چینی مؤرخ ڈانگ یانگ کی شہرہ آفاق کتاب ۔ ۔ ۔پہلی قسط
ترجمہ ۔ایم وقاص مہر
دنیا میں کہنے کو ہر ملک اپنے ماضی کی شاندار عظمتوں پر ناز کرتا ہے لیکن چین جیسی مثال پر کوئی کم ہی اترتا ہے جس نے اپنے ماضی کو موجودہ دور میں شاندار نظام سے جوڑ رکھااور ترقی کی منازل طے کررہا ہے۔چین نے آگے بڑھتے ہوئے اپنے ماضی کو کیوں زندہ رکھا ،اس بات کی اہمیت کا اندازہ مشہور چینی موؤخ ڈنگ یانگ کی ہسٹری آف چائنہ پڑھنے سے ہوجاتا ہے۔
چین کی سرزمیں ہمیشہ سے موضوعِ بحث رہی ہے ،کوئی اس کو لاکھوں سال اور کوئی ہزاروں سال پرانی انسانی تہذیب کا مرکز قرار دیتاہے۔چین ایک طویل اور شاندار تاریخ رکھتا ہے۔دستاویزی طور پر تو چین صرف3,000سال ،جبکہ غیر دستاویزی لحاظ سے 5,000سال قدیم تاریخ رکھتا ہے۔ لیکن اگر ہم کچھ غیر مصدقہ محفوظ دستاویزات کی ورق گردانی کریں تو یہ ہمیں 7ہزار سال پیچھے لے جائیں گئی اور پھر انسانی ترقی کے مختلف مراحل سے ہوتے ہوئے ،50,000 پہلے کی دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں ۔اس کی تاریخ میں نہ تو کبھی کوئی رخنہ ڈالا گیا ہے اور نہ ہی اس میں کمی بیشی کی گئی ہے اور یہ بات تو یقینی ہے کہ کوئی بھی تہذہب اچانک سے کچھ دہائیوں یا خاندانوں کے بعد تو نمودار نہیں ہوتی۔
چین مختلف مرحلوں اور جارحیت سے ہوتے ہوئے ،موجودہ جدید دور میں پہنچا ہے لیکن اس کے باوجود ،اس دنیا کی تعمیرو ترقی میں بڑا ہم کردار ادا کیا ہے۔چین کی تاریخ اور کلچر کے ساتھ ساتھ اس کے دریا اور پہاڑ بھی،اس کی سافٹ پاور کے طور پر انسانی قلو ب و اذہان پر اپنا لا محدود اثر چھوڑتے ہیں۔
جہاں پر دنیا پچھلی تین دہائیوں سے چین کی معجزاتی واپسی کا مشاہدہ کر رہی ہے ،وہیں پروہ اپنی زیادہ سے زیادہ توجہ چین کی مثالی تاریخ اور ثقافت پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔آج لوگ چین کی تاریخی ترقی کا اوریجن معلوم کرنے کے ساتھ ساتھ ،مغربی پستی سے سبق سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔تاریخ کی طرح اس کی موجودہ حالت میں بھی ایک عظمت پائی جاتی ہے۔دنیا کی اسپاٹس لائٹس اس قدیم اور نومولود ملک کی طرف متوجہ ہیں۔ہرسال ہزاروں کی تعداد میں غیرملکی سیاح اس کے سماجی بہبود اور اسی طرح خوبصورت مناظر سے متاثر ہوکر موجودہ اور تاریخی چین کو دیکھنے کے لئے ،چین کا رخ کرتے ہیں۔
ڈنگ یانک کی مطبوعہ تاریخ پڑھتے ہوئے قاری محو سفر رکھتا ہے۔اس سفر میں وہ اس کے تاریخی مقامات اور کھنڈرات کی سیاحت کرتے ہوئے اس کی تاریخی عظمت کو خود محسوس کرتاہے۔اس کی یادگاریں جس میں محلات،مقبرے،مندر،قدیم گھر،مجسمے،فریکسوس،آبپاشی کے نظام،قدیم ریلوے لائنزاورگھاٹیوں کے علاوہ کچھ سماجی یادگاریں بھی شامل ہیں۔وہ سب چین کے وسیع و عریض رقبے پر پھیل جائیں گے اور مختلف تاریخی ادوار کی نشاندہی کریں گے۔وہ چین کی تاریخ کے ان تمام مراحل اور خاندانوں کا احاطہ کر سکیں گے، جو خاص طور پر بیجنگ،شی آن ،شنگائی،ہانگ زو،چینگ دواور قوفو کے مضافات میں واقع ہیں۔
ہر تاریخی مقام پر اکثر وہاں پر مختلف ادوار کی ثقافتی یاد گاریں بھی ہیں۔مثال کے طور پر بیجنگ میں قدیم زوکوڈیئن مقام کے ساتھ ساتھ منگ اورچنگ سلاطین کے محلات بھی موجود ہیں۔وہاں پر عظیم دیوارِچین بھی موجود ہے جسے منگ سلاطین نے تعمیر کروایا تھا اور وہ آج بھی چنگ سلاطین ذریعے سے چلی آرہی ہے۔شی آن کے گردونواح میں قبل از تاریخ کاایک بنپو مقام اورا سی طرح چنگ اور ہان سلاطین کے مقبروں کے علاوہ ہان اور تانگ سلاطین کے محلات بھی واقع ہیں۔یہ تاریخی جگہیں چینی زمین کے ناگزیر حصے اور مشہور سیاحتی مقام بن گئے ہیں ۔مصنف کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں بیس اہم مقامات کا تعارف کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے کہ وہ قاری پر آسانی سے یہ بات عیاں ہو جائے کہ تاریخی لحاظ سے ان مشہور جگہوں کا کیا کردار رہا ہے۔