عالمی ہفتہ برائے بین المذاہب ہم آہنگی 

عالمی ہفتہ برائے بین المذاہب ہم آہنگی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی ہفتہ برائے بین المذاہب ہم آہنگی کے موقع پر قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ حکومت رواداری اور باہمی احترام کے ماحول کو فروغ دینے کے لئے پُرعزم ہے، انتہاء پسندی اور تفرقہ انگیز بیان بازی پاکستان کے سماجی نظام کے لئے خطرہ ہیں، مذہبی سکالر، کمیونٹی رہنماء اور شہری معاشرے میں بھائی چارے کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی برادری کے ساتھ مل کر بین المذاہب ہم آہنگی کا ہفتہ منا رہا ہے جو کہ پوری دنیا میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان مکالمے، ہم آہنگی اور تعاون کو اُجاگر کرنے کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کا تصور بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے تمام مذاہب کے لئے ایک محفوظ ملک کے طور پر دیا تھا، ہمارا ملک ہر شہری کے عقیدے، وقار کے تحفظ اور مساوات کے فروغ کے آئینی حق پر قائم ہے، انصاف، رحم اور تمام مخلوق کا احترام دین ِ اسلام کی لازوال تعلیمات ہیں اور ہمارا دین اِس حوالے سے مثالی طرزِ عمل اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستانی شمولیت اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے والی پالیسیوں کے ذریعے اُن اقدار کی پاسداری پر یقین رکھتے ہیں، نفرت کے بیج بونے والوں کو بات چیت، خوف کی فضاء  پھیلانے والوں کو حوصلے اور تقسیم پیدا کرنے والوں کو متحد ہو کر جواب دیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اِس موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے مختلف مذاہب، ثقافتوں اور روایات کا حسین گلدستہ رہا ہے،پاکستان خصوصاً پنجاب میں ہر شہری کو برابری کے حقوق حاصل ہیں، تمام مذاہب محبت، اِمن اور رواداری کا درس دیتے ہیں جو حقیقی فلاحی معاشرے کی بنیاد ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اختلافات ضرور رکھیں لیکن دین کی تعلیم اور تہذیب کا دامن نہ چھوڑیں، عقائد کا احترام اور ہم آہنگی کو فروغ دینا ہی پائیدار امن و ترقی کی ضمانت ہے۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ پنجاب حکومت قائداعظمؒ کے افکار کی روشنی میں اقلیتوں کے تحفظ اور مساوی مواقع کی فراہمی کے لئے عملی اقدامات کر رہی ہے، مینارٹی کارڈ سے نادار اقلیتی بہن بھائیوں کو سہ ماہی مالی معاونت دی جا رہی ہے جبکہ اقلیتوں کی فلاح اور بہبود کے بجٹ کو خاطرخواہ حد تک بڑھایا گیا ہے، مندروں، گرجا گھروں اور دیگر عبادت گاہوں کی بحالی اور مرمت بھی کی جا رہی ہے، پنجاب حکومت اقلیتی برادری کے تہوار حکومتی سطح پر مناتی ہے، ان کے لئے تعلیم و روزگار کے مواقع میں اضافہ کیا جارہا ہے۔

یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہر سال فروری کے پہلے ہفتے (یکم تا 7 فروری) کو عالمی سطح پر مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لئے منایا جاتا ہے جس کے تحت ممبر ممالک قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمیناروں کا انعقاد کرتے ہیں۔اِس کا مقصد معاشروں میں بڑھتی مذہبی عدم مساوات، عدم رواداری، عدم برداشت، تشدد، نفرت اور تعصبات کا خاتمہ کر کے قبولیت، محبت، ہم آہنگی اور باہمی معاشرتی اقدار کو فروغ دینا ہے۔ ہر سال یہ ہفتہ منانے کا تصور اُردن کے شاہ عبداللہ دوئم نے ستمبر 2010ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا تھا جسے اقوامِ متحدہ نے محض ایک ماہ کے اندر اندر یعنی اکتوبر 2010ء میں متفقہ طور پر منظور کر لیا تھا۔ تاریخ دان سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر کے مذہبی رہنما پہلی بار 1893ء میں شکاگو میں ورلڈ پارلیمنٹ آف ریلیجنز میں اکٹھے ہوئے، دراصل وہیں بین المذاہب ہم آہنگی کی بنیاد ڈالی گئی۔

اقوام متحدہ کے مطابق ہم آہنگی کا مطلب یا مقصد عقیدے کی تبلیغ یا مذہب کی تبدیلی مذہب ہرگز نہیں ہے بلکہ سخت مذہبی موقف اور مفروضوں کے علاوہ مذہبی تعلیمات اور تصورات پر سوال، جواب اور مباحثے سے اجتناب ہے، اس کے بنیادی اصولوں میں  مذاہب کی مقدس ہستیوں، دستاویزات، تصورات اور تعلیمات کی تضحیک سے پرہیز، دیگر عقائد کو سمجھنا، اِن کا احترام اور اِنہیں قبول کرنا شامل ہے۔ ہفتہ برائے فروغِ مذہبی ہم آہنگی کے 2010ء میں آغاز سے قبل اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی اِس حوالے سے متعدد کانفرنسوں کا انعقاد کیا جن میں کئی دستاویزات پیش کی گئیں جبکہ بے شمار قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔ واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کے دستورالعمل کی شق نمبر 39  کے مطابق سلامتی کونسل پر دنیا میں اَمن و امان قائم کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اِسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہر اُس ملک میں دخل اندازی کرے جہاں اَمن اور امان کو تہہ و بالا کیا جا رہا ہو، اِس کا فیصلہ بھی سلامتی کونسل ہی کے پاس محفوظ ہے کہ وہ دخل اندازی میں طاقت کااستعمال کرے یا نہ کرے، بین المذاہب ہم آہنگی بین الاقوامی اَمن اور سلامتی کیلئے ضروری ہے اِس لیے اقوامِ متحدہ اِس میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے 2009ء میں مختلف ممالک میں بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے نمائندے مقررکئے  اور پھر اپریل 2010ء میں جنرل اسمبلی کی زیرِ صدارت ہونے والی ایک کا نفرنس کے اختتام پر سکالروں اورماہرین نے اقوام متحدہ میں بین المذاہب ہم آہنگی کونسل کے قیام کے لئے ایک قرارداد منظور کی جس کے بعد اکتوبر 2010ء میں مذہبی انتہاء پسندی سے پیدا شدہ مسائل کی صورتحال پر بحث کے لئے جنرل اسمبلی کا اجلاس ہوا۔اِس اجلاس میں کہا گیا کہ اقوامِ متحدہ ہر سال قراردادیں تو پاس کرتی ہے لیکن اِس پرعملدرآمد نہیں ہوتا،اِس کے بعد 2011ء میں مذہبی جارحیت اور انتہاء پسندی کے خلاف بین المذاہب ہم آہنگی کا ہفتہ منایا گیا جس کی سرپرستی اقوام متحدہ نے کی۔ مذہبی شدت پسندی سے پیداشدہ مسائل کے حل کے لئے تمام مذاہب کے رہنماؤں کوایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی زیر سرپرستی ایک باقاعدہ کونسل بنا دی گئی، اسی نے 18 فروری 2011 ء کو باقاعدہ طور پر فروری میں اس ہفتے کو منانے کا اعلان کیا۔ مذہبی ہم آہنگی کی نمائندگی کے لئے نارنجی یا اورنج رنگ کا انتخاب کیا جاتا ہے کیونکہ روایتی طور پر یہ رنگ خیالات کی آزادی، باہمی احترام کی حوصلہ افزائی، سماجی رابطہ کاری اور بامعنی گفتگو کو ظاہر کرتا ہے۔ 

المیہ یہ ہے کہ ہر سال ہفتہ برائے بین المذاہب ہم آہنگی منایا جاتا ہے لیکن اِس کے باوجود دنیا بھر میں مذہب کی بنیاد پرلوگوں کو قتل کیا جاتا ہے، نسل کشی کی جاتی ہے، جنگیں لڑی جاتی ہیں۔ کئی خطوں اور ممالک میں آج بھی مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے، کہیں قرآن کی بے حرمتی کی جاتی ہے، کہیں رسول  ؐ کی شان میں گستاخی کر کے مسلمانوں کو اُکسانے کی کوشش کی جاتی ہے، انہیں انتہاء پسند ٹھہرایا جاتا ہے۔ غیر اسلامی ممالک میں مسلمان اسلاموفوبیا کاشکار ہو رہے ہیں،گزشتہ برس مارچ میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہر پر قابو پانے کے لئے پاکستان کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد منظورکی تھی جس میں دنیا کے ممالک کو اِس مسئلے سے نمٹنے کے لئے متفقہ اقدامات کی ہدایت کی گئی تھی۔یہ قرارداد مسلمانوں سے نفرت کے خلاف عالمی دن کے موقع پر منظور کی گئی تھی،اِس دن کو منانے کا فیصلہ 2019ء میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد پر حملوں کے بعد کیا گیا تھا۔ اسلام تو پیار، محبت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے، اِس میں تشدد اور انتہاء پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس میں  تو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے، اِس بات کو مکمل طور پر سمجھنے اور عام کرنے کی ضرورت ہے۔بیرون ملک تو دور کی بات ملک کے اندر بھی حالات بہت اچھے نہیں ہیں، آج برداشت کی شدید کمی ہے، ہر کوئی اپنے مطلب کی بات سننا اور سمجھنا چاہتا ہے، اختلاف رائے کی اجازت نہیں دی جاتی، دوسرے کو اپنے آپ سے کمتر سمجھا جاتا ہے۔بچپن سے ہی بچے کی تعلیم و تربیت ضروری ہے، سکولوں اور گھروں میں بغیر کسی تفریق کے ایک دوسرے کے احترام کا سبق دینا چاہئے۔یہ بات یاد رہے کہ  بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے اِس دنیا میں بسنے والے ہر فرد کو دوسرے کے حقوق و مذہب کے احترام کی اہمیت کو سمجھنا لازم ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -اداریہ -