امراض قلب کا عالمی دن
پاکستان سمیت دنیا بھر میں اتوار کو امراض قلب کا عالمی دن (ورلڈ ہارٹ ڈے) منایا گیا، یہ دن عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) ورلڈ ہیلتھ فیڈریشن (ڈبلیو ایچ ایف) اور یونیسکو کے باہمی اشتراک سے ہر سال عالمی سطح پر منایا جاتا ہے۔ آج جب ٹیکنالوجی نے تو بہت ترقی کر لی ہے لیکن صحت کے بارے میں لوگ ابھی بھی بہت سی باتوں سے انجان ہیں خاص طور پر دل کی صحت کے حوالے سے محدود معلومات ہی دستیاب ہیں،ملکی سطح پر بنائی گئی پالیسیاں ناکافی یا ناقص ہیں۔ عالمی یومِ قلب منانے کے مقاصد میں دِل کی بڑھتی ہوئی بیماریوں سے بچنے کے لئے لوگوں میں شعور اجاگر کرنا،احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا، باقاعدگی سے دل کے چیک اپ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے، موزوں طرز زندگی اور صحت مند کھانے کی عادت کو فروغ دینا شامل ہے۔ اِس سال ورلڈ ہارٹ ڈے کا تھیم ”یوز ہارٹ فار ایکشن“ تھا تاکہ نہ صرف انفرادی سطح پر دِل کی صحت کے بارے میں آگاہی دی جا سکے بلکہ عالمی رہنماؤں کو یہ باور کرایا جائے کہ دِل سے متعلق بیماریوں کو سنجیدگی سے لیں اور اس سلسلے میں ایک عالمی پلیٹ فارم کا قیام عمل میں لانے کے لئے کوشش کریں۔
ڈبلیو ایچ ایف نے پہلی مرتبہ 24 سال قبل 24 ستمبر 2000ء کو ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے دل کی بیماری سے متعلق آگاہی پیدا کرنے اور بین الاقوامی کارروائی کو متحرک کرنے کے لیے ورلڈ ہارٹ ڈے منایا تھا، اس کے بعد سے ہر سال ستمبر کی آخری اتوار کو یہ دن منایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہونے والے ڈبلیو ایچ ایف کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال دو کروڑ سے زائد افراد دِل کی مختلف بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، اِن میں سے 85 فیصد ہارٹ اٹیک اور سٹروک جبکہ 15 فیصد دِل کی دیگر بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق کارڈیو ویسکولر (دِل اور اْس کی شریانوں) بیماریاں عالمی سطح پر اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔پاکستان دِل کی تکالیف سے اموات کے حوالے سے دنیا میں 30ویں نمبر پر ہے، عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، یہاں امراضِ قلب میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے،اس کے مطابق یہاں دِل کی بیماریوں میں مبتلا چارلاکھ افراد ہر سال اپنی جان گنوا دیتے ہیں جو مختلف بیماریوں کے باعث اِس دنیا سے رخصت ہونے والوں کا 29 فیصد ہیں۔ قومی ادارہ برائے صحت (این آئی ایچ) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر ایک گھنٹے میں 50 سے زائد افراد دل کی بیماریوں سے مر جاتے ہیں جبکہ آج سے پانچ سال قبل ہر گھنٹے میں مرنے والوں کی تعداد صرف 12 تھی۔ امراض قلب سے مرنے والوں میں 50 فیصد افراد کی عمریں 40 سے 50 سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ 30 سے 40 سال کی عمر کے افراد میں دل کے دورے اور امراض قلب کے سبب اموات میں تشویشناک اضافہ ہو چکا ہے،میڈیا رپورٹس کے مطابق روزانہ 30 سال سے کم عمر کئی افراد دل کا دورہ پڑنے پر ہسپتال لائے جاتے ہیں۔ جوان اور نواجوان تو ایک طرف، اِس بیماری سے تو اب پیدا ہونے والے بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ کراچی کے آغا خان ہسپتال کے مطابق صرف وہاں سالانہ 60 ہزار ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جو دِل کے عارضے میں مبتلا ہوتے ہیں،ان میں سے 60 فیصد بچے غیر معیاری علاج کی وجہ سے ابتدائی سالوں میں ہی وفات پا جاتے ہیں۔ پنجاب میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے، وائس چانسلر یونیورسٹی آف چائلڈ ہیلتھ کے مطابق پنجاب میں پیدا ہونے والا 100 میں سے ایک بچہ دِل کے مرض میں مبتلا ہوتا ہے،اِس میں سے سالانہ اندازً پانچ ہزار بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔اِس وقت بھی 12ہزار سے زائد بچے علاج کے منتظر ہیں، اسی وجہ سے بچوں کے لیے ایک ہارٹ سرجری پروگرام کا اعلان کیا گیا ہے جس کے نتائج چند ماہ بعد ہی سامنے آئیں گے۔
پاکستان میں بیماری کے بڑھنے کی بڑی وجوہات میں غیر صحت مند طرز زندگی، کھانے کی غیر معیاری اشیا کا استعمال، مضر صحت کھانے اور ورزش کا نہ کرنا شامل ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق یہاں 76 فیصد خواتین بمشکل پھلوں کا استعمال کرتی ہیں، 91 فیصد خواتین کسی بھی طرح کی جسمانی ورزش نہیں کرتیں، تقریباً 30 فیصد مرد اور 40 فیصد خواتین موٹاپے کا شکار ہیں۔ امریکہ میں کی گئی ایک حالیہ ریسرچ اسٹڈی کے نتائج میں محققین نے کہا کہ اگربالغان روزانہ چھ سے نو ہزار قدم چلیں تو اْن میں دل کی بیماری کا خطرہ 40 سے 50 فیصد تک کم ہو جاتاہے۔اس کے علاوہ ایک اور بڑی وجہ تمباکو نوشی بھی ہے، پاکستان میں شہری آبادی کا 11.84 فیصد اور دیہی آبادی کا 19.7 فیصد طبقہ تمباکو نوشی کی لت میں مبتلا ہے۔
اِس سال عالمی یوم امراض قلب کی مناسبت سے ملک بھر میں سرکاری، غیر سرکاری، نجی اور طبی اداروں کے زیر اہتمام منعقدہ تقریبات میں امراض قلب، علاج اور ان سے بچاؤکے حوالے سے بات کی گئی لیکن حکومتی سطح پر اِسے کچھ خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ صدر مملکت، وزیرِاعظم، وفاقی وزرا، گورنروں، وزرا اعلیٰ اور صوبائی وزرا سمیت متعلقہ اعلیٰ حکام کی طرف سے کوئی خاص پیغامات جاری نہیں کئے گئے، کوئی اقدامات نظر نہیں آئے۔ ڈاکٹروں اور اْن کی تنظیموں نے اِس حوالے سے سیمینار اور واکس کا اہتمام کیا جس میں لوگوں کو بتایا گیا کہ تمباکو نوشی، مرغن غذائیں، موٹاپا اور ہائی بلڈپریشر امراضِ قلب کی بڑی وجوہات ہیں۔یہ بات درست ہے کہ ماڈرن زندگی نے جہاں انسانوں کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں وہاں بہت سے نئے مسائل نے بھی جنم لے لیا ہے، انسانوں کی پیدل چلنے کی صلاحیت کو کم کر دیا ہے، مرغن اور تلے ہوئے کھانوں کی طرف رجحان بڑھ گیا ہے، گھر کے کھانے کی بجائے بازاری کھانوں کو ترجیح دی جاتی ہے، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور آن لائن گیمز نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ متعلقہ حکام کو چاہئے کہ وہ روزانہ چہل قدمی اور ورزش کو معمول بنانے کے لیے قومی سطح پر مہم شروع کریں، ہر عمر کے افراد اپنی صحت کا خاص خیال رکھیں، اپنی عمر کے حساب سے اور ماہرین کی ہدایت کے مطابق کھانے پینے کا معمول ترتیب دیں، چہل قدمی اور ورزش کو زندگی کا لازم جزو بنا لیں۔یاد رکھیں کہ احتیاط علاج سے بہر حال بہتر ہے۔