چلا گیا۔ہم ایسے واقعات کو سانحہ ہی نہیں سمجھتے،حالانکہ جن والدین اور بہنوں پر یہ بیتی ہے، اُن کے لئے تو قیامت آ چکی ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ اس موضوع پر کالم لکھیں اور سیکیورٹی گارڈز کے نام پر غیر تربیت یافتہ مزدوروں،رکشہ ڈرائیوروں،گدھا ریڑھی چلانے والوں اور بے روزگار نوجوانوں کو گارڈ کی وردی پہنا کر اُن کے ہاتھوں میں کہیں کلاشنکوف اور کہیں ٹرپل ٹو پکڑا دی گئی ہے۔یہ لوگ کسی دہشت گرد کا مقابلہ نہیں کر سکتے، البتہ معصوم لوگوں کی جانیں ضرور لیتے رہیں گے۔


سچی بات ہے جب مَیں ٹی وی پر سیکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں بارہ سالہ بچے کی ٹی وی کوریج دیکھ رہا تھا،جس میں بچے کے والدین اور بہنیں چیخ و پکار کر رہی تھیں تو میرا خود بھی جی چاہ رہا تھا کہ اس واقعہ پر شدید احتجاج کروں، اس پر لکھوں اور حکمرانوں کی توجہ اِس جانب مبذول کراؤں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف چاہے جتنی بھی کامیابیاں حاصل کرتے رہیں،لیکن یہ جو معاشرے میں وردی پہنا کر ہم نے قاتل چھوڑ دیئے ہیں،ان سے کون بچائے گا؟یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں کہ ایک پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈ نے بے گناہ کو مار دیا ہو، ایسے درجنوں واقعات پہلے بھی پیش آ چکے ہیں، ہر واقعہ کے بعد کچھ دِنوں کے لئے ہاہا کار مچتی ہے،اُس کے بعد پھر وہی غفلت کا جمعہ بازار پوری آب و تاب کے ساتھ لگ جاتا ہے۔مَیں جب گورنمنٹ کالج آف سائنس ملتان کا پرنسپل تھا تو سانحہ پشاور کی وجہ سے سخت سیکیورٹی کو ضروری قرار دیا گیا تھا،اس کے لئے دیواریں اونچی کی گئیں،خار دار تاریں لگائیں اور سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے،ساتھ ہی یہ حکم بھی آیا کہ سیکیورٹی گارڈز بھی رکھے جائیں۔فی سیکیورٹی گارڈ13ہزار روپے خرچ کرنے کی اجازت دی گئی، ساتھ ہی یہ پابندی بھی لگائی کہ سیکیورٹی گارڈز پنجاب حکومت کی منظور شدہ کمپنیوں سے حاصل کئے جائیں۔اس مقصد کے لئے جب سیکیورٹی کمپنیوں سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے13ہزار روپے میں12گھنٹے کے لئے سیکیورٹی گارڈ فراہم کرنے سے انکار کر دیا اور کم از کم25ہزار روپے مانگے۔پھر بی گریڈ کمپنیوں سے رابطہ کیا گیا جو 18 سے20 ہزار روپے تک مانگ رہی تھیں۔کسی نے بتایا کہ کچھ سی گریڈ کمپنیاں بھی ہیں جو تیرہ چودہ ہزار میں گارڈ فراہم کر دیتی ہیں۔ایک کمپنی سے رابطہ کیا گیا تو اُس کے مالک نے13ہزار روپے ماہانہ پر کالج کو چار سیکیورٹی گارڈ فراہم کر دیئے۔ایک روز اُس وقت کے سی پی او محمد احسن یونس معائنے پر کالج آئے تو انہوں نے گارڈز سے پوچھا کہ اُنہیں کلاشنکوف یا ٹرپل ٹو چلانی آتی ہے، تو وہ سب اُس سے نابلد تھے۔انہوں نے بتایا کہ ہم تو مزدور ہیں،سیکیورٹی کمپنی کے مالک نے انہیں دس ہزار ماہوار پر یہ ملازمت دی ہے کہ گن پکڑ کے کھڑے رہنا ہے۔انہوں نے اُسی وقت سیکیورٹی کمپنی کے مالک کو طلب کیا اور غفلتِ مجرمانہ کے الزام میں پرچہ درج کر کے اُسے اندر کر دیا۔پھر مَیں نے دیگر کالجوں کے پرنسپلوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اُن کے پاس بھی ایسے ہی غیر تربیت یافتہ گارڈ ہیں،کیونکہ اتنے کم پیسوں میں تربیت یافتہ سابق فوجی ملتے ہی نہیں۔

اس ذاتی تجربے کو یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سیکیورٹی کے نام پر اس جعلسازی کو سامنے لایا جا سکے۔ جب سے مُلک میں امن و امان کی بری صورتِ حال نے جنم لیا ہے،پولیس نے خود کو تھانوں تک محدود کر لیا ہے اور سیکیورٹی کے نام پر تمام سکولوں، کالجوں، بازاروں، دکانوں،شاپنگ پلازوں کے لئے ضروری قرار دے دیا ہے کہ وہ اپنی سیکیورٹی کا خود انتظام کریں۔جب اتنی بڑی بعداد میں سیکیورٹی گارڈز کی ڈیمانڈ بڑھی تو یہ مناقع بخش کاروبار بن گیا۔بااثر افراد نے سیکیورٹی کمپنی کا لائسنس حاصل کیا اور اِدھر اُدھر سے بندے پکڑ کر سیکیورٹی گارڈ بناکر فراہم کرنا شروع کر دیئے۔۔۔ جس کے ہاتھ میں اسلحہ ہو، اگر اُس کی تربیت نہ ہو تو اُس سے بڑا قاتل کوئی نہیں ہوتا۔تربیت سے مراد صرف یہی نہیں کہ اسے اسلحہ چلانا آتا ہو،بلکہ اصل تربیت یہ ہے کہ وہ ایک ڈسپلن فورس کا آدمی نظر آئے۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ فوجی یا ایلیٹ فورس کے جوان جب ناکوں پر کھڑے ہوتے ہیں تو اُن کی گنوں کا رُخ زمین کی طرف ہوتا ہے۔اپنی گاڑیوں میں سفر کے دوران بھی وہ اسلحہ کا رُخ نیچے رکھتے ہیں،مگر آپ اِن پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کا مشاہدہ کریں تو وہ اسلحہ کا رُخ آپ کی طرف کر کے کھڑے ہوں گے۔اس کا مطلب ہے، انہیں اِس بات کی تربیت بھی نہیں دی گئی۔پھر یہ بھی تربیت کا حصہ ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ کس صورتِ حال میں اُن کا اسلحہ استعمال ہونا چاہئے۔۔۔ذرا سی بات پر یا غصے کی حالت میں کسی بے ضرر آدمی پر اسلحہ تان لینا یا اُسے گولی کا نشانہ بنا دینا عام جرم سے کہیں بڑا جرم ہے۔شاید یہ انہی پرائیویٹ گارڈوں کی دیکھا دیکھی کا نتیجہ ہے کہ ہماری پولیس بھی بلا سوچے سمجھے فائر کھول دیتی ہے۔اسلام آباد میں چند روز پہلے ایک بزرگ کار سوار کو اِس لئے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا کہ اُس کے ڈرائیورز نے کار نہیں روکی تھی، مہران کار تھی، اُس کا پیچھا بھی کیا جا سکتا تھا، یا اُس کے ٹائروں پر فائر کر کے روکا بھی جا سکتا تھا،مگر بلا تحقیق سیدھی فائرنگ، جبکہ سامنے سے کوئی فائر بھی نہ ہوا ہو۔ ایک ایسا جرم ہے جس سے معاشرے میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے۔


سوائے قومی بینکوں کے آپ جس جگہ بھی دیکھیں آپ کو غیر مستند گارڈز ہی نظر آئیں گے، جوں جوں ایسے واقعات بڑھ رہے ہیں، عوام میں ان سیکیورٹی گارڈز کے حوالے سے عدم تحفظ کا احساس بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ خود رو پودوں کی طرح اُگ آنے والی سیکیورٹی کمپنیاں کروڑوں روپے کما رہی ہیں،مگر کسی کے پاس بھی تربیت کا کوئی انتظام نہیں۔اُن کے پاس جو بیروزگار چلا جائے، اُسے وردی پہنا کر سیکیورٹی گارڈ بنا دیتی ہیں۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی یہ اعلان کیا تھا کہ مُلک کو اسلحہ فری بنا دیا جائے۔اس ضمن میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے یا نہیں،کسی کو کچھ پتہ نہیں۔شاید یہ کام اتنا آسان نہیں، تاہم یہ کہنا بہت آسان ہے کہ مُلک میں سیکیورٹی ایجنسیوں کو کسی ضابطے کے تحت لایا جائے۔تمام سیکیورٹی کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کر کے اُن کی دوبارہ سکروٹنی کی جائے۔گارڈ کا کم از کم معیار مقرر کیا جائے۔اُس معیار پر پورانہ اترنے والے کو گارڈ رکھنے والی کمپنیوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔جس کمپنی کے گارڈ کی غفلت کے باعث کوئی شہری ہلاک ہو، اُس کا لائسنس معطل کر کے اُس کی کارکردگی کا فرنزک آڈٹ کرایا جائے اور لواحقین کو ایک مخصوص معاوضے کی رقم دینے کا پابند بنایا جائے۔ شاہد خاقان عباسی اگر یہ کام محکمہ داخلہ کو سونپ دیں اور وہ چاروں صوبوں کے محکمہ داخلہ سے رابطہ قائم کر کے سیکیورٹی کمپنیوں کا آڈٹ کرائے تو صورتِ حال بہتر ہو سکتی ہے۔مصدقہ ذرائع کے مطابق سیکیورٹی کمپنی بنانے کے لائسنس سیاسی بنیادوں پر جاری کئے گئے، اِس لئے با اثر شخصیات اس ضمن میں کوئی کارروائی نہیں ہونے دیتیں۔۔۔لیکن اگر ہم ملک سے دہشت گردی ختم کرنے پر متفق ہیں تو ہمیں اس دہشت گردی کا بھی تدارک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، جو غیر تربیت یافتہ اور قاتل جیسی سرشت رکھنے والے نام نہاد سیکیورٹی گارڈز کی وجہ سے رونما ہونے والے واقعات کی شکل میں معاشرے کو عدم تحفظ میں مبتلا کر رہی ہے۔

مزید :

کالم -