نجی ٹی وی چینل کی نیوز اینکر کے ’ باریک ‘ لباس نے پاکستانی سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کر دیا 

نجی ٹی وی چینل کی نیوز اینکر کے ’ باریک ‘ لباس نے پاکستانی سوشل میڈیا پر ...
نجی ٹی وی چینل کی نیوز اینکر کے ’ باریک ‘ لباس نے پاکستانی سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کر دیا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن ) سوشل میڈیا صارفین نے چند روز قبل ٹویٹر پر اداکاری ہانیہ عامر کی منگنی کروا دی تھی اور جب انہو ں نے اس کا ٹرینڈ چلتے ہوئے دیکھا وہ حیرت زدہ رہ گئیں اور انہوں نے ویڈیو پیغام جاری کرکے تردید کی اور ساتھ مزاحیہ انداز میں گفتگو بھی کی تاہم گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پر ایک نجی ٹی وی چینل کی نیوز اینکر کی تصویر وائرل ہو رہی ہے جس نے ہنگامہ برپا کر رکھا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی کی نیوز اینکر نے خبر نامہ دیتے ہوئے ہلکے غلابی رنگ کا نہایت ہی بے باک لباس زیب تن کیا ، خاتون کی قمیض اتنی باریک تھی کہ ان کے نیچے پہنے گئے مخصوص کپڑے بھی دکھائی دے رہے تھے ، جیسے ہی منظر لوگوں نے دیکھا تو سوشل میڈیا پر ہنگامہ سا برپا ہو گیا اور لوگوں نے غم و غصے کے اظہار کے ساتھ مشور بھی دینے شروع کر دیئے ۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ موٹروے کیس میں بھی سی سی پی او لاہور نے ابتدائی بیان میں زیادتی کا ذمہ دار خاتون کو ہی قرار دیا تھا کہ وہ رات کو اتنی دیر سے کیوں نکلیں اور اگر جانا ہی تھا تو جی ٹی روڈ استعمال کرتی جہاں پر رش ہوتاہے، ان کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین اور دیگر سیاستدانوں کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا  تاہم بعدازاں انہوں نے اپنے بیان پر معافی بھی مانگی ۔
لیکن اب سوشل میڈیا پر آنے والی نیوز اینکر کی تصویر نے سوشل میڈیا صارفین کو ایک نئی بحث میں ڈال دیاہے ۔ شیراز نامی صارف نے خاتون اینکر کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ” جب ٹی وی چینلز پر اس طرح کے کپڑوں میں پروگرام ہوں گے تو پھر جنسی تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگا ، عمران خان خدارا میڈیا کی بے حیائی پر ہاتھ ڈالیں ، جنسی تشدد اور ذہنی خرابی کا اصل باعث بے حیائی اور فحاشی ہے ۔“


شیراز نامی ٹویٹر صارف کے اس ٹویٹر پر کئی اور سوشل میڈیا صارفین بھڑک اٹھے اور انہوں نے کھری کھری سنانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ، شاہد اقبال نامی صارف نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ” یہ معاشرے کی گھٹن زدہ پرورش کا مسئلہ ہے ، اگر یہ ہی مسئلہ ہوتا تو مغر ممالک میں پاکستانی اور سعودی عر سے زیادہ ریپ ہوتے مگر حقائق الٹ ہیں ، پاکستان روزانہ 10 ، سعودی عرب 12 اور پورے یورپ میں 6 ریپ کیسز روزانہ رپورٹ ہوتے ہیں ۔“

عافیہ اسلم نامی خاتون نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ” مدرسوں میں بچے کس قسم کے کپڑے پہنتے ہیں کہ ان کا ریپ ہوتا ہے ؟“


عباس نظیر نامی صارف نے کہا کہ ” خدان ان گندی نظروں والوں کو ہدایت دے کہ اپنے کام سے کام رکھیں ۔


لائبہ نے کہا کہ ان کپڑوں میں کیا غلط ہے ؟ اپنی سوچ کو تبدیل کریں ۔


ٹویٹر صارف موسیٰ وڑائچ نامی صارف نے بھی اس معاملے پر اپنا موقف دیتے ہوئے کہاکہ ” میرے نزدیک یہ لباس اخلاقیات سے مخالف ہے ، میں اس اینکر اور ٹی وی چینل کے خلاف اپنی شکایت درج کروا رہاہوں ، ایسا کچھ بھی ملکی ٹی وی چینلز پر نہیں دکھایا جانا چاہیے ۔“

مزید :

ڈیلی بائیٹس -