حقوق نسواں قانون واپس نہ ہوا تو تحریک چلائیں گے ، مذہبی جماعتوں کا اعلان

حقوق نسواں قانون واپس نہ ہوا تو تحریک چلائیں گے ، مذہبی جماعتوں کا اعلان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 لاہور (خبر نگار خصوصی،اے این این،مانیٹرنگ ڈیسک )مذہبی جماعتوں کے قائدین نے پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے تحفظ خواتین ایکٹ کو مسترد کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ 27 مارچ تک متنازعہ بل واپس لیاجائے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی مشاورت سے نیا بل لایا جائے۔پاکستان کو لبرل بنانے کے اعلانات اور اسلامی دفعات کے منافی اقدامات آئین پاکستان سے بغاوت ہے ۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے، قومی ایکشن پلان کی تمام شقوں پر عملدرآمد کیا جائے اور جن گستاخ خانے رسولؐ کے مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں ان پر فی الفور فیصلے کئے جائیں۔ حکومت نے غیر شرعی، غیر اسلامی اور غیر آئینی اقدامات و اعلانات کے ذریعے پاکستان کو سیکولر و لبرل بنانے کی کوشش کی تو اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ پنجاب اسمبلی سے پاس کیا گیا متنازعہ بل واپس نہ لیا گیا تو 2 اپریل کو علماء مشائخ کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہو گی جس میں آئندہ کا لائحہ عمل اور تحریک کا اعلان کیا جائے گا ۔ تحفظ حقوق نسوا ں کے نئے بل کی تیاری کے لئے سٹیئرنگ کمیٹی قائم کرنے اور حکومت کے مساجد و مدارس وشریعت کے خلاف اقدامات جاری رہنے اور سودی معیشت ختم نہ کرنے کی صورت میں 1977 کی تحریک نظام مصطفی سے بھی بڑی تحریک چلانے کا عزم بھی کیا گیا۔ یہ مطالبات و اعلانات جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق کی میزبانی میں منعقدہ دینی جماعتوں ، تنظیمات ، علماء کرام ، مشائخ عظام اور اہل علم کے اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں کیا گیا۔ مشترکہ اعلامیہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے پڑھا جبکہ اجلاس میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق ، جمعیت علماء پاکستان کے قائد انس نورانی ، جماعۃ دعوۃ کے سربراہ حافظ سعید ، صاحبزادہ ابوالخیر ، حافظ حسین احمد ، جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ ، مولانا عبدالمالک، مرکزی جمعیت اہل حدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر ، جمعیت اہل حدیث کے رہنما احتشام الہی ظہیر ، علامہ زبیر احمد ظہیرودیگر رہنماؤں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ دینی جماعتوں کے رہنماؤں، علماء کرام و اہل علم کا یہ اجلاس موجودہ حکمرانوں کے پے در پے خلاف شریعت اور آئین و نظریہ پاکستان کے منافی اقدامات و بیانات کی شدید مذمت کرتا ہے اور پاکستان کو لبرل بنانے کے اعلانات اور اسلامی دفعات کے منافی اقدامات کو آئین سے بغاوت قرار دیتا ہے ۔ حکمرانوں کے عزائم کسی صورت پورے نہیں ہونے دیئے جائیں گے ۔ سراج الحق نے مزید کہا کہ اسلام دشمن قوتوں کو خوش کرنے کیلئے عاشق رسولؐ غازی ممتاز حسین قادری شہید کو پھانسی دے کر حکومت پاکستان کے اسلامی تشخص ، قانون ناموس رسالتؐ اور قانون عقیدہ ختم نبوت کو عملا غیر موثر بنانے کی کوشش کی گئی۔ جبکہ میڈیا نے بھی اسلامیان پاکستان کے احتجاج کامکمل بلیک آؤٹ کیا۔ جو انتہائی قابل مذمت ہے ۔ اجلاس نے مطالبہ کیا کہ حکومت تحفظ ناموس رسالتؐ اور تحفظ ختم نبوتؐ کے سلسلہ میں تمام آئینی وقانونی تقاضوں پر فی الفور اور مکمل عملدرآمد کو یقینی بنائے اور نیز توہین رسالت کے جرم میں جیلوں میں بند تمام مجرموں کے کیسوں کا قانون کے مطابق فوری فیصلے کئے جائیں ۔ عدالتوں سے دی گئی سزاؤں پر فوری عملدرآمد کیا جائے اور آسیہ مسیح ملعونا سمیت کسی بھی مجرم کو بیرون ملک بھیجنے کی قطعا جسارت نہ کی جائے۔ اعلامیہ میں قرار دیا گیا کہ پنجاب اسمبلی کا تحفظ خواتین ایکٹ خاندانی وحدت کو توڑنے اور خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے مغربی ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ ہے جس سے عورت کے ساتھ نا انصافیوں اور شرح طلاق میں اضافہ ہو گا۔ اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ اس قانو کو فی الفور واپس لیا جائے اور قرآن و سنت کی روشنی میں علماء کرام اور مذہبی سکالرز اور اسلامی نظریاتی کونسل کی مشاورت سے نیا تحفظ خواتین بل لایا جائے ۔ اجلاس نے حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کی امریکی جیل سے رہائی اور پاکستان واپس لانے کے لئے اپنی ذمہ داری پوری کرے ۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ سود قطعی طور پر حرام ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ قرار دیا گیا ہے ۔ صدر مملکت نے سودی قرضوں کو جائز بنانے کی خواہش کابیان قرآن پاک کی واضح تعلیمات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے ۔ حکومت عدالتوں میں فریق بننے کی بجائے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے تمام سودی قوانین کا خاتمہ کر کے ملکی معیشت کو سودی نظام سے پاک کرے۔ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ اور امن کا قیام سب کا اجتماعی مطالبہ ہے لیکن دہشت گردوں کو دینی مدارس اور مذہبی کارکنوں سے جوڑنے ، علما کرام ہراساں کرنے ، توہین آمیز طریقے سے ناجائز گرفتاریاں ، لاؤڈ سپیکر پر ناروا پابندیوں ، بغیر مقدمہ چلائے شہریوں کو غائب کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ مساجد و مدارس پر عائد تمام ناروا پابندیاں ختم کی جائیں ۔ ناجائز گرفتار شدگان اور لا پتہ افراد کو رہا کیا جائے ۔ محض دینی تعلق کی وجہ سے شامل کئے گئے نام فورتھ شیڈول سے نکالے جائیں اور دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کے لئے قومی ایکشن پلان کی تمام شقوں پر عملدرآمد کیا جائے۔ اجلاس میں غازی ممتاز حسین قادری شہید کی نمائز جنازہ اور ناموس رسالتؐ ، کراچی ریلی و دیگر اجتماعات میڈیا پر نشر و شائع نہ کرنے کی بھی شدید مذمت کی گئی۔ جبکہ ایک اخبار کی جانب سے 23 مارچ 1940 کی قرار داد کی جگہ نئی قرار داد لانے کے لئے مہم کی بھی شدید مذمت کی گئی۔ مطالبہ کیا گیا کہ میڈیا پر بڑھتی ہوئی فحاشی اور عریانی ، نیم برہنہ لڑکیوں پر مشتمل بھارتی اشتہارات ، کیٹ واک ، فیشن شوز اور سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں موسیقی و ڈانس محفلوں پر پابندی لگائی جائے۔ اجلاس میں غیر شرعی و غیر اسلامی اور غیر آئینی اقدامات و اعلانات کے خلاف تحریک چلانے اور ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے پر اتفاق کیا گیااور اعلان کیا کہ پنجاب حکومت نے نام نہاد تحفظ حقوق نسواں بل واپس نہ لیا تو 2 اپریل کو علماء و مشائخ کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہو گی جس میں آئندہ لائحہ عمل اور تحریک کا اعلان کیا جائے گا ۔ تحریک کے دوران اسلام آباد، لاہور ، کراچی سمیت ملک بھر میں تمام جماعتیں مشترکہ تحفظ ناموس رسالتؐ ریلیوں اور جلسوں کا اہتمام کریں گی ۔اجلاس میں ایک سٹیئرنگ کمیٹی بھی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا جو خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے قرآن و سنت کی روشنی میں نیا بل تشکیل دے گی۔ اجلاس میں حکومت کو خبردار کیا گیا کہ اگر اس نے بل واپس اور خلاف شریعت طرز عمل ترک نہ کیا اور تحفظ ناموس رسالتؐ ، سودی معیشت کے خاتمہ اور خاندانی نظام کی بربادی سے لا تعلقی کا اظہار نہ کیا تو 1977 کی تحریک نظام مصطفی سے بڑی تحریک اٹھے گی جس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔ منصورہ میں منعقدہ دینی جماعتوں ، مدارس دینیہ کی تنظیمات اور ملک بھر کے ممتازو جید علمائے کرام کے اجلاس نے مشترکہ طور پر حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر اتفاق کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ حکومت 27 مارچ تک حقوق نسواں بل واپس نہیں لیتی اور آئین و شریعت کیخلاف اقدامات سے باز نہیں آتی تو ہماری تحریک جاری رہے گی ۔ حکومت فوری طور پر خاندانی نظام کی تباہی کے مغربی ایجنڈے سے لاتعلقی کا اعلان کرے ۔ قوم نے متفقہ طور پر حقوق نسواں بل کو مسترد کر دیاہے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل بھی اس ایکٹ کو مکمل طو ر پر مسترد کر چکی ہے۔ قرآن و سنت کے منافی اقدامات پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا ۔ 2 اپریل کو اسلام آباد میں تمام دینی جماعتوں کے مشترکہ کنونشن میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ اجلاس میں مولانا فضل الرحمن ، مولانا سمیع الحق ،حافظ محمد سعید ، ڈاکٹر ابوالخیر زبیر ،لیاقت بلوچ ، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ، پروفیسر ساجد میر ، علامہ اویس نورانی ، علامہ امین مشہدی ، پیر اعجاز ہاشمی ، حافظ عاکف سعید ، مفتی محمد خان ، انجینئر ابتسام الٰہی ظہیر ، عبدالرحمن مکی ، حافظ حسین احمد ، پیر ہارون گیلانی ، عبداللہ گل، حافظ کاظم رضا ، علامہ سبطین حیدر سبزواری، حافظ محمد ادریس ، اسد اللہ بھٹو ، راشد نسیم ،میاں محمد اسلم سمیت تمام مکتبہ فکر کی جماعتوں ، علمائے کرام و شیوخ عظام نے شرکت کی ۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ عالم اسلام آج جس آزمائش سے دوچار ہے اس کے اصل ذمہ دار مغرب کے کاسہ لیس اور عالمی استعمار کے زرخرید غلام حکمران ہیں ۔ عالم اسلام پر تہذیبی یلغار اور جنگ مسلط کر دی گئی ہے ۔ حقوق نسواں بل کے نام پر دشمن نے ہمارے خاندانی نظام پر حملہ کر دیاہے اور اسے توڑنے کے لیے ہماری حکومتوں کو ہدف دیا گیاہے ۔ عالمی استعمار موجودہ حکمرانوں کو اسلام کے خلاف مضبوط مورچہ قرار دے رہاہے ۔ ممتاز قادری کی شہادت، حقوق نسواں بل ، تبلیغی جماعت پر پابندی عالمی ایجنڈا ہے ۔ کلمہ کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں شراب کے استعمال اور ہم جنس پرستی کی باتیں شروع ہو گئی ہیں اور قوانین میں نرمی کے بارے میں سوچا جارہاہے ۔ ملک میں مالی ، اخلاقی ، انتخابی اور نظریاتی کرپشن کا دور دورہ ہے ۔ حکمران عالمی دباؤ پر بھارت سے جپھیاں ڈال رہے ہیں اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیاجارہاہے ان حالات میں ضروری ہے کہ ملک کی دینی قیادت متحد ہو کر ملک کے اسلامی و نظریاتی تشخص کا دفاع کرے اور قوم کو ایک مشترکہ لائحہ عمل دیا جائے ۔مولانا فضل الرحمن نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ حکومت میں ہونے کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ ہم حکومت کی ہر جائز و ناجائز بات کو مان لیں گے ۔ حکومت نے عالمی استعمار کے دباؤ میں آ کر ملکی آئین اور شریعت کیخلاف اقدامات شرو ع کر دیے ہیں ۔ انہوں نے وفاقی سطح پر قانون سازی کے لیے ایک ٹیم کی تشکیل پر زور دیا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں خاندانی نظام کو تباہ کرنا بین الاقوامی ایجنڈا ہے جس پر ساری حکومتیں ایک پیج پر ہوتی ہیں ۔انہوں نے کہاکہ پنجاب اسمبلی کا پاس کردہ بل قبل ازیں 1998ء میں ساؤتھ افریقہ ، 2005 میں انڈیا میں پاس ہوچکاہے یہ بل عالمی ایجنڈے کے تحت بڑی عجلت میں پاس کیا گیاہے اور اسے خوبصورت عنوان دے کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ قوم کو گڑ میں زہر ملا کر دیا جارہاہے ۔ بل پیش کرنے سے پہلے حکومت نے میڈیا کو اس کی تشہیر کرنے سے روکا اور کسی کو مطالعہ کرنے کا بھی موقع نہیں دیا گیا ۔ جاہلانہ رسومات اور تشدد کو رروکنے کے لیے جب ایم ایم اے حکومت نے خیبر پختونخوا میں حسبہ بل پاس کیا تو اسے روک دیا گیا لیکن اب این جی اوز اور سیکولر طبقہ کو خوش کرنے کے لیے خلاف آئین و شریعت بل پاس کر لیا گیاہے اور علماء کرام کو ڈرا دھمکا کر خاموش رہنے پر مجبور کیا جارہاہے ۔مولانا فضل الرحمان نے انکشاف کیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف پنجاب کے حقوق نسواں بل سے آگاہ نہیں تھے،یہ قانون ان کے لئے سرپرائز تھا،نواز شریف نے میری موجودگی میں شہباز شریف سے اعتماد میں نہ لینے کا گلہ کیا،اور انھیں معاملہ جلد نمٹانے کی ہدایت کی ۔نجی ٹی وی کے مطابق منگل کو منصورہ میں دینی جماعتوں کی کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ روز لاہور میں وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ساتھ ہونے والی اپنی ملاقات کی تفصیلات سے شرکاء کو آگاہ کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ وزیر اعظم نواز شریف پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے حقوق نسواں بل کی تفصیلات سے خود بھی لاعلم تھے اور انھوں نے اس کا اظہار میری موجودگی میں میاں شہباز شریف سے گلہ کرتے ہوئے کیا۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ اتنے اہم بل سے متعلق انھیں اعتماد میں لیا جا نا چاہیے تھا۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ یہ بل وزیر اعظم کیلئے سرپرائز تھا اور ان کی حیرانگی میرے لئے بھی سرپرائز تھا۔نواز شریف نے شہباز شریف کو ہدایت کی کہ اس بل پر نظرثانی کی جائے اور معاملہ جلد سلجھایا جائے ۔مولانا سمیع الحق نے اپنے خطاب میں کہاکہ نوازشریف نے علمائے کرام کو مذاکرات کی دعوت دینے کا ڈھونک رچایا ہے تاکہ اس کے خلاف اٹھنے والی تحریک کے غبارے سے ہوا نکال دی جائے ۔ انہوں نے کہاکہ نوازشریف نے ہمیشہ منافقانہ رویہ اپنایا۔ انہوں نے کہاکہ ایک ملاقات میں نوازشریف نے کلمہ پڑھ کر ملک میں شریعت کے نفاذ کا وعدہ کیاتھا مگر آج تک وہ وعدہ وفا نہیں ہوسکا ۔آج وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھ کر شرمین چنائے کی اسلام و پاکستان کو بدنام کرنے والی فلمیں دیکھی جا رہی ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ مدارس پر چھاپے پڑرہے ہیں اور علما کی تذلیل کی جارہی ہے ۔انہوں نے انکشاف کیا کہ شہباز تاثیرکی رہائی کے بدلے تاثیر خاندان نے ممتاز قادری کو معاف کر دیاتھا لیکن حکومت نے اس معاہدے کے فوری بعد انتہائی عجلت میں ممتاز قادری کو پھانسی پر لٹکا دیا ۔امیر جماعت الدعوہ حافظ محمد سعید نے اپنے خطاب میں کہاکہ دشمن چاہتاہے کہ پاکستان اسلامی نہ رہے اور لبرل بن جائے اب یہ مسئلہ انتہا کو پہنچ چکاہے عالمی استعمار پاکستان کو اپنے لیے ایک بہت بڑا خطرہ سمجھتاہے اور دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی قوت کو انتشار اور فساد میں مبتلا رکھناچاہتاہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہماری شناخت کو ختم کرنے کے لیے دشمن اسلام پر حملہ آور ہے ۔انہوں نے کہاکہ تحریک ختم نبوت نے پوری قوم کو خواب غفلت سے جگا دیاتھا آج بھی اگر دینی قوتیں متحد ہو کر میدان میں نکل آئیں تو گلی کوچوں سے عوام اس تحریک کی پشت پر کھڑے ہوجائیں گے ۔ صاحبزادہ ابوالخیر زبیر نے کہاکہ ملک میں اسلام اور اسلامی احکامات کے خاتمہ کی سازشیں ہورہی ہیں ۔ ممتاز قادری کے جنازے میں لاکھوں عوام کو دیکھ کر سیکولر عناصر سہم گئے ہیں ۔ ہمارا اصل ہدف ناموس مصطفی ؐ کا تحفظ ہوناچاہیے ۔حکومت قرآن و حدیث کی حجت کے خاتمے کی طرف بڑھ رہی ہے جو انتہائی تشویشناک ہے ۔ ہمیں نظام مصطفیؐ کے لیے متحد ہو جاناچاہیے ۔ پروفیسر ساجد میر نے کہاکہ ممتاز قادری کی سزائے موت اور تحفظ حقوق نسواں بل ایک ہی کڑی ہے ۔ یہ ملک کی بنیاد اور دینی اقدار پر حملہ ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں مذاکرات کی میز پر جانے سے پہلے عوام کے پاس جاناچاہیے ۔ جب تک عوام ہماری پشت پر نہیں ہوں گے ہمیں مذاکرات کی میز پر کامیابی نہیں مل سکے گی ۔انہوں نے دینی جماعتوں کے مشترکہ فورم کے قیام پر زور دیا اور کہاکہ قوم کی رہنمائی کے لیے تمام مکتبہ فکر کے جید علما پر مشتمل ایک فورم بنایا جائے تاکہ عوام کو اندھیروں میں رکھنے کی سازش ناکام بنائی جاسکے ۔حافظ عاکف سعید نے کہاکہ ملک میں عدالتی ، معاشی اور معاشرتی سمیت پورے کا پورا نظام غیر اسلامی ہے ۔ عالمی قوتیں پاکستان اور مصر کو ایک ہی چھڑی سے ہانک رہی ہیں ۔ دونوں بڑے اسلامی ممالک میں لادینیت پھیلانے کے لیے سیکولر قوتیں مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں ۔ مجلس وحدت المسلمین کے رہنماعلامہ امین شہیدی نے کہاکہ اسلامی ممالک میں عالمی سامراج کی مرضی سے وزراء مقرر کیے جاتے ہیں ۔ حقوق نسواں بل محض ایک بل نہیں عورت کو بے گھر کرکے ایک بکاؤ چیز بنایا جارہاہے ۔ ہمیں اسلام کے خلاف ہونے والے پراپیگنڈے کو مل کر روکنا ہوگا ۔

مزید :

صفحہ اول -