مثبت سوچ اپنائیں
ہم پر جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے ہم واویلا کرنا شروع کر دیتے ہیں کے میں ہی کیوں why me میرے ساتھ ہی پتا نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے اور کبھی شیطان ہمیں اتنا بہکا دیتا ہے یہ تک کہہ دیتے ہیں کے شاید میں اللہ کو پسند ہی نہیں ہوں۔ لیکن کبھی گہرائی میں جانے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ ہو سکتا ہے یہ مجھ پہ کوئی آزمائش ہو اس دنیا میں انسان تو بہت ہیں لیکن چنا اسے ہی جاتا ہے جو خاص ہو ہم اکثر رہنمائی کی تلاش میں بھٹکنے ہیں کے کوئی آئے گا اور ہماری انگلی پکڑ کے جنت تک لے جائے گا لیکن یہ ناممکن ہے لیکن اگر لکن سچی ہو تو ایسے معجزے بھی ہوتے ہیں اور سب سے بڑا معجزہ محبت ہی تو ہے جو انسان کو صنم سے صمد تک لے جاتی ہے۔
میرا ماننا ہے Track پہ آنے کے لیے ڈی ٹریک ہونا پڑتا ہے صراط مستقیم تک پہچنے کے لیے بھٹکنا لازمی ہے جب تک بھٹکے گے نہیں صراط مستقیم کی اہمیت کا پتا نہیں چلے گا اور میں اکثر اس فارمولے پہ عمل کرتی ہوں تھوڑا سا اپنے لیول سے نیچے آتی ہوں۔ لوگوں کو دیکھتی ہوں پرکھتی ہوں نقصان تو میرا ہوتا ہے لیکن ایک سبق حاصل ہوتا ہے۔ ہر ایک کا اپنا معیار ہے ہم کسی کے معیار پہ پورا نہیں اتر سکتے۔ میں ہمشہ کہتی ہوں انسان جس چیز کی طلب رکھے گا اس کو وہی ملے گا جسے تلاش کرو گے اسے ہی پاؤ گے باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔
لیکن کبھی میرے ذہین میں یہ سوال آتا ہے کے کوئی میرے جیسا بھی تو ہو گا جسے رہنما کی تلاش ہوگی جو میری طرح ابنارمل ہو گا۔ ہمیں اپنے احساسات پہ نہیں دماغ پر قابو رکھنا ہو گا اسے اتنا مضبوط بنانا ہوگا کے کوئی اسے کنٹرول نہ کر سکے احساسات اور جذبات بدل سکتے ہیں اگر آپکا دماغ آپ کے کنڑول میں ہوگا لیکن موجودہ دور کا انسان مادہ پرست ہے عجیب خطبی قسم کے لوگ ہیں۔ باہر سے آزاد اندر سے قید ہوتے ہیں جتنا بھی پھڑ پھڑا لے آزاد نہیں ہو سکتے ہمیں اندھیروں میں چھوڑ دیا جائے تو اجالوں کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اور اگر اجالوں میں چھوڑ دیا جائے تو اندھیرے کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ ہمارا اندر بھی ہمارا نہیں ہوتا کیونکہ اندر سے ہمیں قید کر دیا گیا ہے۔
آج ہمارا ایمان بہت کمزور ہے ہم جلد ہی demotivate ہو جاتے ہیں کبھی خدا سے نور مانگتے ہیں تو کبھی الگ سوچ اپنا لیتے ہیں ہماری زندگی میں ہر کام ہر چیز کا سبب بنتا ہے اگر کوئی ہماری زندگی میں آتا ہے تو یہ بھی سبب ہے ایسا ہی ایک سبب میری زندگی میں بھی بنا لوگ کہتے ہیں معجزے نہیں ہوتے ہا بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن میں کیتی ہوں معجزے ہوتے ہیں جو میری زندگی میں بھی ہوا۔
چند روز پہلے میری زندگی میں ایک رحم دل شخصیت آئی جنہوں نے میری آنکھوں کا لیزر کروایا میں financially مضبوط نہیں ہوں نہ ہی یہ آپریٹ کروا سکتی تھی انہوں نے میری آنکھوں کو نور بخشا اور یقین جانیے ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو آپکے ساتھ بھلائی کریں بغیر کسے مفاد کے میں شکر گزار ہوں اس ذات کی جس نے میرے لئے ایسا وسیلہ بنایا اور میں شکر گزار اور دعا گو ہوں سر سلیم کے لیے جن کی بدولت آج میں دیکھ سکتی ہوں خدا انکو اپنی پناہ میں رکھے سلامت رکھے۔
اس PRK کے بعد میں نے خدا کی نعمتوں کی قدر جانی کے ہمارے لئے ہماری آنکھیں کیا ہے اور جس کے پاس خدا کی دی گئی جسمانی نعمتیں ہیں وہ شکر کریے کیونکہ وہ اس دنیا کا امیر ترین انسان ہیں۔ آپریشن کے بعد میں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا ہے محسوس کیا ہے کے کوئی ان دیکھی طاقت مجھے اپنی اور کھینچ رہی ہے اور میں تنہا ہوں کوئی میرے ساتھ موجود نہیں ہے میرا جسم پیسنے میں شرابور ہے تب میرا ہر طرح سے فرار کا راستہ بند ہو گیا اور میرے دماغ میں بس ایک چیز گردش کر رہی تھی کے ابھی تو میرے پاس کوئی اعمال نہیں ہے۔ میں کیا جواب دوں گی اس رب کو میں نے ایک موقع مانگا کے یا اللہ مجھے ایک موقع دے دے میں توبہ کرتی ہوں اور یقین جانیے اگر موت ایسی ہوتی ہے تو بہت بھیانک ہے لیکن جب میرا شعور بیدار ہوا میں زندہ تھی اور میں شوکڈ تھی میں اس ٹراما دو ہفتے رہی اور مجھے لگتا یہ معجزہ ہے۔
لیزر سرجری کے بعد میں اپنے گھر والوں پہ depend کرتی تھی دونوں آنکھیں میری بند تھی میں پانی تک کی محتاج تھی اور اس Time period میں مجھے میرے گھر والوں کے علاؤہ جو حوصلہ دینے والی شخصیت تھی وہ ڈاکٹر حیدر تھے جن سے میں inspired ہوئی ڈاکٹرز تو بہت ہوتے ہیں لیکن اپنے مریض کو صبر کی تلقین کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ انہوں نے امید دلائی کے تم ٹھیک ہو جاؤ گی جب مجھے لگتا تھا میں کبھی دیکھ نہیں سکوں گی ان کے الفاظ آج بھی مجھے یاد ہیں اور آخری سانس تک یاد رہے گئے حنا تم تو بہت genius ہو صبر کرو نا ٹھیک ہو جاؤ گی وقت لگے گا اور یہ ایسے الفاظ ہیں کے اگر انہیں کوئی سمجھ لے تو کبھی گلے شکوے نہ کرے نہ اللہ سے نہ لوگوں سے؛ ڈاکٹر حیدر کے الفاظ میں ایک طلسم تھا جس کی لپیٹ میں میں ہمشہ رہوں گی میں شکر گزار ہوں ڈاکٹر حیدر کی اور دعاگو ہوں کے ہمشہ سلامت رہے اور سچ ہی تو کہا تھا ڈاکٹر حیدر نے کے چیزوں کو سیٹ ہونے میں وقت لگتا ہے۔ اس لیے صبر کا دامن کبھی نہ چھوڑیں۔ اور ہمشہ الفاظ کا انتخاب اچھا کریں کیونکہ آپ کے الفاظ اگلے کی زندگی پہ ایک گہری چھاپ چھوڑ جاتے ہیں۔ الفاظ ٹھہر جاتے ہیں ان کا اثر کبھی زائل نہیں ہوتا سو مثبت سوچیں اور مثبت الفاظ کا انتخاب کریں۔
یہ جو کچھ آج ہم سوچ رہے ہیں، جن باتوں پر پریشان ہو رہے ہیں، جس کام کے ہونے کی اُمید نظر نہیں آ رہی، کچھ اُدھوری خواہشات پر اُداس ہیں، کسی بات پر غمزدہ ہیں۔۔۔یہ سب بدل جاۓ گا، یقین کریں۔ آج سے کچھ سال بعد یاں شاید کچھ ماہ بعد ہم جب پیچھے مڑ کر دیکھیں گے، ان باتوں کو یاد کریں گے تو خیال آۓ گا کہ وہ سب تو باتیں تو پریشان ہونے والی تھی ہی نہیں۔ ہر گزرتا دن میں بظاہر تو کچھ بدلتا نظر نہیں آتا مگر یہ جو وقت ہے ناں یہ بدل رہا ہوتا ہے، حالات بدل رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے دل اور دماغ کے درمیان جو جنگ جاری ہوتی وہ امن پا لیتی ہے۔ اور پھر آہستہ آہستہ ہر دن کے ساتھ وہ باتیں اپنی اہمیت گنوا دیتی ہیں۔
ﷲ کی رضا کے ساتھ دل راضی ہونے لگ جاتا ہے۔ اطمینان آنے لگتا ہے اور پھر ہم بس یہی سوچتے ہیں کہ “وہ بھی کوئی بات تھی پریشان ہونے والی”۔ وقت بہت کچھ بدل دیتا ہے، سب چیزیں ٹھیک ہو جاتی ہیں، سب معاملات سیٹ ہو جاتے ہیں۔
بس ہمیں چیزوں کو وقت دینے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ کہتے ہیں نہ کہ “Go with the flow” بس اسی لیے وقت کی روانی بہت سی چیزوں کا مرہم ہوتی ہے۔
اور مرہم جب زخموں پر لگ جاۓ تو ﷲ کی رضا سے آرام آ ہی جاتا ہے۔ اس لیے جب کبھی آپ پہ آزمائش آئے تو واویلا کرنے کی بجائے معجزے کا انتظار کریں اور اس بات پر یقین رکھے کے وقت لگے گا اور سب ٹھیک ہو جائے گا اس لئے خود میں ٹھہراؤ پیدا کریں یقین جانیے ایسا کرنے سے زندگی آسان ہو جائے گی جب آپ اسکی رضا میں راضی ہوں گئے اور بے شک روح کا سکون دل کی خوشی سے بڑھ کے ہوتا ہے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.