نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ اکیسویں قسط
تحریر:شاہدنذیرچودھری
سازشوں کا نیا دور
وسیم اکرم کے دوستانہ رویہ کیوجہ سے ٹیم میں ٹینشن دور تو ہو گئی مگر1995ء کا سیزن کرکٹ کی تاریخ میں پاکستان کے لیے نہایت برا ثابت ہوا پاکستان اس بدنامی کا حقدار نہ تھا۔بدنامیوں کو بوچھاڑ سے بچنے کے لیے یکے بعد دیگرے پانچ کپتان بدلنے پڑے۔مگر پاکستانی کرکٹ کو پستیوں میں جس سازش کے تحت دھکیلا گیا تھا اس کا سنبھالنا اور ان سازشوں سے آگاہ ہونا ان کے مقدر میں نہیں تھا۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بدقسمتی تو اسی وقت ہی شروع ہو گئی تھی۔ جب وسیم اکرم کے خلاف سازشیں شروع ہوئی تھیں لیکن اس کیب اوجود کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کا گراف بلند ہی رہا۔مگر سری لنکا کے بعد1994ء کے آخر میں آسٹریلیا کے ساتھ ٹیسٹ میچوں کا دور شروع ہوا تو پاکستان نے بہترین کھیل کا مظاہرہ دکھایا اور یہ سیریز ایک صفرسے جیت لی۔
اس عبرتناک شکست کے چھ مہینے بعد آسٹریلیا کے کھلاڑیوں شین وارن اور مارک وا نے پریس کانفرنس کرکے سلیم ملک پر الزام لگایا کہ اس نے کراچی ٹیسٹ ہارنے کے لیے انہیں رشوت کی آفر کی تھی۔اس وقت پاکستان زمبابوے اور جنوبی افریقہ کے دورے پر تھا اوروسیم اکرم انگلینڈ میں بستر علالت پر تھا۔ ان دنوں وہ Sinus Operationکی وجہ سے کھیلنے سے معذور تھا۔
صحت یاب ہونے کے بعد جب وہ جنوبی افریقہ پہنچا تو یہاں اسے عجیب و غریب صورتحال سے دو چار ہونا پڑا۔ کپتان سلیم ملک پر جوئے کا الزام عائد کیا چکا تھا۔ اس دوران سلیم ملک سے بھی دوایسی فاش غلطیاں ہو چکی تھیں جس سے اس کا کردار نہایت مشکوک ہو گیا تھا۔ وسیم اکرم بخوبی جانتا تھا کہ شین وارن اور مارک وا نے اس وقت یہ الزام عائد کیا ہے جب پاکستان دوسری بارورلڈ کپ کے لیے نہایت فیورٹ بن چکا تھا۔کیونکہ اس سے پہلے پاکستان کی ٹیم نہایت مضبوط ہو چکی تھی۔
سٹے بازوں کے آلہ کار
وسیم اکرم نے پہلے تو صورت حال کا تجزیہ کیا پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ پاکستان کو جوئے میں ملوث کرنے کی یہ پہلی بازش نہیں تھی بلکہ اس دور میں بھارت اور پاکستان کی ٹیموں کے خلاف جوئے اور سٹے بازوؤں کا آلہ کار بنے کی افواہیں گردش کرتی رہتی تھیں۔گذشتہ سال شارجہ کپ کے دوران ایک بار وسیم اکرم کو ایک ایسی ہی گمنام ٹیلی فون کال کے ذریعہ بتایا گیا تھا کہ ٹیم کے چھ کھلاڑی بک چکے ہیں اور کل وہ انڈیا سے ہار جائیں گے۔وسیم اکر نے ٹیم منیجر انتخابعالم کو اس فون کال سے مطلع کیا تو انتخاب عالم نے کہا۔
بیسویں قسط پڑھنے کیلئے کلک کریں۔
’’وسیم!میں بھی ایسی ہی ایک کال سن چکا ہوں‘‘۔چنانچہ وسیم اکرم کے مشورے پر انتخاب عالم نے ٹیم میٹنگ کی اور تمام کھلاڑیوں سے اس افواہ کے بارے میں دریافت کیا لیکن ہر ایک نے لا تعلقی ظاہر کی۔ انتخاب عالم اس پر بھی مطمئن نہ ہوئے اور انہوں نے تمام کھلاڑیوں سے قرآن پاک پر حلف لیا کہ وہ کبھی بھی سٹے بازوں کے آلہ کار نہیں بنیں گے۔اگلے روز پاکستان نے فائنل میں بھارت کو بری طرح ہرادیا۔
وسیم اکرم شین وارن اور مارک وا کے اس پراپیگنڈے پر اس لیے بھی حیران تھا کہ وہ دونوں نہایت ذمہ دار کرکٹر تھے مگر انہیں چھ مہینے بعد پریس کانفرنس کرنے کا خیال کیوں آیا۔اگرکراچی کے میچ میں سلیم ملک نے انہیں رشوت کی پیشکش کی تھی تو وہ میچ ہارنے کے بعد آسٹریلیا کے کھلایوں نے واویلا کیوں نہ مچایا۔اب جب کہ وہ پاکستان کے کپتان پر الزام عائد کر چکے تھے۔نہایت خاموشی کے ساتھ بیٹھ چکے تھے۔دنیا کو تماشا دکھانے کے بعد وہ خود بھی تماشائی بن گئے تھے مگر شامت سلیم ملک کی آگئی۔پاکستان میں ان کے خلاف جسٹس فخر الدین ابراہیم پرمبنی ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا دی اور اب سلیم ملک کا کردار مکمل طور پر مشکوک ہو چکا تھا۔
آسٹریلوی کھلاڑیوں کے الزام نے بعض سرکش کھلاڑیوں کی زبانیں ایک بار پھر کھول دیں۔وقار یونس سمیت دوسرے چند نوجوانوں نے سلیم ملک کو آڑے ہاتھوں لیا شروع کر دیا تھا۔وسیم اکرم نے اس مرحلے پر سلیم ملک کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سے دریافت کیا۔
’’سلیم!آخر یہ رشوت کا معاملہ کیا ہے‘‘؟
سلیم ملک نے لاتعلقی ظاہر کی اور بتایا:
’’وسیم!آپ خودگواہ ہویں کہ ہم نے کراچی ٹیسٹ کس قدر ذمے داری سے کھیلا اور کتنی مشکل سے جیتے تھے۔ اس کے باوجود آسٹریلوی کھلاڑیوں کا الزام لگانا سوائے جھوٹ کے پلندہ کے اور کچھ نہیں۔ہم نے آسٹریلیا کو اس کی ہوم سیریز میں بھی ہرایا تھا۔ اس سیریز میں کراچی ٹیسٹ کا فیصلہ ایک وٹ سے ہوا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ بہت شاندار فتح تھی۔ ہم نے230سکور کا ہدف حاصل کرکے فتح پائی تھی۔ آپ جانتے ہوں گے کہ ہماری ٹیم کو جیتنے کے لیے57رنز درکار تھے اور انضمام الحق کا ساتھ دینے کے لیے مشتاق احمد آخری کھلاڑی تھے۔شین وارن اس وقت چھایا ہوا تھا۔ ایک موقع پراس نے انضمام کو لیگ اسٹمپ کے باہر گیند پچ کرائی مگراس گیند نے بڑا بریک لیا اور آف اسٹیمپ کی طرف گھومی۔ انضمام الحق اس کو مڈ وکٹ کی طرف کھیلنے کی کوشش میں توازن کھو بیٹھا اور وکٹ پر گر گیا۔ خوش قسمتی سے وکٹ کیپر اس گیند کو نہ پکڑ سکا اور پاکستان کو چار سکور مل گئے۔اگر اس وقت انضمام اسٹیمپ ہو جاتا تو ہم میچ ہار جاتے۔تماشائیوں نے اس معجزہ پر نعرہ تکبیر بلند کیا۔ جس سے انضمام الحق اور مشتاق احمد کے حوصلے بڑھ گئے اور انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہم جیت گئے۔اب آپ خود سوچیں کہ اگر میں نے انہیں رشکت کی آفردی ہوتی تو کھلاڑیوں کا مورال یوں بلند ہوتا‘‘یہ کہتے ہوئے سلیم ملک کا لہجہ گھمبیر ہو گیا اور آنکھیں نم و گئیں۔
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔