ایسا ہوتا نہیں مالی توبہ۔۔۔
باغ کر ڈالے جو خالی توبہ
ایسا ہوتا نہیں مالی توبہ
پھول کو خار چبھو دیتی ہے
کتنی ظالم ہے یہ ڈالی توبہ
دھندلی ہر چیز نظر آتی ہے
میری آنکھوں کی یہ جالی توبہ
اس نے رسوا مجھے غزلوں میں کیا
اس نے پھر داد بھی پالی توبہ
جیسے ساحل پہ سمندر امڈے
اس نے یوں بات اچھالی توبہ
دیکھ کے مجھ کو فرشتوں نے کہا
یہ ترا بندۂ عالی توبہ
ہائے وہ میرے وطن کی گلیاں
اب وہ گلیاں ہوئیں خالی توبہ
تو نے جو میرے لئے بھیجی تھی
گل نے خوشبو وہ چرالی توبہ
اک مرا پختہ یقیں رب پہ
اک تری خام خیالی توبہ
ماں نے پوچھا جو میرا حال کبھی
میں نے ہر بات چھپالی توبہ
میں نے اک جھوٹ کو نیلام کیا
میں نے یوں بات سنبھالی توبہ
سب نے اس کے لئے منت مانی
ہر کوئی اس کاسوالی توبہ
جو مرے دوست کی معشوقہ تھی
میں نے وہ لڑکی پٹا لی توبہ
وہ جو رکھی تھی پرندوں کے لئے
اس نے وہ روٹی بھی کھا لی توبہ
میں نے ہر بات ہی پوچھی اس سے
اس نے ہر بات ہی ٹالی توبہ
گندے نالے سے ملی جو بچی
کیسے وہ رب نے بچالی توبہ
اس کے دم سے ملی ممتا مجھ کو
میں نے سینے سے لگالی توبہ
میرے آنگن میں بھی خوشبو مہکے
گھر میں اک بیل اگالی توبہ
ننھے بچے کی کفالت کر کے
میں نے بھی نیکی کمالی توبہ
غم کی ہانڈی نہ کسی طور پکی
میں نے پھر کھچڑی پکالی توبہ
بھوک لگتی ہی نہیں ہے مجھ کو
سامنے رکھی ہے تھالی توبہ
میرا ہر شخص نے نقصان کیا
میں نے ہر چیز گنوا لی توبہ
بس اسی دوست نے خنجر گھونپا
جس کی الفت تھی مثالی توبہ
میری خود سے بھی ملاقاتیں ہوں
ایسی تدبیر نکالی توبہ
کلام :ثمینہ رحمت منال