مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی اپنی ہی قریبی ترین عزیزہ نے اسلام قبول کرلیا، ٹی وی اینکر نے پوچھا یہ کپڑے کیوں پہنتی ہو تو ایسا جواب دیا کہ سب کو چپ کروادیا

مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی اپنی ...
مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی اپنی ہی قریبی ترین عزیزہ نے اسلام قبول کرلیا، ٹی وی اینکر نے پوچھا یہ کپڑے کیوں پہنتی ہو تو ایسا جواب دیا کہ سب کو چپ کروادیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) مغربی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے اور فرانس میں مختلف مقامی حکومتیں اپنے ساحلوں پر مسلم خواتین کے پورا لباس(برقینی)پہننے پر پابندی عائد کر چکی ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان تو فرانس کی مقامی حکومتوں کے اس فیصلے پر سراپا احتجاج تھے ہی، لیکن سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی بیوی شیری کی بہن لورین بوتھ نے بھی قبول اسلام کے بعد اسلامی لباس کی حمایت میں آواز اٹھا دی ہے۔ وہ 2010ءمیں مشرف بہ اسلام ہو چکی ہیں۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز لورین بوتھ ایک ٹی وی شو میں شریک ہوئیں جہاں ان کا کہنا تھا کہ ”برقینی یا برقعہ پہننا کسی بھی خاتون کا ذاتی انتخاب ہے۔ ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ کسی عورت کو اپنی مرضی کا لباس پہننے پر مجبور کریں۔ ہم پر لازم نہیں کہ دوسری کی طرح سوچیں اور دوسروں کے جیسا لباس پہنیں۔ملبوسات کے تنوع میں اپنی ایک خوبصورتی ہے۔“

بل کلنٹن نے صدام پر بمباری مونیکا لیونسکی سکینڈل سے توجہ ہٹانے کیلئے کی تھی
رپورٹ کے مطابق لورین بوتھ خود بھی گلابی رنگ کا حجاب پہن کر ٹی وی شو میں شریک ہوئیں۔ گزشتہ دنوں فرانس کے ایک ساحل پر پولیس نے ایک مسلمان خاتون کو برقینی اتارنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس واقعے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے 49سالہ لورین بوتھ کا کہنا تھا کہ ”یہ صورتحال بہت خوفزدہ کردینے والی ہے کہ کسی خاتون کو محض مسلمان ہونے کی وجہ سے کپڑے اتارنے پر مجبور کر دیا جائے اور ساحل سمندر سے نکال دیا جائے۔ یہ بہت توہین آمیز سلوک ہے جواس خاتون سے فرانسیسی پولیس نے کیا۔ مجھے برطانیہ میں اس طرح کے واقعات ہونے کا کوئی خوف نہیں ہے۔ میرے خیال میں یہاں ایسا کچھ نہیں ہو گا کیونکہ برطانیہ میں ہمیں دوسرے لوگوں کی پسند و ناپسند سے اتنی تکلیف نہیں ہوتی۔ یہاں ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کون کس طرح کا لباس پہن رہا ہے۔ “