”لوگ در لوگ“ …… اقدار کا آئینہ
فرخ سہیل گوئندی کی مثال پہاڑی ندی کی سی ہے کہ بلندیوں سے جب وہ میدانوں کا ر ُخ کرتی ہے تو بہت پُرشور ہوتی ہے۔نشیب میں اُترتی ہے تو خوش خرام ہو جاتی ہے۔گوئندی سیاست میں بہت فعال تھے،یوں کہنا چاہئے کہ مہم جُو تھے۔ وہ ان ہزاروں لاکھوں نوجوانوں میں سے تھے،جن کی آنکھوں میں انقلاب کے خواب بسے ہوئے تھے اور وہ ان کی تعبیر پانے کے لئے ہر لمحہ آتش زیر پا رہتے تھے۔ان کے سامنے روس اور چین کی مثالیں تھیں، جہاں غیر طبقاتی معاشرہ قائم کرنے کے لئے نوجوانوں نے جدوجہد شروع کی تو اسے بالآخر کامیابی سے ہمکنار کر کے اطمینان کا سانس لیا۔ فرخ سہیل گوئندی کی جدوجہد انتھک اور مخلصانہ تھی،لیکن غیر جمہوری قوتوں کی منہ زوریاں بھی اپنی جگہ تھیں،جنہیں لگام دینا فرخ سہیل گوئندی کے بس کی بات نہ تھی۔بالآخر اس نے صحافتی اور اشاعتی سرگرمیوں میں پناہ لے لی۔ اس نے اپنا ایک پبلشنگ ہاؤس ”جمہوری پبلی کیشنز“ نام سے قائم کیا۔ اچھے لکھاریوں کی تخلیقات اور اپنی قلمی کاوشوں کو زیورِ طباعت سے آراستہ کرنا شروع کر دیا۔
فرخ سہیل گوئندی کی تازہ ترین کتاب ”لوگ در لوگ“ ہے،جس کے دو سو صفحات ہیں اور اس میں 23 شخصیات کے خاکے شامل ہیں،جن میں سے بعض ملکی اور بعض بین الاقوامی شہرت کی حامل ہیں۔غیر ملکی لوگوں میں مشرقی تیمور کے جوز راموس ہورتا، حسنین ہیکل، پیلو مودی، رمز ے کلارک، اردال اِنونو (عصمت اِنونو کے بیٹے) شمعون پیریز (وزیراعظم اسرائیل) جمال نکرومہ، شاہ حسین، نازاں سانچی اور پرنس حسن بن طلال (اردن) کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ ملکی شخصیات میں ذوالفقار علی بھٹو،بے نظیربھٹو،بابائے سوشلزم شیخ رشید،عاصمہ جہانگیر، مولانا عبید اللہ سندھی، مشاہد حسین، حنیف رامے، ملک معراج خالد، راؤ رشید، ممتاز کاہلوں، حاجی مستان مرزا، منو بھائی، وارث میر، ڈاکٹر انور سجاد اور مدیحہ گوہر ہیں۔
سیاست کی پُرخار وادی میں بہت آبلہ آبائی کرنے کے بعد گوئندی نے دُنیا دیکھنے کا عزم باندھ لیا۔ جہاں گردی کے ذوق ہی نے اس کے ملک سے باہر روابط بنوائے، بعض لوگوں سے یہی روابط دوستی کے سانچے میں ڈھل گئے۔یوں انہیں عالمی حالات کے تناظر میں مقامی صورتِ حال کا سائنسی تجزیہ کرنے میں کافی مدد ملی۔
کتاب میں مذکور ملکی شخصیات میں سے کسی کا تعلق قانون سے تھا، کسی کاعملی سیاست سے، کسی کا ادب سے اور کسی کا صحافت سے۔ ان سب کے سامنے زندگی بھر ایک مشن اور پروگرام رہا اور وہ اسی کے لئے تادمِ آخر مصروفِ جہاد رہے۔وہ مشن اور پروگرام تھا اپنے ملک اور قوم کو حقیقی وقار کی زندگی سے ہمکنارکرنا۔ان ہستیوں کو نہ حکومتوں کا دبدبہ جھکا سکا نہ جیلوں کے پُر وحشت شب و روز ڈرا سکے۔ فرخ سہیل گوئندی نے ان شخصیات کو قریب سے دیکھا، ان سے متاثر ہوئے اور اپنے جذبات و احساسات کو نئے رنگ و آہنگ میں ڈھالتے رہے۔
شخصیات کے تذکرے میں ان اعلیٰ اقدار کی جھلکیاں ملتی ہیں، جن سے قوموں کی پہچان بنتی اور ان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ ہوتا ہے کہ انہیں صفحہ ہستی پر کتنا عرصہ جیناہے اور جینا ہے تو کس شان سے جینا ہے۔ فرخ سہیل گوئندی نے ”بابا گودھا کی بستی“ والے مضمون میں اپنے آبائی شہر کی پسماندگی پر آنسو بہائے ہیں، احتجاج کیا ہے، اور اتنی بلند آہنگی کے ساتھ کیاہے کہ شاید شہر کی مقامی قیادت کی بے حسی ٹوٹ جائے، گوئندی لکھتے ہیں:
”مَیں نے اس شہر کو اس کے آج کے باسیوں کے ہاتھوں گندگی کے ڈھیروں اور ناجائز تجاوزات میں بدلتے دیکھا تو وہاں رُکنے کو دِل نہ چاہا۔مَیں اپنی جہاں گرد آنکھوں کے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ سرگودھا اس وقت پنجاب میں گندگی کے ڈھیروں اور ناجائز تجاوزات کے حوالے سے آگے ہے۔ نہ جانے کہاں ہے مقامی حکومت اور اس کی مقامی قیادت، جس کو اس شہر نے پالا اور کروڑوں نہیں،اربوں پتی بنا ڈالا۔ سرگودھا کی بلدیاتی قیادت کروڑ پتیوں پر مشتمل ہے، مگر شہر جو کبھی پنجاب کا خوبصورت شہر تھا، اب گندگی کے ڈھیروں اور ناجائز تجاوزات کا منظر ہے اور کچھ نہیں۔شرم آنی چاہئے،شہر کی اس بلدیاتی قیادت کو جو اپنی پارٹی کے قائد کے ساتھ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی تصویر لگاتی ہے اور شہر کی گلیاں گندگی کی پہاڑیوں اور ناجائز تجاوزات میں بدل گئیں۔
اب کہاں وہ سرگودھا!
اب کہاں بابے گودھے کی قبر اور اس کی بستی!“