اب انہیں کون یاد کرے گا؟
دنیائے ادب وصحافت میں اپنے کام کی بدولت قلم کے ذریعے قوم کی خدمت اور انسانیت سے محبت کا درس دینے والے منو بھائی 19 جنوری2018 ء کی صبح 84 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
آپ بابائے صحافت مولانا ظفر علی خاںؒ کے شہر وزیرآباد ضلع گوجرانوالہ میں چھ جنوری 1933 ء کو پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم وزیرآباد سے ہی حاصل کی۔ پنجابی کے معروف شاعر شریف کنجاہی آپکے ماموں تھے۔
اس حوالے سے ایک انٹرویو میں منو بھائی بقلم خود بتاتے ہیں کہ’’ہمارے خاندان میں ہر دوسری نسل میں کوئی نہ کوئی شاعرہوتا ہے‘‘۔
آپ کا اصل نام منیر احمد قریشی تھا ۔ آپ کو منو بھائی لقب احمد ندیم قاسمی نے عطا کیا۔ جسے آپ نے نہ صرف خوشی سے قبول کیا بلکہ اسی نام کو اپنی پہچان بنا لیا۔
آپ نے اپنی صحافت کا آغاز روالپنڈی سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’تعمیر‘‘ سے کیا جس کے کچھ ہی ماہ بعد آپکے ہردلعزیز دوست احمد ندیم قاسمی نے انہیں اپنے ساتھ ’’امروز‘‘ اخبار میں کام کرنے کے لئے کہا تو آپ آمادہ ہو گئے اور یہاں کام کرنے لگے۔ اس کے بعد آپ ’’مساوات‘‘ میں صحافتی خدمات سر انجام دینے لگے۔
آپ کا پہلا کالم بھی 7 جولائی1970 ء میں اسی اخبار کی زینت بنا۔ جس کے بعد آپ روزنامہ جنگ سے منسلک ہو گئے اور اپنی آخری سانس تک یہیں ’’گریبان ‘‘ کے عنوان سے کالم نگاری کے جوہر دکھائے۔ کالم کا نام اس شعر سے متاثر ہو کر رکھا۔
راستے بند کئے دیتے ہو دیوانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے
آپ کا شمار ایسے ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی قلم اور کتاب سے جوڑے رکھی، جنہوں نے عوام کی اُمنگوں، خوابوں اور محرمیوں کو زبان دی، جنہوں نے ہمیشہ سچائی کا علم بلند کیا ، جابر حکمرانوں کے آگے سر نہ جھکانے کی قسم کھائی ہو ایسے لوگ جنہوں نے دوسروں کے دردکو اپنادرد سمجھا ہوایسے لوگ دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز صرف دوسروں کے لئے جینا اور مرنا اپنی زندگی سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں منو بھائی مرحوم ایسے لوگوں میں سے ایک تھے جو دوسروں کے لئے اپنی زندگی جیتے تھے۔ جو دوسروں کو خوشیاں بانٹتے ہوئے اپنے دکھ درد کا مداوا اپنی بے ساختہ شاعری میں لفظوں کی صورت کرتا ہے۔ان کی ایک مشہور زمانہ نظم جو میں نے خود ان کی زبانی کئی بار سنی۔
او وی خوب دیہاڑے سن
بھک لگدی سی، منگ لیندے ساں
مل جاندا سی، کھا لیندے ساں
نئیں سی ملدا ، تے رو پیندے ساں
اے وی خوب دیہاڑے نیں
بھک لگدی اے منگ نئیں سکدے
ملدا اے تے کھا نئیں سکدے
نئیں ملدا تے رو نئیں سکدے
نہ روئیے تے سوں نئیں سکدے
منو بھائی ایک دانشور، ادیب، شاعر، ڈرامہ نگار ،مترجم، معروف صحافی اور ممتاز کالم نگار کے طور پر جانے جاتے تھے۔ آپ کی تصنیفات میں ’’اجے قیامت نئیں آئی، جنگل اُداس ہے،فلسطین فلسطین، محبت کی ایک سو نظمیں اورانسانی منظر نامہ پر مشتمل کتاب ناظم حکمت ودیگر کتب شامل ہیں۔آپ نے پاکستان ٹیلی وژن کے لئے بہت سے ڈرامے بھی لکھے جن میں ’’جھوک سیال، دشت، آشیانہ اور سونا چاندی شامل ہیں۔
ان کا سب سے مقبول ہونے والا ڈرامہ سونا چاندی تھا۔انہیں ادبی وصحافتی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے ’’پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا۔
آپ اپنی زندگی کے آخری دس برس تک ایک خیراتی ادارے ’’سندس فاؤنڈیشن‘‘ سے وابستہ رہے جہاں آپ بلامعاوضہ عوام الناس کے لئے کام کرتے رہے۔
یہ ادارہ خون جیسی جان لیوا بیماریوں میں مبتلا بچوں کا مفت علاج کرتا ہے کیونکہ کسی کو خون کا ایک قطرہ دینا بھی جہاد کے برابر ہے۔ منو بھائی ایک درویش منش ، اصول پرست اور درد اندیش شخصیت تھے۔
انہیں بڑوں کیساتھ ساتھ بچوں سے بھی دلی محبت تھی۔ مجھے ان سے ملنے کا اتفاق کئی بار ہوا۔ان کے چہرے پہ میں نے کبھی کوئی پریشانی نہیں دیکھی، وہ مسکراتے ہوئے بھی اپنے دُکھ درد کا احساس دوسروں کو نہیں ہونے دیتے تھے، آخری عمر میں بھی وہ تھری پیس سوٹ پہننا پسند کرتے تھے۔بقول شاعر
ستاروں کی طرح روشن رہوں گا
زمیں سے آسماں میں رہ رہا ہوں
آج ہم اس تنا ور درخت کی چھاؤں سے محروم ہو گئے ہیں۔اُن کی باتیں ،اُن کی یادیں ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گی۔ وہ خود بھی جانتے تھے کہ ان کا جسم بھی مٹی کیساتھ مٹی ہو جائے گا کیونکہ انسان مر جاتے ہیں مگر تحریریں زندہ رہتی اور مرنے والوں کو زندہ رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر اجمل نیازی کا شعر یاد آیا:
وہ نہیں ہے پھر بھی ہم جب یاد کرتے ہیں اُسے
ایسے لگتا ہے ہمارے درمیاں موجود ہے