’فیس بک انتظامیہ نے پاکستان کی درخواست پرویب سائٹ سے توہین آمیز مواد ہٹا دیا‘

’فیس بک انتظامیہ نے پاکستان کی درخواست پرویب سائٹ سے توہین آمیز مواد ہٹا ...
’فیس بک انتظامیہ نے پاکستان کی درخواست پرویب سائٹ سے توہین آمیز مواد ہٹا دیا‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آبا د(ڈیلی پاکستان آن لائن )حکومت پاکستان کی درخواست پر” فیس بک“ نے توہین آمیز مواد ہٹا دیا ۔

”العربیہ “کے مطابق وزارت داخلہ نے سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا کہ ”فیس بک “ نے پاکستان کی درخواست پر عمل کرتے ہوئے ویب سائٹ سے 85فیصد توہین آمیز اور مسلمانوں کے جذبات مجروع کرنے والا مواد ہو ہٹا دیا ہے۔وفاقی سیکریٹری داخلہ عارف خان نے عدالت عالیہ میں پیش کردہ رپورٹ میں بتایاہے کہ فیس بک نے حکومت کی جانب سے لکھے گئے خط کا جواب دیا ہے اور توہین آمیز مواد کو ہٹانے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے27مسلم ممالک کے سفیروں کو اس معاملے میں اعتماد میں لیا ہے جبکہ آن لائن توہین آمیز مواد کی تشہیر کے الزام میں3افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں 2 توہین آمیز مواد براہ راست پوسٹ کرنے میں ملوث تھے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو ان مشتبہ افراد کے لیپ ٹاپس اور موبائل ڈیوائسز سے توہین آمیز مواد ملا ہے۔اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔
عدالت نے جب ان سے استفسار کیا کہ جس ملک سے یہ توہین آمیز مواد تیار کرکے پوسٹ کیا گیا تھا اس کے سفیر کو کیوں نہیں طلب کیا گیا؟ تو انہوں نے بتایا کہ واشنگٹن میں ہمارے سفارت خانے نے امریکی حکومت کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا ہے تاہم فیس بک پر پابندی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) کے چیئرمین اسماعیل شاہ نے عدالت کو بتایا کہ25 ارکان پر مشتمل ایک ٹیم آن لائن موجود توہین آمیز مواد کی نشان دہی کے لیے کام کررہی ہے اور اتھارٹی نے اب تک ایسے 40 صفحات کے خلاف کارروائی کی ہے۔
پی ٹی اے کے سربراہ کا کہنا تھا کہ فیس بک کی انتظامیہ نے اس معاملے کی نزاکت کا احساس کیا ہے اور پاکستان کے مطالبے کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور یہ ہماری ایک بڑی کامیابی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سماعت کے دوران27 مسلم ممالک کے سفیروں کا اجلاس طلب کرنے پر حکومت کی کاو ش کو سراہا تاہم انہوں نے وزارت اطلاعات کے کردارپر ناراضگی کا اظہار کیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزیر انوشہ رحمان کو ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ عدالت میں آکر یہ وضاحت کریں کہ یہ معاملہ اب تک حل کیوں نہیں ہوا ہے۔
انہوں نے امتناع برقی جرائم ایکٹ مجریہ 2016ءمیں ترامیم سے متعلق ایک رپورٹ بھی طلب کرتے ہوئے تمام متعلقہ فریقوں کو اس معاملے میں اپنی اپنی پیش رفت کی رپورٹس روزانہ کی بنیاد پر پیش کرنے کی ہدایت کی ہے اور کیس کی مزید سماعت 31 مارچ تک ملتوی کردی ہے۔

مزید :

قومی -