دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول، قسط نمبر 31
ہم ایک دفعہ پھر میدان حشر میں آچکے تھے۔ مگر اس دفعہ ہم عرش الٰہی کے دائیں طرف کھڑے تھے۔ عرش الٰہی کی تجلیات سے زمین و آسمان منور تھے۔ کامیاب لوگوں کے لیے یہ تجلیات مسرت و شادمانی کا پیام تھیں جبکہ مجرموں پر یہ قہر بن کر نازل ہورہی تھیں۔ عرش الٰہی کے چاروں طرف فرشتے ہاتھ باندھے حلقہ در حلقہ کھڑے تھے۔ سب سے پہلے حاملین عرش تھے اور ان کے بعد درجہ بدرجہ دیگر فرشتے۔ ان فرشتوں کی زبان پر حمد، تسبیح اور تکبیر و ثنا کے کلمات تھے۔ حضرت عیسیٰ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوچکے تھے۔ جبکہ اوّل سے آخر تک سارے عیسائیوں کو میدان حشر میں موجود فرشتوں نے دھکیل کر عرش کے قریب کردیا تھا۔ ارشاد ہوا:
’’عیسی ابن مریم قریب آؤ۔‘‘
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول، قسط نمبر 30 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فرشتوں نے سیدنا عیسیٰ کے لیے راستہ چھوڑ دیا اور وہ چلتے ہوئے عرش الٰہی کے بالکل قریب آکھڑے ہوئے۔ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے اور گردن جھکی ہوئی تھی۔ ارشاد ہوا:
’’عیسیٰ تم نے اپنی قوم کو میرا پیغام پہنچادیا تھا؟ تمھیں کیا جواب ملا؟‘‘
’’مالک مجھے کچھ علم نہیں۔ غیب کا علم تو صرف تجھے ہے۔‘‘
ان کی یہ بات اس حقیقت کا بیان تھی کہ حضرت عیسیٰ کومعلوم نہ تھا کہ ان کی امت نے ان کے بعد دنیا میں کیا کیا تھا۔ حضرت عیسیٰ کے اس جواب پر میدان حشر میں ایک خاموشی چھاگئی۔ کچھ لمحے بعد آسمان پر ایک دھماکہ ہوا۔ تمام نظریں آسمان کی طرف بلند ہوگئیں۔ آسمان پر ایک فلم سی چلنے لگی۔ اس فلم میں عیسائی حضرت عیسیؑ اور حضرت مریمؑ کے مجسموں کے سامنے سر ٹیک رہے تھے۔ بازاروں میں صلیب پکڑے لوگ جلوس نکال رہے تھے۔گرجوں میں مسیح و مریم کی پرستش ہوہی تھی۔ مسیح کو مشکل کشا سمجھ کر ان سے مدد مانگی جارہی تھی ۔ان کی تعریف کے نغمے گائے جارہے تھے۔پادری تقریروں میں انھیں خدا کا بیٹا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے تھے۔
میں یہ مناظر دیکھتا ہوا سوچ رہا تھا کہ عیسائیوں نے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے شرک کو جنم دیا تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے پیغمبر حضرت عیسیٰؑ کو توحید ہی کی دعوت دے کر بھیجا تھا۔ ان کے زمانے میں یہودیوں نے شریعت موسوی میں طرح طرح کی فقہی موشگافیاں کرکے اس پر عمل کو بہت مشکل بنادیا تھا۔ ان لوگوں نے خدا اور بندے کے ایمانی اور محبت آمیز تعلق کو ایک بے روح قانونی تعلق میں بدل دیا تھا۔ چنانچہ وہ چند ظاہری اور معمولی اعمال پر تو خوب زور دیتے مگر ایمان و عمل صالح سے متعلق تمام اخلاقی احکام کے معاملے میں ان پر غفلت طاری تھی۔ ایسے میں ان کی طرف سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی۔ آپ نے بڑی شدت سے بنی اسرائیل کی ظاہر پرستی اور اخلاقی دیوالیے پن پر تنقید کی۔ اپنے زمانے کے مذہبی لوگوں پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا:
’’اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہو اور دکھاوے کے لیے نمازوں کو طول دیتے ہو، تمہیں زیادہ سزا ہوگی۔۔۔ اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ پودینہ اور سونف اور زیرہ پر تو دہ یکی (یعنی عشر: پیداوار کی زکوٰۃ) دیتے ہوپر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔ لازم تھا کہ یہ بھی کرتے وہ بھی نہ چھوڑتے۔ اے اندھے راہ بتانے والوں جو مچھر کو تو چھانتے ہوا ور اونٹ کو نگل جاتے ہو۔ اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ پیالے اور رکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو مگر وہ اندر لُوٹ اور ناپرہیزگاری سے بھرے ہیں۔ اے اندھے فریسی پہلے پیالی اور رکابی کو اندر سے صاف کر تاکہ اوپر سے بھی صاف ہوجائیں۔ اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کی مانند ہو جو اوپر سے تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راستباز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں بے دینی اور ریاکاری سے بھرے ہو۔‘‘
آپ کی اس تنقید پر یہودی آپ کے سخت دشمن ہوگئے اور یہاں تک کہ وہ آپ کے قتل پر آمادہ ہوگئے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے مکر سے بچاکراپنی طرف اٹھالیا۔ بدقسمتی سے مسیح کے بعد سینٹ پال نامی آپ کے ایک کٹر یہودی دشمن نے آپ کی پیروی کا لبادہ پہن کر آپ کی پوری تعلیمات کو مسخ کرکے رکھ دیا۔ ایک طرف اس نے اعلان کیا کہ شریعت کی پابندی صرف یہودیوں کے لیے ضروری ہے، دیگر لوگوں کے لیے نہیں۔ دوسری طرف اس نے حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کو الوہیت کے مقام پر فائز کردیا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ عیسائیت دنیا کا سب سے بڑا مشرکانہ مذہب بن گیا۔ عیسائی مسیح کو خدا کا بیٹا سمجھتے، مشکل کشا سمجھ کر ہر مصیبت میں ان کا نام لیتے۔ مگر یہ ایک جھوٹ تھا جس کا جھوٹ ہونا آج بالکل کھل گیا ہے۔
میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ میدان حشر میں عیسائیوں کے رونے کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ عیسائیوں کو اپنے کرتوت صاف نظر آگئے تھے اور ان کا بھیانک انجام جہنم کی شکل میں منہ کھولے ان کے سامنے کھڑا تھا۔ یکایک بہت سے مسیحی چلانے لگے:
’’خداوند ہم نے مسیح کی تعلیمات پر عمل کیا تھا۔ تو نے اپنے مسیح کو ہماری طرف بھیجا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ وہ تیرا بیٹا ہے جسے تو نے ہماری نجات کے لیے بھیجا ہے۔‘‘
ایک تیز ڈانٹ فضا میں بلند ہوئی اور سب لوگ ٹھٹک کر خاموش ہوگئے۔ مسیح سے پوچھا گیا:
’’عیسیٰ! کیا تم نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو اپنا معبود بنالو۔‘‘
گرچہ یہ ایک سادہ سا سوال تھا، مگر یہ سنتے ہی حضرت عیسیٰ پر لرزہ طاری ہوگیا۔ ان کے پاؤں کے لیے ان کا بوجھ اٹھانا مشکل ہوگیا۔ یہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’عیسیٰ تم میرے محبوب پیغمبر ہو۔ میرے پیغمبر میرے حضور ڈرا نہیں کرتے۔ اطمینان سے میری بات کا جواب دو۔‘‘
اس جملے کے ساتھ ہی دو فرشتے حضرت عیسیٰ کے قریب آئے اور انہیں سہارا دے کر ایک نشست پر بٹھادیا۔
یہ منظر انتہائی عبرتناک تھا۔ سیدنا عیسیٰ خدا کے ایک انتہائی عزیز اور محبوب پیغمبر تھے، مگر بدقسمتی سے وہی انسانی تاریخ کی ایسی ہستی بن گئے جنھیں سب سے بڑے پیمانے پر اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں لاکھڑا کیا گیا۔ ان سے دعا و مناجات کی جاتی، ان کی حمد و تعریف کی جاتی، ان کی عبادت و پرستش کی جاتی۔ مگر آج اللہ تعالیٰ کے ایک سوال پر ان کی جو حالت ہوگئی تھی وہ ان کو خدا سمجھنے والوں کو خون کے آنسو رلانے کے لیے بہت تھی۔ آج سب نے جان لیا تھا کہ خدا کے مقابلے میں کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔(جاری ہے)
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول، قسط نمبر 32 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔