اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا

اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا
اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اور خبر آ گئی کہ احسن رشید اس دنیا میں نہیں رہے ۔ اناللہ و انا الیہ راجعون سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں احسن رشید جس دن اس دنیا سے رخصت ہوئے یہ تحریر میں نے اسی دن لکھی مگر اسے چھپنے کے لئے بھیج نہ سکا۔وجہ کیا تھی بس سستی۔اس دوران برادر حسن نثار رؤف طاہر اور بے شمار لوگ اپنے قلم سے ان کی قومی خدمات کو احاطہ ء تحریر میں لائے۔دھیمے سروں کا راگ گنگناتے احسن اس دنیا سے چلے گئے روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی شیدائی کی۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہم اس نابغہ ء روزگار کو اس کا مقام نہ دے سکے۔نہ تحریک انصاف میں اور نہ پاکستان میں۔سستی روٹی کا آئیڈیا بھی اسی کا تھا اور تھر میں خشک سالی کے نلکے بھی اسی کے۔ آج شوکت خانم تھر اور سستی روٹی جدہ کا نادار بچوں کا سکول قبر میں اس کے کام آ رہا ہو گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جو اس دنیا میں آیا اس نے اسے چھوڑنا ہی ہے لیکن بعض لوگ دنیا چھوڑ جاتے ہیں دل نہیں چھوڑتے احسن رشید لاہور کی مٹی میں مٹی ہو جائیں گے مگر اس کے باوجود ہزاروں دلوں میں زندہ رہیں گے۔بھائی! میں انہیں پیار سے بلایا کرتا تھا۔چھ فٹ سے نکلتا قد حسین کشادہ جبیں سرخ و سپید چہرہ ہر دم زیر لب مسکراتے احسن رشید اب واقعی اس دنیا میں نہیں رہے جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں چشم تصور میں میں لاہور میں انہیں دیکھ رہا ہوں ایک کہرام مچا ہو گا ایک قیامت ہو گی ان کی رہائش گاہ پر۔
احسن رشید ایک یونیورسٹی تھے مجھے انہیں دیکھ کر ہی یقین آیا کہ ایک شخص بہت اشخاص پے بھاری ہوتا ہے۔ لوگ تحریک انصاف کے حوالے سے انہیں بہت زیادہ جانتے ہوں گے لیکن میں انہیں ایک شفیق پاکستانی کی حیثیت سے جانتا ہوں جو سعودی عرب کے شہر جدہ میں پاکستانیوں کی چھتر چھایا تھا انہیں نوکری دلانے میں پیش پیش پاکستان کے قومی دنوں کی تقریبات کا انعقاد کرنے میں ہمارا ساتھی اور جب پاکستان میں خشک سالی سے بچے مرنے لگے تو دوستوں کو بلا کر کہا ہم سب کے لئے کچھ نہیں کر سکتے لیکن بہت سوں کے لئے کر سکتے ہیں۔
دس پندرہ سال پہلے انور مقصود اور دیگر کو بلا کر پروگرام کرا دیا سندھ کے دور دراز علاقوں میں دوائیاں کپڑے اور نلکے لگوا دیے۔احسن بھائی فوکس پٹرولیم کے پریذیڈنٹ تھے انہوں نے اس کمپنی کو سکریپ سے شروع کیا اور ایک وقت آیا کہ سعودی عرب کے کونے کونے میں پھیلا دیا یہ واحد کمپنی تھی جسے پاکستانیوں کی کمپنی کہا جاتا تھا۔لوگوں کو ملازمت دلانے میں حد سے نکل جاتے تھے۔ انہوں نے ایسے چراغ روشن کئے جو آج بھی سعودی عرب میں روشنی پھیلا رہے ہیں ۔میری پرانی کمپنی میں ایک پاکستانی اعلیٰ عہدے پر فایز تھے ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ کسی پاکستانی کا کام نہیں کرتے تھے بلکہ اگر کسی نے مشکل وقت میں ان کو یاد بھی کیا تو ڈانٹ دیتے تھے لوگ اس پستہ قد شخص کو کہتے تھے، بلکہ طعنے دیا کرتے کاش تم احسن رشید کا عشر عشیر بھی ہوتے۔ وہ بھی لاہوری مگر کینیڈا کے ہو کر رہے پردیس میں بہت سے پاکستانیوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر قد اونچا کرنے والوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے اللہ انہیں ہدایت دے ۔احسن بھائی کی خوبی یہ تھی کہ پاکستان کے تھے پاکستان کے ہو کر رہے۔
مَیں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ حرم کعبہ میں دعا کرنے والوں میں احسن رشید کے ہاتھوں لگائے گئے پودے جو نوکریوں کی شکل میں ہیں اب بھی اور اس وقت بھی بدست دعا ہوں گے۔جدہ میں غریب اور نادار طلباء کے لئے تین لوگوں نے بہت کام کیا ان میں ایک سردار رحمت خان تھے جو تین ماہ پیشتر اللہ کو پیارے ہو گئے دوسرے احسن رشید جو آج اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں اور تیسرے اللہ ان کی عمر دراز کرے علی ذوالقرنین خان ہیں جو زولٹیک کے مالک ہیں اللہ ان کی اور وہ جن سے میرا تعارف نہیں کی عمر دراز کرے۔احسن رشید سے میرا تعلق 1995ء سے تھا۔پاکستان تحریک انصاف کے بانیوں میں سے ہیں۔ انہوں نے پارٹی کے لئے انتہائی اہم نوکری چھوڑی میرے خیال میں اسد عمر سے بھی زیادہ ان کی آمدنی تھی بہر حال جو کوئی تج کے آیا اس نے سو فی صد دیا اسد عمر ہو احسن رشید یا احقر ایک کاز کے لئے نکلے حصہ بقدر جثہ اپنا حق ڈالنے والے ڈال گئے۔احسن بھائی کی سب سے بڑی خوبصورتی تھی کہ وہ سب کی سنتے تھے دھیمے لہجے میں بڑے پیار سے لوگ ان کے اوپر سے گزر جاتے مگر اف نہ کرتے تھے۔
مجھے وہ دن یاد ہے شاید 2000ء کا سال تھا شیراٹن جدہ میں ابرارالحق کا پروگرام کرایا تھا مجھے اسٹیج پر بلا کر ابرار سے کہا کہ اس شہر کی رونقیں لگانے میں میرے اس بھائی کا بہت ہاتھ ہے اور وہ لمحے اب بھی آنکھوں میں ہیں کہ جب ابرارالحق نے ایک قومی نغمے میں ہمیں بھی شامل کیا۔احسن بھائی ان دنوں دن رات محنت کرتے نظر آئے جب پاکستان میں خشک سالی نے تباہی مچا رکھی تھی۔ایک بار کہنے لگے یار ان غریب سندھی بچوں کے لئے کوئی اسکول نہیں وہ عربی اسکولوں میں پڑھتے ہیں انہیں پاکستان بھول جائے گا اور غویزہ کی غریب بستی میں ایک سکول بنا دیا جس کی آبیاری اب ذولقرنین خان کرتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو سر توڑ کوشش کی عمران خان کی دعوت کو سب سے زیادہ سعودی عرب میں سمجھا گیا اس میں عمران خان سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں کہا جا سکتا کہ انہی کا ہاتھ تھا میری مراد احسن رشید سے ہے۔
جنرل مشر ف جب برسر اقتدار آئے تو عمران خان ان کے قریب ہوئے ان دنوں مشہور ہوا کہ وزارت پٹرولیم انہیں مل رہی ہے۔میں اس وقت جنرل مشرف کی آمریت کے خلاف لڑتا لڑتا جدہ جیل جا پہنچا لندن سے مجھے فون کیا کہ جنرل راشد قریشی سے میری بات ہوئی ہے تم جلد باہر آ جاؤ گے۔بھائی سے مَیں نے کہا میری خواہش ہے کہ آپ ظالم کے سحر سے باہر آئیں۔اللہ نے کیا ان پر مشرفی طلسم کا جادو جلد ہی اتر گیا میں 2002ء میں واپس آ گیا۔عدلیہ بحالی کی تحریک میں میرا ان سے ٹاکرہ اسی شاہراہ دستور پر ہوا وہ عمران خان کے ساتھ جلوس میں تھے میں پی ایم ایل این کے سٹیج سے جدوجہد میں مصروف تھا انہی دنوں عمران خان الطاف حسین کو چیلنج کر چکے تھے۔ مجھے اچھا لگا کہ انہوں نے دلیرانہ قدم اٹھایا ہے اسی سڑک پر خان صاحب سے ملاقات ہوئی اور بعد میں ہم لوگ ممبران اسمبلی کی رہائش گاہ پر گئے اور میں نے عمران خان کی دعوت پر لبیک کہا گویا تحریک انصاف میں مجھے لانے والے احسن رشید تھے۔مَیں نے چپکے سے پارٹی جائن کی بڑے زور و شور سے کام شروع کیا۔حفیظ اللہ نیازی میرا اس وقت دس سالہ پرانا دوست تھا ان کا خیال تھا جائننگ پریس کانفرنس میں ہونی چاہئے تھی پارٹی اس وقت ٹانگہ پارٹی تھی ہم بھی سوار ہو گئے۔
احسن بھائی لاہور سے آ کر جدوجہد میں شریک ہوتے۔وہ اس وقت پنجاب کے صدر تھے۔آج برادر زاہد کاظمی کا فون تھا بڑے افسردہ تھے۔2008ء کی سردیاں تھیں یا 2007ء کی یاد نہیں آ رہا جماعت اسلامی کے آفس میں برادر احسن اور زاہد کاظمی کسی بات پر نالاں ہو گئے میں نے کہا بھائیو آؤ اپنے گندے کپڑے باہر دھوتے ہیں بھائی میرے ساتھ ہو لئے ریڈ اونین میں چلے گئے اور دو تین گھنٹے کی گفتگو کے بعد آپس میں گلے ملنے کے بعد اٹھے۔ اس موقع پر ائر مارشل شاہد ذوالفقار بھی تھے۔مجھے ستم ظریفی ء حالات پھر سعودی عرب لے گئی احسن وہاں بھی آئے تو شفقت فرماتے رہے۔ایک بار فون کیا کہ افتخار میں پنڈی جا رہا ہوں تم آ سکتے ہو۔میں نے کہا بھائی ابھی دو ماہ ہوئے ہیں آیا ہوں دیکھوں گا میں نے نوید کو کہا کہ پنڈی ورکرز کنونشن کے لئے جان لڑا دو۔
اللہ نے کیا میں پہنچ گیا اور کنونشن میں چار سو کے قریب لوگ لے کر پہنچ گیا۔بد قسمتی دیکھئے کہ احسن رشید الیکشن ہار گئے اور بہت سارے ٹکٹوں سے محروم رہ گئے۔ 2007ء کی قہر آلود گرمی سورج سوا نیزے پر ٹانگے کے سوار سب باہر ۔بہر حال میریٹ میں جب ٹکٹوں کی تقسیم ہو رہی تھی اس وقت ہارے ہوئے احسن رشید کے ساتھی ہم بھی امیدوار تذکرہ تھے ہمیں خان صاحب نے تو کہہ دیا کہ ٹکٹ آپ کو مَیں دوں گا مگر انٹرا پارٹی کے منتخب بھائیوں کے نزدیک ہمیں اس حلقے کے ڈائنامکس کا علم نہیں تھا غالبا اب تو انہیں علم ہو ہی گیا ہو گا کہ پانی میں بیٹھ جانے والوں پر وزن نہیں ڈالا کرتے۔احسن رشید اپنی ذات میں انجمن تھے جب بھی ملتے ایسا لگتا کہ وہ کبھی ہم سے دور نہیں رہے۔میریٹ کے فنکش میں ہم نے خوب تصویریں بنوائیں، ورکرز کنونشن کی کامیابی پر مجھے مبارک باد دے رہے تھے۔کہنے لگے یار تو نے تو کمال کر دیا تم سعودی عرب رہ کر بھی ان ہو۔ مَیں نے کہا کہ آپ کا بھتیجا آرام سے بیٹھنے نہیں دیتا۔نوید کے ساتھ بہت پیار کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا یار تم نوید کو آگے لاؤ اور خود مرکز میں بیٹھ کر کام کرو۔ مَیں نے کہا بھائی آپ سے عمر میں چھوٹا ہوں دل کرتا ہے جب آپ پنجاب کے وزیر اعلی بنیں تو آپ کی کیبنٹ میں بیٹھوں ہنس کر کہنے لگے کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔وہ اس دنیا میں نہیں رہے یہ جھوٹی دنیا میں نہیں کہوں گا کہ لوگ اس دنیا سے جانے والوں کو تادیر یاد رکھیں گے، لیکن کچھ لوگ کچھ لوگوں کی دنیا کے ستارے ہوتے ہیں احسن جیسے جگنو لوگ زمین میں دفن ہوکر بھی اپنا نام زندہ رکھیں گے۔میرے جیسے ہزاروں لوگوں کی دعاؤں میں اور تو اور پاکستانی کنٹریکٹرز کا ایک ایسا حلقہ پیدا کیا جنہیں دنوں میں فقیر سے امیر بنا دیا،وہ جدہ کے غریب بچوں کی سانسوں میں اور ان سینکڑوں خاندانوں کی نمازوں میں جن کے لئے انہوں نے روزگار کے مواقع پیدا کئے زندہ رہیں گے۔

وداع یار کا منظر فراز یاد نہیں
بس ایک ڈوبتا سورج میری نظر میں رہا
اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا
روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی شیدائی کی

مزید :

کالم -