مقابلے سے ایک دن پہلے غیر ملکی پہلوانوں کا ٹولا آن پہنچتا، یہ کھیل اتنا مقبول ہو ا کہ ایک دفعہ صدر مملکت ایوب خان بھی دیکھنے آئے تھے 

مقابلے سے ایک دن پہلے غیر ملکی پہلوانوں کا ٹولا آن پہنچتا، یہ کھیل اتنا مقبول ...
مقابلے سے ایک دن پہلے غیر ملکی پہلوانوں کا ٹولا آن پہنچتا، یہ کھیل اتنا مقبول ہو ا کہ ایک دفعہ صدر مملکت ایوب خان بھی دیکھنے آئے تھے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:154
 مغرب سے متاثر ہو کر کھیلی جانے والی ان فری اسٹائل کشتیوں کے لیے اکھاڑا بھی خاص ہی ہوتا تھا۔ یہ مٹی کی بجائے ایک قدرے بلند چوبی پلیٹ فارم پر تیار کیا جاتا جس پرسخت گدے بچھا کر چاروں طرف مضبوط رسے لگا دیئے جاتے تھے۔مہنگے ٹکٹوں والے تماشائیوں کو اکھاڑے کے نزدیک کرسیوں پر بٹھایا جاتا، باقی لوگ دور کھڑے ہو کر یہ دنگل دیکھتے تھے۔ یہ کھیل اتنا مقبول ہو گیا تھا کہ ایک دفعہ صدر مملکت ایوب خان بھی اس کو دیکھنے کے لیے آئے تھے۔ 
مقابلے سے ایک دن پہلے غیر ملکی پہلوانوں کا ٹولا بھی آن پہنچتا۔ ان کی خاص طور پر بڑے اہتمام سے رو نمائی ہوتی تھی، جس میں وہ چیختے چنگھاڑتے آتے اوربھولو برادران کو للکارتے اور انہیں سبق سکھانے کے بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے۔
مقابلہ رات 8 بجے شروع ہوتا تھا۔ تب تک اسٹیڈیم کھچا کھچ بھر جاتا تھا۔ پھر سوائے اکھاڑے کے وہاں کی ساری روشنیاں گل کردی جاتیں۔پہلے درجہ سوئم کے مقامی پہلوانوں کے آپس میں جوڑ پڑتے، اس کے بعد دوسرے درجے کے غیر ملکی پہلوان آپس میں لڑ پڑتے۔ آخر میں بڑا اور اصلی مقابلہ شروع ہوتا جو عموماً بھولو برادران میں سے کسی ایک یعنی اسلم، اعظم، اکرم یا گوگا کو لڑنا ہوتا تھا۔دونوں پہلوان دھم کرکے اکھاڑے میں آجاتے۔
 ماحول کو گرمانے کی خاطردنگل کے شروع ہی میں غیر ملکی پہلوان دو چار فلائنگ ککس لگا کر اور بازو مروڑ کربھولو برادر کی چیخیں نکلواتا اور پھر وہ ایسا ہی کرکے اس کا بدلہ لے لیتا تھا۔ یہ مقابلہ کافی دیر تک چلتا رہتا اور دونوں ایک دوسرے کو خوب ضربیں لگاتے، اٹھا اٹھا کر پٹختے، ہاتھ پیر مروڑتے اور منھ پر مکے جڑتے۔پھر اچانک کسی راؤنڈ میں وہ گورا پہلوان اپنے دیسی پہلوان کی کسی فلائنگ کک یا داؤ پیچ کا شکار ہوکر نیچے گرتا اوراس وقت تک گرا ہی رہتا جب تک کہ ریفری 10تک گنتی گن کر جیتنے والے پہلوان کا ہاتھ اٹھاکر اس کی جیت اور گورے پہلوان کی شکست کا اعلان نہ کر دیتا تھا۔
 پھر دونوں پہلوان اٹھ کر گلے ملتے۔ رسمی طور پر گورے انگریزی میں اور اپنے پہلوان پنجابی میں ایک دوسرے کی طاقت کا اعتراف کرتے۔ تماشائی اپنے پہلوان کی جیت پر دل کھول کر خوشی کا اظہار کرتے اور اسٹیڈیم نعروں سے گونج اٹھتا تھا۔ ایک بار پھر ڈھول کی تھاپ پر جیت کا رقص کیا جاتا۔اگلے دن اخباروں میں اس غیر ملکی پہلوان کی پٹائی اور اپنے پہلوانوں کی جیت کے قصے بڑی سرخیوں میں تصویروں کے ساتھ چھپ جاتے۔ 
اس ”شرم ناک شکست“ کے بعد غیر ملکی پہلوان پس منظر میں چلے جاتے اورکراچی کے ہی کسی ہوٹل میں چھپ کر بیٹھے رہتے اور خوب عیاشیاں کرتے۔ کچھ ہفتوں بعد ایک بار پھر بڑے مقابلے کا اعلان ہو جاتا اور انہی گھسے پٹے چیمپئن پہلوانوں کے ساتھ ایک بار پھر سے جوڑ پڑ جاتے۔
بہت بعدمیں پتہ چلا کہ یہ سب کچھ ملی بھگت سے ہوتا تھا۔پہلے سے اس بات کا فیصلہ کر لیا جاتا تھا کہ کون کتنے پیسے لے گا اور کون ”ایک زبردست دنگل“ کے بعد چت ہو جائے گا۔ گویا سارا پروگرام پہلے ہی سے طے شدہ ہوتا تھا۔پھرآہستہ آہستہ لوگوں کی اس کھیل میں دلچسپی کم ہوتی گئی اور اس بات کو محسوس کرکے بھولوبرادران بوریا بستر اٹھا کر بجھے دل کے ساتھ لاہور واپس لوٹ گئے اور یہاں کے اکھاڑے ویران ہوگئے۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -