گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 83
’’پختونستان‘‘ کے معنی ہیں وہ سرزمین جہاں کے لوگ پشتو بولتے ہیں۔ پشتو بولنے والوں کا علاقہ ڈیورنڈلائن کے دونوں طرف واقع ہے، ڈیورنڈلائن برطانوی ہندوستا ن اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد تھی جسے 1893ء میں قائم کیا گیا تھا، جو اب پاکستان اور افغانستان کی سرحد ہے۔ اس کی توثیق 1921ء کے معاہدہ راولپنڈی میں ہوئی تھی۔ پشتو بولنے والے 40 لاکھ باشندے، جنہیں پٹھان کہتے ہیں ہمارے قبائلی علاقوں میں آباد ہیں اور مزید 60 لاکھ پٹھان ہمارے اضلاع کی آبادیوں میں رہتے ہیں۔
افغانستان کی سرحد کی طرف قبائلی علاقہ میں بسنے والے پشتونوں کی تعداد ہمارے قبائلی باشندوں کی تعداد سے بہت کم ہے۔ افغانستان یہ دعویٰ کرتا آیا ہے کہ پشتو بولنے والے عوام افغانستان کا حصہ ہیں اور وہ اپنی بین الاقوامی سرحدوں میں دریائے سندھ کے ساحل تک توسیع کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ ہے وہ پراپیگنڈہ جسے پاکستان کا ایک عام آدمی ’’پختونستان‘‘ کے نام سے جانتا ہے، لیکن میں نے جب بھی سرکردہ افغان رہنماؤں سے ’’پختونستان‘‘ کے بارے میں بات چیت کی ہے، ان سے ہمیشہ یہی جواب سنا ہے کہ وہاں کا شاہی خاندان، پاکستان کی ایک انچ زمین پر بھی قبضہ جمانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ میرے اور شہزادہ نعیم خان کے درمیان جو بات چیت ہوئی تھی، اس کا لب لباب بھی یہی تھا۔ پھر یہ پختونستان کی بات کیوں کی جاتی ہے؟ امریکیوں کے خیال کے مطابق افغان رہنما صرف یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے اندر پشتو بولنے و الوں کا ایک صوبہ قائم ہوجائے لیکن مغربی پاکستان میں صوبوں کے ادغام سے پہلے ایک ایسا صوبہ فی الواقع موجود تھا۔ پھرُ اس وقت افغانستان اتنا زہریلا پراپیگنڈہ اتنی شدومد سے کیوں کررہا تھا؟
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 82 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایران کے حکمران اگر یہ دعویٰ کریں کہ افغانستان کی مشرقی سرحد پر واقع فارسی بولنے والے عوام کو ایران کے ساتھ الحاق کرلینا چاہیے تو کابل کو یہ بات کیسی لگے گی؟ نادر شاہ، شاہ ایران، افغانستان کا بھی بادشاہ تھا۔ وہ افغانستان آیا تو اس کے ایک سالار نے خیمہ میں اس کا سر قلم کردیا اور قندھار جاکر خود افغانستان کا بادشاہ بن بیٹھا۔ افغانستان اس وقت تک ایران کا محض ایک صوبہ تھا۔ 1747ء میں پہلی بار یہاں ایک الگ حکومت قائم ہوئی۔
روسی اگر یہ مطالبہ کریں کہ اوکسس دریا کا جنوبی علاقہ ان کے حوالے کردیا جائے، کیونکہ وہاں کے باشندے ملحقہ روسی علاقہ کے باشندوں کی طرح ترکی بولتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟ اور اگر ہم یہ مطالبہ کریں کہ پشتونوں کی بھاری اکثریت چونکہ پاکستان میں آباد ہے لہذا افغانستان کا پشتون علاقہ بھی ہمارے حوالے کردیا جائے تو کیسی رہے گی؟
یہ پختونستان کا پراپیگنڈہ خود افغانستان کے نقطۂ نظر سے بہت خطرناک ہے، کیونکہ اس استدلال کی رو سے اگر منطقی نتائج اخذ کئے جائیں تو افغانستان ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گااور کابل کے گرد چند ہزار مربع میل کی ایک چھوٹی سی ریاست میں سمٹ کر رہ جائے گا۔ افغانستان اگر پاکستان کی بین الاقوامی سرحد کا احترام نہیں کرتا تو سوال یہ ہے کہ روسی افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد کا احترام کیوں کریں۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں شمال اور شمال مغرب کے شہر جنیوا، سمر قند، بخارا اور متعدد دوسرے مقامات روس کا حصہ بن گئے، روس کے مقابلہ میں افغانسان کا وجود ایک چھوٹے سے قبائلی خان کی فرمانروائی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا تھا لیکن برطانیہ اپنی ہندوستان کی سلطنت کو بچانے کے لئے آگے بڑھا اور روس کو اس نے دھمکی دی کہ اگر افغانستان کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو جنگ چھڑ جائے گی، یہ برطانیہ تھا جس نے گزشتہ صدی کے اواخر میں روس کے ساتھ افغانستان کی سرحدین متعین کیں اور اس ملک کے وجود کا تحفظ کیا لیکن برطانیہ کے مفادات اب اس علاقہ میں نہیں رہے اس لئے روس نے اگر کبھی جنوب کی طرف توسیع کی خواہش کی تو افغانستان کو اپنی آزادی کی بقاء کے لئے کون امداد دے گا؟ کیا اقوام متحدہ کی انجمن چھوٹے ملکوں کو بچاسکتی ہے؟ میاں کہتا ہوں ’’نہیں بچاسکتی‘‘ بہرحال روس اور امریکہ کے درمیان اگر ایک بار مفاہمت ہوگئی تو ساری دنیا کو اپنا سیاسی طرز عمل بدلنا پڑے گا اور وہ تمام ملک جو ان دونوں ملکوں کی باہمی کشیدگی کی بنا پر خوش حال بننے کی کوشش کررہے ہیں، خود کو یکہ و تنہا محسوس کرنے لگیں گے، جب ہمیں آزادی نصیب ہوئی تو کابل کے حکمرانوں کو پاکستان کے خلاف پالیسی اختیار کرنے کی ترغیب کس نے دی؟ اس کا مجھے تھوڑا سا اندازہ ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ کابل کے حکمران بھی اب یہ محسوس کرتے ہوں گے کہ پاکستان سے عداوت برتنے کا مشورہ خود ان کے لئے سود مند نہیں۔
پشتو بولنے والے لوگوں کی دلی دوستی اور وفاداری کس کے ساتھ وابستہ ہے؟ جب 1929ء میں حبیب اللہ نامی لٹیروں کے ایک سردار نے، جو کسی بہشتی کا بیٹا (بچہ سقہ) تھا شاہ امان اللہ کو شکست دے دی اور شاہ نے افغانستان سے فرار اختیار کیا تو وہ ہمارے ہی سرحدی علاقے کے پختون تھے جنہوں نے کابل پر حملہ کرکے بچہ سقہ کو شکست دی تھی۔ امان اللہ کے جانشینوں کو باغی پختونوں، خاص طور پر غلزئی پٹھانوں کی شورش فرو کرنے میں دو سال لگے تھے۔
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
برطانیہ اور کابل کے رہنماؤں کے باہمی تعلقات ہندوستان کے تحفظ کے نقطہ نظر سے نہایت درجہ اہم تھے۔ یہی وجہ تھی کہ برطانیہ نے امیر حبیب اللہ کے ساتھ ایک معاہدہ کے تحت 1905ء سے 1919ء تک افغانستان کے خارجہ امور اپنے قبضہ میں رکھے تھے۔ امیر حبیب اللہ 1907ء میں ہندوستان آئے تھے۔ میری پہلی بیوی کے چچا نواب سرخدا بخش کابل میں ہندوستانی سفیر تھے اور انہی کی کوششوں سے سے امیر حبیب اللہ جو کابل کے دوسرے فرمان روا تھے، ہندوستان کے دورے پر آئے اور یہاں انہیں ہندوستانی فوج کی طاقت و شوکت کا اندازہ ہوا۔ اس کے بعد 1921ء میں امان اللہ کو آزاد کردیا گیا اور ایک لاکھ ساٹھ ہزار پاؤنڈ سالانہ کی امداد واپس لے لی گئی۔ ڈیورنڈ لائن 1893ء میں قائم ہوئی۔ یہ ہماری بین الاقوامی سرحد تھی۔ اس کی مزید توثیق 1921ء کے معاہدہ میں ہوئی۔ کابل کے حکمران کو 1919ء تک وہی حیثیت حاصل رہی جو ہندوستان کے دیسی حکمرانوں کی تھی اور وہ انہی کی طرح ہزہائی نس کے خطاب سے سرفراز ہوتا تھا۔ ہز میجسٹی کا خطاب 1921ء کی مکمل آزادی کے بعد ہی انہوں نے اختیار کیا۔ (جاری ہے )