دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول، قسط نمبر 30

دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول، قسط نمبر 30
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول، قسط نمبر 30

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘، میں نے چلتے چلتے صالح سے پوچھا۔
’’وہ کیا؟‘‘
’’وہ یہ کہ اولین سے آخرین تک مسلمانوں کی تعداد کروڑوں بلکہ اربوں میں تھی۔ تو پھر لیلیٰ کا نمبر بالکل ابتدا ہی میں کیسے آگیا؟‘‘
’’تم کیا سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ شناختی کارڈ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں؟‘‘
’’میں سمجھا نہیں کہ تمھاری اس بات کا کیا مطلب ہے؟‘‘

دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول، قسط نمبر 29 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی غالب ترین اکثریت نے اپنے لیے مسلمان ہونے کی شناخت پسند ہی نہیں کی۔ بیشتر لوگوں کے لیے ان کا اپنا فرقہ، اپنے اکابرین اور اپنا مسلک ہی اصل شناخت بنا رہا۔ چنانچہ آج کے دن جب امت مسلمہ کا حساب کتاب شروع ہوا تو پہلے پہل صرف ان لوگوں کو بلایا گیا جو صدق دل کے ساتھ توحید کے ماننے والے اور ہر قسم کی فرقہ واریت سے اوپر اٹھ کر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اپنی نسبت کرنے والے، ہر طرح کی بدعتوں اور انحراف سے اپنے دین کو محفوظ رکھنے والے لوگ تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے کبھی حق کے معاملے میں اپنے تعصبات اور وابستگیوں کو اہمیت نہیں دی۔ جب کبھی حق سامنے آیا انھوں نے کھلے دل سے اسے قبول کیا۔ ایسے لوگوں میں عرش کے سائے تلے کھڑے صالحین بھی شامل تھے اور وہ لوگ بھی جن کے اچھے اعمال کے ساتھ برے رویے بھی ملے ہوئے تھے اور اسی بنا پر وہ میدان حشر میں کھڑے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی ذاتِ کریم نے ان کے برے اعمال کو نظر انداز کردیا اور نیک اعمال کی بنا پر نجات کا پروانہ ان کے ہاتھ میں تھمادیا۔ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اس لیے تمھاری بیٹی لیلیٰ کا نمبر جلدی آگیا۔ وہ کم از کم اس معاملے میں بالکل پکی نکلی تھی۔ جو اس کی عملی کمزوریاں تھی وہ حشر کی سختی جھیلنے کی بنا پر قابل مؤاخذہ قرار نہیں پائیں۔ بلکہ ربِّ کریم نے کمالِ عنایت سے اسے بھی تمھارے ساتھ کردیا، حالانکہ اس کے عمل تمھارے جیسے نہیں تھے۔‘‘
’’مگر میرا حساب کتاب اور فیصلہ تو ابھی ہوا نہیں۔‘‘
’’تم اس وقت جہاں ہو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ فیصلہ ہوچکا ہے۔ البتہ اعلان ابھی نہیں ہوا۔ اور بے فکر رہو، حشر کے دن کے اختتام پر سب سے آخر میں ہوگا۔‘‘
’’ایسا کیوں؟‘‘، میں نے دریافت کیا تو صالح نے وضاحت کی:
’’میں نے پہلے تمھیں بتایا تھا کہ چار قسم کے لوگ ہیں جن کی نجات کا فیصلہ موت کے وقت ہی ہوجاتا ہے یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین۔‘‘
میں نے اثبات میں گردن ہلائی۔ صالح نے اپنی بات جاری رکھی:
’’ان میں سے انبیا اور شہدا وہ لوگ ہیں جن کا اصل کارنامہ عام لوگوں پر دینِ حق کی شہادت دینا اور توحید و آخرت کی طرف لوگوں کو بلانا ہے۔ آج قیامت کے دن ان دونوں گروہوں کے افراد اپنی اس شہادت کی روداد اللہ کے حضور پیش کریں گے جو انہوں نے دنیا میں لوگوں پر دی تھی۔ اس طرح لوگوں کے پاس یہ عذر نہیں رہ جائے گا کہ حق اور سچائی انہیں معلوم نہیں ہوسکی۔ کیونکہ یہ انبیا اور شہدا سچائی کو کھول کھول کر بیان کرتے رہے تھے۔
چنانچہ اس شہادت کی بنیاد پر لوگوں کا احتساب ہوگا اور ان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کردیا جائے گا۔ یہ فیصلے ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ سارے انسان نمٹ جائیں گے اور آخر میں تمھارے جیسے سارے شہدا کو بلاکر ان کی کامیابی کا اعلان کیا جائے گا۔ اس کے بعد پھر کہیں جاکر لوگوں کو جنت اور جہنم کی طرف روانہ کیا جائے گا۔‘‘
’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ فوراً جنت یا جہنم میں نہیں جائیں گے۔‘‘
’’نہیں فوراً نہیں جائیں گے۔ بلکہ ایک ایک شخص کا حساب کتاب ہوتا جائے گا۔ اگر وہ کامیاب ہے تو سیدھے ہاتھ کی طرف عزت و آسائش میں اور ناکام ہے تو الٹے ہاتھ کی طرف ذلت اور عذاب میں کھڑا کردیا جائے گا۔ جب سب لوگوں کا حساب کتاب ہوجائے گا تو پھر لوگ گروہ در گروہ جنت اور جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے۔‘‘
’’اور سب سے پہلے؟‘‘
’’سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت کا دروازہ کھلوائیں گے اور پھر اہل جنت زبردست استقبال اور سلام و خیر مقدم کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘
’’اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟‘‘
’’اس وقت حضور حوضِ کوثر کے پاس ہیں۔ آپ کی امت میں سے جس کسی کا حساب کتاب ہوجاتا ہے اور وہ کامیاب ہوتا ہے تو اسے پہلے حضور کے پاس لایا جاتا ہے جہاں جامِ کوثر سے اس کی تواضع ہوتی ہے۔ جس کے بعد وہ نہ صرف حشر کی ساری سختی اور پیاس بھول جاتا ہے بلکہ آئندہ پھر کبھی پیاسا نہیں ہوتا۔ ویسے تمھیں جام کوثر یاد ہوگا؟‘‘
’’کیوں نہیں؟‘‘، میں نے جواب دیا۔
صالح کی باتیں سن کر میرے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا اشیاق پیدا ہوگیا۔ میں نے صالح سے کہا:
’’کیوں نہ ہم پہلے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوجائیں۔‘‘
ابھی میری زبان سے یہ جملہ نکلا ہی تھا کہ ایک صدا بلند ہوئی:
’’امتِ محمدیہ کے کامیاب لوگوں کا حساب مکمل ہوگیا ہے۔ اب امت عیسوی کا حساب شروع ہورہا ہے۔ عیسیٰ ابن مریم، مسیح علیہ السلام، اللہ کے رسول اور بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر پروردگار عالم کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔‘‘
میں نے سوالیہ نظروں سے صالح کو دیکھا تو اس نے کہا:
’’اب حضرت عیسیٰ اپنی قوم پر گواہی دیں گے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے سوال کے جواب میں اپنی تعلیمات کا خلاصہ پیش کریں گے۔ یہ اپنی قوم کے مجرمین کے خلاف ان کی شہادت ہوگی اور صحیح عقیدے اور عمل والوں کے حق میں یہ ایک نوعیت کی شفاعت بن جائے گی۔ اس کے بعد ان کی امت میں سے جن لوگوں کے عقیدے بالکل اس تعلیم کے مطابق ہوئے، ان کی غلطیاں اللہ تعالیٰ نظر انداز کردیں گے اور سرسری حساب کتاب کے بعد وہ سب کامیاب قرار پائیں گے۔‘‘
’’کیا یہی کچھ مسلمانوں کے معاملے میں ہوا تھا؟‘‘
’’ہاں سب سے پہلے نبی آخر الزماں کو بلایا گیا تھا اور انھوں نے گواہی دی تھی۔ یہ گواہی آپ کا انکار کرنے اور آپ کی نافرمانی کرنے والوں کے خلاف ایک شہادت بن گئی۔ کاش تم وہ منظر دیکھ لیتے جب ان میں سے ہر شخص کی خواہش یہ ہوگئی تھی کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سماجائے۔ البتہ یہ شہادت لیلیٰ جیسے لوگوں کے حق میں شفاعت بن گئی۔ گرچہ نجات کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کا ایمان و عمل مجموعی طور پر حضور کی شہادت کے مطابق تھا۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ ابھی امت مسلمہ کے صرف ان لوگوں کو نجات ملی ہے جن کا عقیدہ و عمل حضور کی تعلیمات کے مطابق تھا؟‘‘
’’ہاں ان کی غلطیاں نظر انداز کردی گئیں۔ اور یہی دیگر انبیا کی امتوں کے ساتھ ہوگا۔ انبیا کی امتوں کے ان لوگوں کو نجات مل جائے گی جن کا عقیدہ و عمل مجموعی طور پراپنے نبی کی تعلیمات کے مطابق تھا۔ اس کے بعد میدان حشر میں صرف مجرم اور نافرمان ہی فیصلے کے منتظر رہ جائیں گے۔‘‘
’’پھر کیا ہوگا؟‘‘
’’اس کے بعد عمومی حساب کتاب شروع ہوگا۔‘‘
’’عمومی حساب کتاب؟‘‘، میں نے سوالیہ انداز میں پوچھا توصالح نے کہا:
’’تمام امتوں کے حساب کتاب کا پہلا مرحلہ وہ ہے جس میں صالحین کی کامیابی کا اعلان ہورہا ہے اور لیلیٰ جیسے لوگوں کو رسمی حساب کتاب کے بعد فارغ کیا جارہا ہے۔ اس کے بعد عمومی حساب کتاب شروع ہوگا جس میں اعمال کی پوری جانچ پڑتال کے بعد فیصلہ ہوگا۔ ظاہر ہے اس کے نتیجے میں سارے مجرمین زد میں آجائیں گے۔ البتہ اہل ایمان میں سے بہت سے لوگ اپنے گناہوں کے باوجود اللہ کی رحمت کی بنا پر نجات پائیں گے اور ان کی میزان کا دایاں پلڑا بھاری ہوجائے گا۔ ان کا میدان حشر میں خوار و خراب ہونا ان کی معافی کا بہانہ بن جائے گا۔ اسی کو میں عمومی حساب کتاب کہہ رہا ہوں۔
البتہ کچھ لوگ ہوں گے جن کو آخری وقت تک کے لیے روک دیا جائے گا اور حساب کتاب کے لیے نہیں بلایا جائے گا۔ یہ وہ مؤمن ہوں گے جن پر گناہوں کا بوجھ بہت زیادہ ہوگا۔ ان لوگوں کے لیے انتظار کا یہ انتہائی طویل وقت ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں سال تک چلتا چلا جائے گا جس میں انہیں بدترین سختیاں، مصیبت اور پریشانی جھیلنا ہوگی۔ پھر کہیں جاکر ان کی نجات کا کوئی امکان پیدا ہوگا۔‘‘
’’وہ امکان کیا ہوگا؟‘‘
’’وہ امکان اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کا ظہور ہے کہ وہ اپنے عدل کے مطابق لوگوں کو مکمل سزا دینے کے بجائے حشر کی سزا کو ان کے گناہوں کا کفارہ بنادے گا اور اس کے بعد ان کی معافی کا سبب اپنے نبیوں اور خاص کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس درخواست کو بنادے گا کہ ان کا حساب کتاب بھی کرہی دیا جائے۔‘‘
’’مگر حشر کی اتنی تکلیف اٹھانا اور پھر نجات پانا تو کوئی اچھا طریقہ نہیں ہوا۔‘‘، میں نے تأسف بھرے لہجے میں پوچھا تو صالح نے جواب میں کہا:
’’اچھا طریقہ بتانے ہی تو انبیاے کرام آئے تھے کہ ایمان لاؤ، عمل صالح کرو اور کوئی غلطی ہوجائے تو معافی مانگ لو۔ نجات کا سب سے سادہ اور آسان نسخہ یہی تھا، مگر نبیوں کی بات کسی نے سنی ہی نہیں اور اس کا نتیجہ آج بھگت لیا۔‘‘
میں نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا:
’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ یہ تو بڑی خرابی اور خواری کے بعد معافی ہوئی۔ میں تو لیلیٰ کی پریشانی نہیں دیکھ سکا تھا جو ابتدا ہی میں نجات پاگئی تو ان لوگوں کا کیا ہوگا جو آخر تک انتظار کرتے رہیں گے اور حشر کی سختیاں اور مصائب برداشت کرتے رہیں گے۔‘‘
’’میرے بھائی تم نے لیلیٰ کو جن حالات میں دیکھا تھا وہ تو بہت اچھے تھے۔ لیکن اب میدان حشر کا ماحول بہت بھیانک ہوچکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہنم کا دہانہ مکمل طور پر کھول دیا گیا ہے۔ جس کے بعد صرف حشر کی گرمی ہی نہیں بلکہ جہنم کا نظارہ اور اس میں جانے کا امکان بھی لوگوں کو مارے ڈال رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا غضب مجرموں پر بھڑک رہا ہے۔ لوگ اپنے سامنے تباہی اور رسوائی کے دروازے کھلے دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب اتنا ہولناک ہے کہ انسان کی برداشت سے باہر ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا ہوگا۔ اس لیے اس وقت تم اہل محشر کے خوف اور ان کے ذہنی و جسمانی عذاب اور نفسیاتی اذیت کا اندازہ نہیں کرسکتے۔‘‘
میں دل میں سوچنے لگا کہ کیا یہی وہ طریقہ تھا جس کے ذریعے سے لوگ نجات کی آس لگائے بیٹھے تھے؟ کاش لوگ دنیا ہی میں سمجھ لیتے کہ نجات کا انحصار ایمان اور عمل صالح پر ہوگا۔ حضور نے ساری عمر اسی کی دعوت دی تھی۔ مگر لوگوں کی خوش فہمیوں کا کیا کیجیے۔ حضور کی اصل دعوت کو انہوں نے پیچھے پھینک دیا اور اپنے گمانوں کی جھوٹی دنیا آباد کرلی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ کچھ نہ بھی کریں شفاعت انہیں بخشوادے گی۔ مگر آج یہ بالکل واضح ہوچکا ہے کہ نجات ایمان اور عمل صالح پر ملے گی۔ ہر وہ بڑا گناہ جس کی توبہ نہیں کی، اس کی سزا آج حشر کی سختی اور جہنم کے بھیانک سائے تلے بھگتنا پڑے گی۔ اے کاش کہ لوگوں کو یہ بات آج سمجھ آنے کے بجائے دنیا ہی میں سمجھ آجاتی تو ان کی ساری زندگی توبہ کرتے گزرتی۔
میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ صالح نے مجھے دیکھ کر کہا:
’’میرا خیال ہے کہ حوض کوثر پر جانے سے قبل حضرت عیسیٰ کی گواہی کا منظر دیکھ لیتے ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں گے۔‘‘(جاری ہے)

دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول، قسط نمبر 31 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔