گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 17

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ ...
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 17

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایچی سن میں میں نے 1905ء میں داخلہ لیا تھا ۔کالج گرمیوں میں ڈھائی مہینہ کے لئے بند ہوجاتا تھا اور میں چھٹیوں میں گھر آجاتا چونکہ والد صاحب ملازمت میں تھے، اس لئے خاندانی ریاست کے معاملات میں خود اپنے ذمہ لے لیتا اور تمام ملازم میرے ہی احکام کی تعمیل کرتے تھے۔ ہماری ایک ا پنی سیلابی نہر تھی جس کا پانی لوگ چوری کرلیا کرتے تھے۔ ہر صبح میں گھوڑے پر سوارہوکر نکلتا اور چلتا چلتا بھیرہ تک جاپہنچتا۔ اردلی ایک دوسرے گھوڑے پر سوار، میرے پیچھے پیچھے ہوتا تھا۔ بھیرہ تک کوئی 10 میل کا راستہ تھا۔ مجھے واپسی میں دیر ہوجاتی۔ اس لئے صبح کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا اکٹھا کھاتا۔ میں اپنے اس معمول پر چلچلاتی گرمیوں میں بھی کاربند رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جسم مشقت کے سانچے میں ڈھل کر سنور گیا۔
ایک دن ہم دونوں گھوڑے پر سوار ساتھ ساتھ چلے جارہے تھے کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا جو ہماری نہر کاٹ رہا تھا۔ وہ سمجھا کہ میں معمولی راہگیر ہوں۔ اس لئے اس نے میری طرف توجہ نہیں کی۔ میں نے اسے اچانک جالیا اور اس سے پہلے کہ اسے معاملے کی نوعیت کا علم ہوتا، بید سے اسے دھننا شروع کردیا۔ اس نے فوراً پانی میں چھلانگ لگادی اور ہاتھ پاؤں مار کر یہ جاوہ جا۔ ہم لوگ فوراً واپس ہوئے اپنے آدمی کو ساتھ لیا اور نہر کے کٹے ہوئے کنارے کو پاٹ کربرابر کردیا۔

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 16  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دوسرے ملک بھی نہر میں حصہ دار تھے۔ ان کے ملازم ہماری طرف کی نہر میں درختوں کی ٹہنیاں اور پودے ڈال جاتے تھے تاکہ ہمارا پانی چوری کرسکیں۔ میری اپنے رشتہ داروں کے ساتھ تکرار رہتی تھیں۔ وہ مجھے بدمزاج اور سر پھرا سمجھتے تھے لیکن میں چونکہ حق بجانب ہوتا اور وہ مجھ سے واقعی محبت کرتے تھے اس لئے وہ مجھ سے ناراض نہیں ہوتے اور والد صاحب سے میری شکایت نہیں کرتے تھے کیونکہ اس طرح خود ان کا پول کھلتا تھا چونکہ ہم سب آپس میں گہرے رشتہ دار تھے اس لئے سب عزیزوں کو مجھ سے محبت تھی۔ میں اپنی جوانی کے جوش میں والد کے مفادات کی حفاظت کے لئے جو کچھ بھی کرتا وہ اس کا برا نہیں مانتے تھے۔
گرمی کے آخری دنوں میں دریا کی سطح اچانک گرجاتی اور سیلابی نہر جس میں دریا کے شگاف سے پانی آتا تھا، تقریباً سوکھنے لگتی۔ تب نہر کے مالک ان شگافوں پر بندھ باندھتے تھے تاکہ کپاس کی آبپاشی اور گندم کی بوائی کے لئے پانی مل جائے، گوتاخیر سے ہی سہی، ایک سال میں کوئی تین سو مزارعوں کو لے کر اس مقصد کے لئے بھیرہ گیا۔ وہ نقد اُجرت قبول نہیں کرتے تھے کیونکہ انہیں یہ احساس تھا کہ اس پانی میں وہ خود بھی حصہ دار ہیں لیکن انہیں صبح و شام دو وقت پیٹ بھر کے روٹی ملنی چاہیے تھی اور اس میں خاصی رقم خرچ ہورہی تھی۔ بہرحال انہوں نے ضلع کے سب سے بڑے قصبہ کے قریب، جہاں خوبصورت دکانیں بھی تھیں، خوب مزے سے چھٹی منائی۔
ہم نے شگاف کی تہہ میں ریت کی بوریاں بچھادیں اور اوپر مٹی، ریت اور جھاڑیاں ڈال دیں تاکہ پشتہ مکمل ہوجائے۔ اس واقعہ سے وابستہ دو تین لطائف مجھے اس وقت یاد آگئے ہیں۔ ایک شخص ہمارے آدمیوں کو اپنے کھیت سے مٹی کھودنے نہیں دیتا تھا۔ کام معطل پڑا تھا۔ مزارع خاصے مضبوط اور تنومند تھے وہ بپھر گئے اور للکار کر بولے ’’آؤ اس آدمی کو پشتے میں دبادیں، کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔‘‘ یہ سننا تھا کہ وہ شخص رفوچکر ہوگیا اور پشتہ فوراً مکمل کرلیاگیا۔
مٹھا ٹوانہ کے ایک ملک صاحب نے اپنے دونوں بیٹوں کو قانون کی تعلیم دلائی۔ اس علاقہ میں کاشت کا انحصار بارش پر ہے۔ بارش ہوئی تو کھیت پانی سے لبریز ہوگئے۔ اس موقع پر ہمسایہ کے ایک ملک کا ان پڑھ لڑکا ان کے کھیت کے پشتے میں شگاف کرکے سارا پانی اپنے کھیت میں لے گیا۔ دونوں تعلیم یافتہ نوجوان یہ منظر دیکھتے رہے اور پھر بولے ’’آؤ گھر چلیں اور والد صاحب سے کہیں کہ وہ اس نوجوان کے خلاف تعزیرات کی فلاں فلاں دفعات کے تحت مقدمہ چلائیں، اسے یقیناً سزا ہوجائے گی۔‘‘ جب وہ گھر پہنچے اور باپ کو معاملہ کی تفصیلات سنائیں تو وہ گاؤں کی مسجد کی چھت پر چڑھ گیا اور زور سے بولا ’’گاؤں میں کوئی بھلامانس ایسا ہے جو میرے دو گریجویٹ بیٹے لے لے اور ان کے بدلے میں اپنا ایک ان پڑھ بیٹا مجھے دے دے؟‘‘ دیہات میں آدمی کو ہمسایوں کے ساتھ عزت کی زندگی گزارنے کے لئے سخت بننا پڑتا ہے کیونکہ ہمسائے خود بھی سخت ہوتے ہیں۔
مزارع اور مزدور اپنے کپڑے دریا کے کنارے پر چھوڑ کر کام کاج میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ایک دن ایک شخص بولا کہ میں نے اپنے لاچے میں چھ آنے باندھ کر رکھ دئیے تھے، وہ پیسے کوئی چرا کر لے گیا ہے۔ ہر شخص اسے انتہائی شرم اور ذلت کی بات سمجھتا تھا اور اس فکر میں تھا کہ چور کا جلد از جلد سراغ مل جائے لیکن چور کے پتہ چلانے کا کوئی طریقہ کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ آخر میرے ایک بوڑھے ملازم نے مجھ سے کہا کہ آپ نہادھو کر اور کپڑے بدل کر مصلے پر بیٹھ جائیے اور تسبیح پڑھیے۔ اس نے مزارعوں اور مزدوروں کو بتایا کہ ملک صاحب کو بزرگی اپنے داد اسے ملی ہے جو مکہ میں سپردخاک ہوئے تھے۔ اس طرح اس نے میری شخصیت کے گرد تقدس کا ایک ہالا بنادیا۔ اس کے بعد اس نے میرا رومال لیا۔ اسے میرے خوشبودار تیل میں ڈبویا اور پھر وہ ڈوری میں باندھ کر اندھیرے کمرے کی چھت میں لٹکادیا۔ اس کمرے میں دو دروازے تھے اور اس بوڑھے کی ہدایت کے مطابق ہر شخص کو ایک دروازہ سے داخل ہونا تھا اور رومال کو چھو کر دوسرے درازہ سے باہر نکل جانا تھا۔ اگر چور نے چھ آنے رومال کے نیچے ڈال دئیے تو اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ ورنہ اس کا ہاتھ رومال سے چپک جائے گا۔ یہ کہہ کر وہ اس دروازے کے باہر کھڑا ہوگیا جس میں سے لوگوں کو باہر نکلنا تھا اور ہر ایک کے ہاتھ سونگھتا تھا۔ چور نے رومال کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ چنانچہ وہ فوراً پکڑاگیا۔ البتہ اس نے خوف کے مارے وہ چھ آنے رومال کے نیچے پھینک دئیے تھے۔
ہندو مرد اور عورتیں صبح کو اشنان کے لئے دریا پر جاتی تھیں۔ ایک دن ایک جوان اور حسین عورت کو دیکھ کر میرے ایک نوجوان مزارع کا دل بے قابو ہوگیا اور اس نے اس کو جھاڑی میں دبوچ لیا۔ عورت نے شور مچادیا۔ دوسرے مزارعے فوراً ہی دوڑ پڑے اور ملزم کو پکڑ کر کشاں کشاں میرے پاس لائے۔ میں نے اس کی خوب پٹائی کی اور جب اس کی قوت برداشت جواب دے گئی تو وہ جنگل کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ لوگوں نے اس کا پیچھا کیا لیکن پکڑ نہ سکے۔ تاہم بعد میں اسے پکڑ کر گاؤں بھجوادیا گیا کیونکہ موج میلے سے محرومی بجائے خود اس کے لئے خاصی سزا تھی۔ بعد میں بھی اسے بڑی ذلت اٹھانی پڑی اور اس کا باپ تو بہت ہی خفا ہوا۔ اس واقعہ کے بعد قصبہ میں مرا وقار اور احترام بہت بڑھ گیا اور شام کو جب میں گھوڑے پر سوار قصبہ میں واپس آتا تو وہی لوگ جو پہلے میری طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتے تھے، مجھے دیکھتے ہی کھڑے ہوجاتے اور مسکراکرسلام کرتے کیونکہ میں نے گاؤں کی ایک بیٹی کی عصمت بچائی تھی۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں اپنے اس استقبال سے پھولا نہیں سماتا تھا۔
بھیرہ کی گلیاں بہت تنگ اور غلیظ تھیں، نالیاں اکثر و بیشتر کھلی رہتی تھیں اور بیت الخلاء مکانوں کی چھتوں کے اوپر ہوا کرتے تھے۔ پچاس سال گزرنے کے بعد بھی وہی نقشہ نظر آتا ہے، ہمیں قدرت کی اس نوازش کا شکر گزارہونا چاہیے کہ اس نے ہمیں گرم آب و ہوا عطا کی۔ سورج کی تپش سے اکثر جراثیم فنا ہوجاتے ہیں۔ بھیرہ قصبہ میں پانی کے سوتے میٹھے ہیں۔ بیشتر لوگوں نے اپنے مکانوں میں کنویں بنارکھے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ پانی کے ذریعے بیماریوں کے جراثیم نہیں پھیلتے۔دراصل ہمارا سابقہ اتنے متنوع جراثیم سے پڑتا ہے کہ ہمارے وجودمیں بالآخر ان سے بچاؤ کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے لیکن جو یورپی لوگ یہاں آتے ہیں وہ بے چارے اس خوش بختی سے محروم ہوتے ہیں۔(جاری ہے )

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 18 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں