یونیورسٹی کلر ک نے میرے والد سے کہا ”آپ کو کیا پتہ آپکی بیٹی نے پرچہ دیا بھی تھا یا وہ کہیں اور تھی “مگر سترہ سال بعد سچ سامنے آیا کہ انتظامیہ کا موقف غلط تھا :طالبہ وجیہہ عروج

یونیورسٹی کلر ک نے میرے والد سے کہا ”آپ کو کیا پتہ آپکی بیٹی نے پرچہ دیا بھی ...
یونیورسٹی کلر ک نے میرے والد سے کہا ”آپ کو کیا پتہ آپکی بیٹی نے پرچہ دیا بھی تھا یا وہ کہیں اور تھی “مگر سترہ سال بعد سچ سامنے آیا کہ انتظامیہ کا موقف غلط تھا :طالبہ وجیہہ عروج

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )پنجاب یونیورسٹی کیخلاف پرچے میں غیر حاضری کے جھوٹے دعویٰ کے بعد ہتک عزت کا مقدمہ جیتنے والی طالبہ وجیہہ عروج نے انکشاف کیا ہے کہ یونیورسٹی کلرک نے میری موجودگی میں میرے والد سے یہ کہا کہ ”آپ کو کیا پتہ آ پ کی بیٹی نے پرچہ دیا بھی تھا یا وہ کہیں اور تھی “تاہم آج سترہ سال بعد سچ سامنے آگیا ہے کہ میں پرچے میں موجود تھی اور انتظامیہ کا موقف اور فیصلہ جھوٹا تھا ۔

بی بی سی کے مطابق اپنی درخواست میں وجیہہ عروج نے دعویٰ کیا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی لاہور نے انہیں ایم اے انگریزی کے ایک پرچے میں غلط طور پر غیر حاضر ظاہر کر کے پورے امتحان میں فیل قرار دے دیا تھا جبکہ ان کے اس اقدام سے نہ صرف معاشرے میں ان کی ہتک ہوئی بلکہ یونیورسٹی کے عملے کی طرف سے مبینہ طور پر ان کی کردار کشی بھی کی گئی۔ 17 برس قبل وہ لاہور میں ایم اے انگریزی کی طالب علم تھی جب پنجاب یونیورسٹی لاہور نے پہلے سال کے امتحانات کے ایک پرچے میں غیر حاضر قرار دے کر انہیں فیل کر دیا تھا جو کہ بعد ازاں عدالت میں غلط ثابت ہوا۔

اگرآپ بھی مختلف کمپنیوں کے موبائل پیغامات سے تنگ ہیں تو یہ خبرآپ کیلئے ہے ، موبائل صارفین کیلئے بڑی خوشخبری آگئی
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وجیہہ عروج نے بتایا کہ جب ان کے سامنے یونیورسٹی کے کلرک نے ان کے والد سے یہ کہا کہ’ ’آپ کو کیا پتہ کہ آپ کی بیٹی نے پرچہ دیا بھی تھا یا وہ کہیں اور تھی‘ ‘تو ان کا سر شرم سے جھک گیا۔یہ سوال تیر کی طرح لگے مجھے، میرے والد صاحب کو مجھے بتاتے ہوئے پسینہ آ رہا تھا اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کہاں چلی جاو¿ں‘
وجیہہ عروج نے نے مزید بتایا کہ میں اتنا زیادہ ڈپریشن میں گئی کہ 2 دن تک رو رو کے میری حالت بری ہو گئی،اپنے تعلیمی کیریئر میں میں کبھی فیل نہیں ہوئی تھی اور مجھے پتہ تھا کہ میں نے کیسا پرچہ دیا تھا۔ بہت زیادہ اچھا نہیں تو وہ اتنا ضرور تھا کہ میں آرام سے پاس ہو جاتی۔”ایم اے کرنے کے بعد پاکستان کا سول سروس کا امتحان دینا چاہتی تھیں یا ملک سے باہر جا کر مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھیں مگر میرے دونوں خواب پورے نہیں ہو سکے“۔
وجیہہ عروج کا کہنا تھا کہ ان ابتدائی دنوں میں وہ اس قدر ذہنی اذیت کا شکار ہوئیں کہ ایک مرتبہ ان کے ذہن میں خود کشی کرنے کا خیال بھی آیامگرپھر اپنی والدہ کی علالت اور پریشانی کے باعث ایسا نہ کر سکی ۔
ان کا کہنا تھا ان کے خاندان کے افراد نے ان کا بھر پور ساتھ دیا جب انہوں نے اپنے والد صغیر محمد خان جو کہ خود ایک جج رہ چکے ہیں کی پیروی میں ہائی کورٹ لاہور میں یونیورسٹی کے دعوے کو چیلنج کیا تو تقریباُُ چار ماہ بعد یونیورسٹی کے اس وقت کے افسران ان کا پرچہ بھی ڈھونڈ کر لے آئے اور انہیں پاس بھی کر دیا گیامگرتب تک ان کا کافی نقصان ہو چکا تھا لہٰذا 2000ءمیں پنجاب یونیورسٹی لاہور کی خلاف25 لاکھ روپے کا ہرجانے کا دعویٰ کر دیا۔


یونیورسٹی اس کے خلاف ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ آف پاکستان تک گئی مگر ہر جگہ سے اس کی اپیل مسترد ہوتی رہی۔ بالآخر 2016ءمیں دیوانی عدالت نے وجیہہ عروج کے حق میں فیصلہ دیا۔ تاہم عدالت نے ہرجانے کی رقم 25 لاکھ سے کم کر کے 8 لاکھ تک کر دی۔پنجاب یونیورسٹی نے اس فیصلے کو پھر سے اپیل کورٹ میں چیلنج کیا جس کا فیصلہ رواں ماہ میں پھر سے ان کے خلاف آیا۔ تاہم اب بھی یونیورسٹی اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا حق رکھتی ہے۔

مزید :

لاہور -