نئی قانون سازی۔۔۔ اور ہماری ذمہ داری

نئی قانون سازی۔۔۔ اور ہماری ذمہ داری
نئی قانون سازی۔۔۔ اور ہماری ذمہ داری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جناب ریاض فتیانہ نے سانحہ پشاور پر ایک نظم بھیجی ہے۔حسب حال ہے۔ پڑھ کر دل مزید بوجھل ہوا۔ لیکن شائد زخموں کو تازہ رکھنے میں ہماری بھلائی ہے۔ ورنہ یہ قوم غم جلدی بھول جاتی ہے۔ اور ہم زندگی کے بے رحم شب و روز میں غم قربان کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ غم بھلانے والا نہیں ۔ اس کو زندہ رکھنا ہے۔ قوم کے ننھے شہیدوں نے اپنے خون سے جو قربانی دی ہے وہ اتنی جلدی بھلائی جانے نہیں دی جا سکتی۔ اس لئے یہ نظم قارئین کے لئے لکھ رہا ہوں۔
مجھ سے کیا کوئی جرم ہوا ہے؟
مجھ پر کیوں یہ ظلم ہوا ہے؟
وقت پر آج بھی آیا تھا
سبق بھی دھرایا تھا۔
پنسل ۔مارکر۔ربڑ شاپنر۔
سب کچھ ساتھ میں لا یا تھا
آج تو میرا پیپر ہے۔
ٹیچر نے بتلایا تھا۔
ماں بھی رات کوجاگی تھی۔
ابو نے بھی پڑھا یا تھا۔
شور نہ کرو سو جاؤ۔
بہن کو سمجھا یا تھا
ماں نے آئیتیں پڑھ کر پھونکیں ماریں۔
بیٹا سکول بھجوایا تھا۔
ماں: امتحان تو مشکل ہے۔
موت سوال جو لازم ہے
پر وعدہ میں نہ توڑوں گا۔
یہ سوال نہ چھوڑوں گا۔
بابا کو بتلا دینا
گڑیا کو سمجھا دینا
یونیفارم کو دھو لینا
اب پہروں بیٹھ کر رو لینا
پرچہ آج کچھ یوں ہوا ہے۔
بدن لہو لہو ہوا ہے
مجھ سے کیا کوئی جرم ہوا ہے۔
مجھ پر کیوں یہ ظلم ہوا ہے۔
اقتدار کے ایوانوں سے خبر ہے کہ دہشت گردی سے نبٹنے کے لئے نئے قوانین بنانے کی تیاری ہے۔ عسکری اداروں نے دہشت گردی سے نبٹنے کے لئے نئی قانون سازی کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ عسکری اداروں کو گلہ ہے ۔ کہ قوانین میں سقم ہونے کی وجہ سے کئی دہشت گرد قانون کے شکنجے سے بچ جاتے ہیں۔ اسی طرح اعلیٰ عدلیہ نے missing persons کے معاملہ پر بھی عسکری اداروں کی خوب کھچائی کی تھی۔ جس کی وجہ سے عسکری ادارے مزید کاروائیوں سے ہچکچا رہے تھے۔ دہشت گردوں کے خلاف جو ثبوت عدالتوں میں پیش کئے جاتے ہیں ۔ عدالتیں ان ثبوتوں کو نہیں مانتیں۔ گواہان کے تحفظ کا بھی کوئی قابل عمل قانون پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ گواہان کی شناخت چھپانے کا بھی کوئی قانون نہیں ہے۔میرا پاکستان ننھے شہدا کے خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ جو غازی ننھے بچ گئے ہیں۔ وہ پوری قوم سے زیادہ حوصلہ مند دکھائی دے رہے ہیں۔ اللہ میری قومی قیادت کو بھی ان غازی بچوں کا حوصلہ دے۔
تما م ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچے ہیں۔ کہ دہشت گردی سے نبٹنے کے لئے خصوصی قوانین کی ضرورت ہے۔ ہر ملک نے اس حوالے سے خصوصی قانون سازی کی ہے۔ جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے خوب تنقید بھی کی۔ لیکن اس خصوصی قانون سازی کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑی جا سکتی۔ اس قانون سازی کا سب سے منفی پہلو یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان قوانین کو غلط استعمال کر تے ہیں۔ اس کا عام شہریوں پر استعمال شروع کر دیا جاتا ہے۔ جس سے ان قوانین کے خلاف معاشرہ میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان میں قانون کی حکمرانی بہت کمزور ہے۔ اس لئے خدشہ ہے کہ یہ جو نئے قوانین بنائے جائیں گے۔ ان کا ناجائز استعمال ان کی قدر میں کمی کر دے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے جو نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں ان کے درست استعمال کے لئے چیک اینڈ بیلنس کو بھی مدنظر رکھا جائے۔
پنجاب میں تعلیمی اداروں میں سردیوں کی چھٹیاں پہلے دے دی گئی ہیں۔ یہ اقدام بچوں کی حفاظت کے لئے کیا گیا ہے۔ لیکن اس سے بچوں میں خوف بھی پیدا ہوا ہے۔ جو ہماری نئی نسل کے لئے زہر قاتل ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو ڈرپوک نہیں بنا نا۔ لیکن ان کا تحفظ بھی کرنا ہے۔ یہی حکومت کا امتحان ہے۔

مزید :

کالم -