جب تک آپ ”چاہیے“ کے پھندے میں گرفتار رہتے ہیں، اپنے آپ کو تبدیل کرنے کے خطرے سے محفوظ رہتے ہیں،یہ آپکو ترقی سے محروم رکھتا ہے

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:127
2:بیرونی محورکے حصار کی اطاعت گزاری کے باعث آپ اپنی شخصیت اور کردار کی تشکیل کی ذمہ داری خود اٹھانے کے بجائے دوسروں کو تفویض کر سکتے ہیں اور خود آرام و سکون سے کسی ذہنی و جسمانی مشقت کے بغیر زندگی گزار سکتے ہیں جب تک آپ ”چاہیے“ کے پھندے میں گرفتار رہتے ہیں، اپنے آپ کو تبدیل کرنے کے خطرے سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس لیے آپ کا ”چاہیے“ آپ کو ترقی اور کامیابی سے محروم رکھتا ہے۔ مثال کے طو رپر میری ایک ایسی عورت ہے جس کی عمر چونتیس سال ہے اور وہ اپنے ”چاہیے“ پر مبنی رویے اور طرزعمل کے باعث اپنے شریک حیات کا انتخاب نہیں کر سکی۔ وہ اندرونی سکون سے محروم ہے اور وہ محبت و پیار کے معاملے میں خود سے بہت زیادہ غیرمطمئن ہے۔ مزیدبرآں یہ بھی ممکن ہے کہ میری کو تمام عمر اپنا شریک حیات نہ مل سکے اور وہ محبت و پیار کے جذبے سے آشنا نہ ہو سکے۔ اپنے آپ کو تبدیلی کرنے کے ضمن میں وہ کوئی خطرہ بھی نہیں مول لینا چاہتی اور اس طرح اس کی شخصیت اور کردار کا یہ پہلو بھی ”چاہیے“ کے باعث دوسروں کے رویوں اور طرزعمل کے باعث تشکیل پاتا ہے۔ اس کا جواب ہر وقت یہی ہوتا ہے۔ ”مجھے یہ قدم نہیں اٹھانا چاہیے۔“ مزیدبرآں ”چاہیے“ پر مبنی رویہ اسے اپنے شریک حیات کے انتخاب اور پیار و محبت کے جذبے سے آشنا ہونے کے ضمن میں اس کے مقصد کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچنے دیتا۔
3:جب آپ کو اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں پر اعتماد نہ ہو تو پھر ”چاہیے“ آپ کے لیے سب سے آسان راستہ ثابت ہوتا ہے جب آپ اپنی شخصیت و کردار کو کم تر اور بے وقعت سمجھنا شروع کر دیتے ہیں تو پھر ”چاہیے“ آپ کے ساتھ بطور محافظ منسلک ہو جاتا ہے۔
4:آپ اپنے آپ کو صحیح سمجھنے پر مبنی رویہ اور طرزعمل اختیار کر سکتے ہیں اور جب دوسرے لوگ آپ سے اختلاف رائے کرتے ہیں تو آپ ان کی ساتھ جارحانہ رویہ اختیار کر سکتے ہیں لہٰذا آپ دوسروں کی خواہش اور مرضی کے مطابق اپنا ذہنی اوراندازفکر متعین کر لیتے ہیں۔
5:آپ دوسرے لوگوں کے ساتھ اتفاق رائے اپنا کر ان کی خوشنودی سے سرفراز ہو سکتے ہیں۔ جب آپ اس قسم کا رویہ اپناتے ہیں تو آپ بہت خوش رہتے ہیں۔ آپ کو بچپن ہی سے اس روئیے کا عادی بنا دیا جاتا ہے اور آپ بڑے ہونے پر اس رویے کو اپنانے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔
6:جب تک آپ دوسروں لوگوں پر انحصار کرتے رہتے ہیں، ان کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے ذریعے اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تعین کرتے ہیں، آپ میں خوداعتمادی پیدا نہیں ہوتی اورنہ ہی آپ اپنی شخصیت و کردار کو اہم اورقیمتی سمجھتے ہیں۔ جب آپ دوسروں لوگوں کو خود سے زیادہ ذہن اور باصلاحیت سمجھتے ہیں تو اس طرح آپ خود کو کم تر اورکم فہم قرار دے لیتے ہیں تو پھر آپ اپنی ذات کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر سوار کر دیتے ہیں۔ اس صورتحال میں آپ کی ذات کی قدروقیمت دوسروں کے ذریعے متعین ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ خوداعتمادی سے محروم ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ کو تبدیل کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔