ترکی اور اس کی فوج (آخری قسط)
اس سے پہلے کہ اس موضوع کی آخری قسط کی طرف بڑھا جائے، قارئین کی خدمت میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہم 500برس پہلے کے ”ترکی“ کی تاریخ کا مطالعہ کررہے ہیں۔ یہ وہ دور ہے کہ جب یورپ کا براعظم، ترکی اور ہندوستان کی طرح شہنشاہیت کے فوجی بوٹوں کے تلے کراہ رہا تھا۔ انقلابِ فرانس تقریباً 250سال بعد (1789ء میں) رونما ہوا جس سے یورپ کے سیاسی افق پر انقلابی تبدیلیوں کے آثار پیدا ہوئے۔ لیکن 1789ء میں ہندوستان میں ہنوز مغل خاندان حکمران تھا اور ترکی میں سلطنتِ عثمانیہ برسرِ اقتدار تھی۔
1526ء میں بابر نے ابراہیم لودھی کو پانی پت کی پہلی لڑائی میں شکست دی اور 1524ء میں ترکی میں سلطان سلیمان کے زمانے میں ینی چری (ترکی کی نئی فوج) نے عَلمِ بغاوت بلند کیا۔ لیکن ہمارے ہمسائے ہندوستان میں، مغل خاندان میں کسی سیاسی یا عسکری تنظیم نے بغاوت کا راستہ اختیار نہ کیا۔ سکھ دور بہت بعد میں شروع ہوا۔ کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ جب ترکی اور یورپ کے بیشتر ممالک میں جمہوری اقدار کو فروغ حاصل ہو رہا تھا تو برصغیر میں ہنوز سیاسی افق پر تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ مغل خاندان کا خاتمہ انگریزوں نے آکر کیا۔ کسی سکھ، جاٹ یا مسلمان دلا بھٹی کو یہ توفیق نہ مل سکی کہ وہ یورپی اور ترک اقوام کی پیروی کرتے…… 1947ء میں جو پاکستان ہمیں ملا، وہ توانگریزوں کی عطا تھی۔ انگریز نے مغلوں سے لڑائی کرکے دہلی اور باقی برصغیر پرقبضہ کیا تھا لیکن ہم مسلمانوں (یا ہندوؤں) نے کون سی لڑائی میں برطانویوں کو شکست دی؟ آج کا پاکستان ہنوز اسی کشمکش میں گرفتار ہے کہ جوہری ہتھیاروں کا حامل ہونے کے باوجود اس کے عوام جوہری دور میں نہیں، تاریک دور میں رہ رہے ہیں جہاں مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کا دور دورہ ہے۔
یہ داستان بہت دردناک ہے لیکن
لوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر کیا کیجئے
آیئے ترک قوم کو آج سے 500برس پہلے کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ شاید اس میں ہماری بھی کوئی پرچھائیں، نظر آ سکے…… ہم ینی چری کا ذکر کررہے تھے۔ وہیں سے شروع کرتے ہیں:
1524ء میں سلطان سلیمان کی مرکز سے غیرحاضری کی وجہ سے بعض لوگوں کے اکسانے پر ینی چری نے استنبول میں ایک بار پھر فتنہ و فساد کا بازار گرم کیا اور آبادیوں اور مال و دولت کولوٹا۔ سلطان سلیمان نے نہایت ہی سختی سے اس بغاوت کو دبا دیا۔
دراصل ینی چری کا نظام مراد ثالث کے دور ہی سے خراب ہونا شروع ہو گیا تھا۔شادی شدہ ینی چری کی تعداد بڑھنے لگی تھی اور وہ زیادہ تر اپنے گھروں میں رہنے لگے تھے۔ اس کے علاوہ سلطان نے باہر کے لوگوں کو بھی ینی چری بنا دیا جو قانون کے خلاف تھا۔ بعض افسران انہیں رشوتیں دیتے اور ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے تھے۔ سب سے اہم سبب سلطان کی نالائقی تھی۔ یہی نہیں بلکہ خودینی چری کے مختلف گروہوں میں جنگیں ہوتی تھیں۔ مثلا1772ء میں استنبول میں مختلف گروپوں میں تین دن اور تین رات لگاتار جنگ ہوئی جس میں توپوں اور بندوقوں کا باقاعدہ استعمال کیا گیا۔ یہی نہیں ان کی پھوٹ اور بغاوتوں کے باعث بعض اوقات عثمانی فوج کو محاصرہ ختم کرکے واپس آنا پڑا۔ بعض اہم پسپائیوں میں بھی ینی چری کا ہاتھ تھا۔ انہوں نے 1622ء میں سلطان عثمان ثانی کو گرفتار کرکے اپنے کمروں میں بند رکھا اور بعد میں گلا گھونٹ کر مار ڈالا۔ اس واقعہ سے عام مسلمانوں میں ینی چری کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہو گئے۔ اسی طرح سلطان، عوام الناس اور ینی چری کے مابین مستقل دشمنی پیدا ہو گئی۔
آخری ضرب
یہ لوگ جنگی اصلاحات کے بھی خلاف تھے اور سمجھتے تھے کہ اس طرح ان کی اہمیت کم ہو جائے گی اور ایک نئی قسم کی فوج وجود میں آ جائے گی۔ اس لئے انہوں نے سلطان محمود ثانی (1808ء میں سلطان ہوا) کی اصلاحات کی مخالفت کی۔ انہوں نے صدر اعظم کو قتل کیا اور بغاوت کی۔ عوام، فوج اور علماء نے سلطان محمود ثانی کا ساتھ اس شرط پر دیا کہ ینی چری فوج کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا جائے گا۔ ینی چری نے اپنی دیگیں الٹ دیں جو بغاوت کی علامت تھی۔ ادھر سلطان نے بھی منادی کرا دی کہ مسلمانوں کو سنجاق شیر (آنحضرتﷺ کا پرچم جسے ترک حجاز و مصر سے لائے تھے) کے نیچے جمع ہو کر عثمانی سلطنت اور اسلام کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سلطان نے آنحضرتﷺ کا پرچم محل سے نکالا۔ شیخ الاسلام نے دعا کی اور عوام اور ترک فوجی سلطان کے گرد جمع ہو گئے۔ ینی چری نے پرچم پر قبضہ کرنا چاہا لیکن ناکام ہو گئے۔ خوفناک جنگ ہوئی۔ ینی چری کو گھیر لیا گیا اور چن چن کر مار ڈالا گیا۔ مشہور فوجی افسر قارا ابراہیم آغا نے ینی چری کے گروہوں کو توپوں پر رکھ لیا۔ ان کی رہائش گاہ کا محاصرہ کر لیا گیا۔ چند ینی چری بھاگ کر یورپ پہنچے اور باقی کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا گیا۔ یہ واقعہ 1826ء میں پیش آیا…… اسے ترکی کی تاریخ میں واقعہ خیر یہ کہتے ہیں۔ تمام ینی چری کو قتل کرانے کے بعد سلطان نے ینی چری نظام کے خاتمے کا اعلان کیا اور ترک فوج کو مضبوط بنایا۔ یہی نہیں بلکہ بکتاشی سلسلہ کے مراکز بھی بند کر دیئے گئے کیونکہ ینی چری میں اس سلسلے کا کافی اثر تھا اور اس کی پرانی شکل بھی اب تبدیل ہو گئی تھی۔
بطور خلاصہ کہا جا سکتا ہے کہ ینی چری ایک ایسی عسکری تنظیم تھی جو عثمانی ترکوں کے زریں دور میں بہت اہمیت کی حامل رہی۔ یہ سلاطین ترکی کے باڈی گارڈ کے طور پر وجود میں لائی گئی۔ اسے مشہور ترک سلطان اورخان کے عہد میں 1330ء میں قائم کیا گیا اور اس کا خاتمہ 500سال بعد سلطان محمود ثانی کے عہد میں 1826ء میں ہوا۔ ینی چری کی امتیازی خصوصیات میں سلطان سے وفاداری، دلیرانہ عسکری کارکردگی اور اخلاقی بلندی شامل تھیں۔ بعد میں جب ان خصوصیات کو ینی چری نے فراموش کر دیا تو ان میں پھوٹ پڑ گئی۔ان کاحد سے بڑھا ہوا تکبر، سلطان سے ان کی قربت، اس قربت کے سبب ”بادشاہ گری“ کی کوششیں، سپاہیانہ اوصاف کا ختم ہو جانا اور سازشی عادات کا پیدا ہو جانا ان کے زوال کا باعث ہوا۔ ان کی تعداد کے بارے میں مختلف اعداد و شمار عسکری تواریخ میں ملتے ہیں۔ سٹینلے لین پول نے ان کی تعداد کم سے کم 1000اور زیادہ سے زیادہ 40000بیان کی ہے۔ دو اور مشہور و ممتاز مورخین گبن اور ایورسلے نے بھی ان کی تعداد تقریباً یہی بیان کی ہے۔ البتہ بعض جدید تحقیق نگاروں نے جن میں امریکی مصنفین پیش پیش ہیں، ینی چری کی زیادہ سے زیادہ تعداد 20000لکھی ہے۔ دیکھنے میں تو یہ تعداد کچھ اتنی زیادہ نہ تھی لیکن ترک فتوحات کا جو سیلاب تین صدیوں (چودھویں، پندرھویں اور سولھویں صدی عیسوی) تک یورپ کے طول و عرض پر محیط رہا اس میں ینی چری کا عمل دخل ان کی تعداد کے تناسب سے کہیں بڑھ کر ہے۔
ممکن ہے بعض قارئین کو ”ترک انفنٹری“ کے باب میں ینی چری کی یہ تفصیلات بلاضرورت نظر آئیں۔ لیکن جب تک ترک فوج کے اس بازوئے شمشیرزن کا تفصیلی تذکرہ نہ کیا جائے، ترک فوج یا ترک انفنٹری کی عسکری قوت اور سطوت و شوکت کے عروج و زوال کی داستان مکمل نہیں ہوتی۔ ترک فوج نے خلافت کا دور بھی دیکھا، پہلی جنگ عظیم میں گیلی پولی کے محاذ پر وہ داد شجاعت دی کہ اہل یورپ ترکی کو یورپ کا ”مرد بیمار“ کہنے سے احتراز کرنے لگے۔پھر 1904-14ء میں ترکی میں جو انقلاب آیا اور جسے ”نوجوان افسروں کے انقلاب“ کا نام دیا گیا اس میں بھی ترک فوج نے بالعموم اور ترک انفنٹری نے بالخصوص بڑا اہم کردار ادا کیا۔ یہ ایک وسیع موضوع ہے جس کی تفصیل یہاں درج کرنے کا محل نہیں۔(ختم شد)