تارکینِ وطن اور امجد ملک کی سفارشات

تارکینِ وطن اور امجد ملک کی سفارشات
تارکینِ وطن اور امجد ملک کی سفارشات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اخبار میں ایک خبر نظر سے گزری تھی جس کے مطابق اے پی ایل اور راچڈل لا سوسائٹی کے صدر بیرسٹر امجد ملک نے اوورسیز پاکستانیوں کو درپیش مسائل کے بارے میں کوئی رپورٹ مرتب کر کے حکومت کو پیش کی ہے۔ خبر میں چند سفارشات کا ذکر بھی تھا۔ مَیں منتظر رہا کہ کہیں اور شاید اس رپورٹ کی تفصیل مل سکے، لیکن قریباً دو ہفتے گزرنے کے باوجود کسی دوسرے اخبار میں مذکورہ رپورٹ کا کوئی ذکر تک نہیں آیا۔ خبر کی حد تک امجد ملک صاحب نے جن مسائل کا ذکر کیا ہے ،انہیں برطانیہ میں مقیم پاکستانی تارکین وطن کے مسائل قرار دیا گیا ہے۔ مَیں عمومی طور پر امجد ملک کی رپورٹ (خبروں کی حد تک) سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، لیکن ان مسائل کا تعلق صرف برطانیہ میں مقیم تارکین وطن سے نہیں ہے، بلکہ دنیا بھر میں موجود پاکستانی تارکین وطن کم و بیش انہی مسائل سے دوچار ہیں۔ کہا گیا ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کے لئے سہولتیں فراہم کی جائیں۔ پاکستان کو سرمایہ کاری کی سخت ضرورت ہے اور ہماری حکومتیں اس کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے علاوہ پاکستانی تارکین وطن کو بھی ملک میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیتی رہتی ہیں، لیکن وطن عزیز میں سرمایہ کاری کے لئے ماحول افسوسناک حد تک ناساز گار ہے۔ امن و امان کی صورت حال اور لوڈشیڈنگ دو بہت بڑی رکاوٹیں رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار مسائل ہیں۔ عمومی طور پر بھی ہمارے ہاں سرمایہ کاری کے لئے ماحول کوئی دوستانہ نہیں ہے۔ حکومتی لائسنس ،پرمٹ وغیرہ کا حصول اپنی جگہ ایک جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس پر نوکر شاہی کا رشوت کا لالچ یا اپنی عقربی صفت مجبوری سے لوگوں کو ایذا دینے کی خواہش اور کوشش ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار کو بددل اور بدظن کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ مدیر تکبیر شہید محمد صلاح الدین ایک بار وزیراعظم پاکستان کے ساتھ ترقی پذیر ایشیائی ممالک کے دورے پر گئے تھے۔ واپس آکر انہوں نے بتایا کہ وہاں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے کم سے کم حکومتی لائسنسوں اور پرمٹوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ دوسرے بنیادی سہولتیں کسی لمبی چوڑی تگ و دو کے بغیر فراہم کر دی جاتی ہیں۔ سرمایہ کاری کرنے والے کو بجلی، پانی، ٹیلی فون کے حصول کے لئے خوار نہیں ہونا پڑتا، جبکہ محمد صلاح الدین شہید نے ایک فہرست دکھائی جس کے مطابق پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے پینتیس لائسنسز اور پرمٹس کی ضرورت پیش آتی ہے، جن کا حصول سرمایہ کاری کے خواہش مند کو سرمایہ کاری سے پہلے ہی تھکا، بلکہ بھگا دیتا ہے۔ بنیادی ضرورتوں، پانی، گیس، بجلی، ٹیلی فون کا مسئلہ ان لائسنسوں کے حصول سے بھی زیادہ گھمبیر ہے۔ اگر کوئی چھوٹا موٹا سرمایہ کار ان تمام مراحل سے خرابیءبسیار کے بعد پیداوار شروع کر دے تو انکم ٹیکس، سوشل سیکیورٹی اور جانے کون کون سے محکمے اُس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ کوئی ایسا طریقِ کار نہیں ہے کہ سرمایہ کار ان محکموں کی شرائط کو کسی خود کار طریقے سے پورا کر سکے۔ اُسے ہر محکمے کے اہل کار سے الگ الگ نمٹنا پڑتا ہے اور یہ محکمے اُسے خجل خوار کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ دوسری طرف اس بارہ ایکڑ کے پلاٹ پر آپ اربوں روپے لگا کر رہائشی محل بنا ڈالیں۔ اُس کے لئے اٹلی سے سنگِ مر مر اور فرانس سے فانوس درآمد کر لیں۔ آسٹریلیا سے پودے منگوالیں اور سونے، چاندی کی ٹونٹیاں لگا لیں۔ کوئی آپ کو نہیں پوچھے گا کہ یہ مال کہاں سے آیا اور اسے ملک میں سرمایہ کاری کی بجائے اینٹ روڑے میں کیوں مقید کر دیا گیا ہے؟سرمایہ کاری کے سلسلے میں تنازعات کو فوری طور پر نمٹانے کے لئے امجد ملک کی کمرشل کورٹس کی تجویز اچھی ہے،بلکہ کچھ ثالثی عدالتیں بھی ہونا چاہئیں۔ بہت سے تارکین وطن جو کوئی سرمایہ کاری تو نہیں کر سکتے، لیکن وطن واپس جا کر وطن کی مٹی میں فن ہونے کی خواہش رکھتے ہیں، اس لئے وہ وہاں کوئی ٹھکانہ بنانے کے لئے پلاٹ وغیرہ خرید لیتے ہیں۔ اگر وہ کسی دھوکہ باز پلاٹ فروش کے فریب سے بچ جائیں تو کوئی قبضہ گیر ان کے پلاٹ پر قبضہ کر کے بیٹھ جاتا ہے۔ خریداری میں دھوکہ کھانے یا قبضہ چھڑانے کے لئے وطن کی مٹی میں دفن ہونے کے خواہش مند کو اس قدر رُلایا جاتا ہے کہ وہ اس خواہش کا گلا گھونٹنے پر مجبور ہو جاتاہے۔
امجد ملک صاحب نے اوورسیز پاکستانیز فاو¿نڈیشن کو سفید ہاتھی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اسے بامقصد بنا کر اس میں تارکین وطن کو نمائندگی دی جائے۔ یہ تجویز بھی نہایت اچھی ہے۔ تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے کے بارے میں اپنے ایک کالم میں پہلے ہی یہ عرض کر چکا ہوں کہ ایک زمانے میں مجھے یہ احساس ہوتا تھا، جیسے یہ اووسیز پاکستانیز فاو¿نڈیشن شاید صرف مشرقِ وسطیٰ میں رہنے والے پاکستانیوں کے لئے ،لیکن اب تو شاید ان کے لئے بھی نہیں رہی۔ اس کا دائرہ امریکہ اور یورپ میں مقیم تارکین وطن تک بھی وسیع کیا جائے اور اس میں تارکین وطن سے تجاویز اور سفارشات حاصل کرنے کا عمل ہمہ وقت جاری رکھنا چاہئے اور ان تجاویز اور سفارشات پر عمل درآمد کے لئے بھی کبھی کوئی آسان طریقہ وضع ہونا چاہئے۔ اس کی ممبر شپ بڑھانے کے لئے سفارت خانوں میں اہتمام کیا جانا چاہئے کہ پاسپورٹ، ویزا وغیرہ کے حصول کے لئے جانے والوں کو ممبر شپ کے فارم دئیے جائیں۔ ادارے کی ویب سائٹ پر بھی ممبر شپ کے حصول کا بندوبست ہونا چاہئے اور اس کے ممبران کو دی جانے والی سہولتوں کا پرچار کر کے تارکین وطن کو ممبر بننے کی ترغیب دی جانا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیاد ہ تارکین وطن کی عملی شرکت سے اس ادارے کو مو¿ثر بنایا جاسکے۔
امجد ملک نے پاکستان کی جانے والی فون کالوں پر اضافی ٹیکس کی شکایت بھی کی ہے۔ یہ شکایت بھی صرف برطانیہ کے تارکین وطن کی نہیں ہے۔ اس میں امریکہ میں مقیم پاکستانی تارکین وطن بھی شامل ہیں اور یقیناً دوسرے ملکوں میں رہنے والے پاکستانیوں کو بھی یہ شکایت ہوگی۔ گزشتہ حکومت نے 2012ءمیں بیرون ملک پاکستان کے لئے کی جانے والی کالوں پر ایک ٹیکس لگا دیا جس کے نتیجے میں امریکہ، برطانیہ غرض ہر ملک سے پاکستان کے لئے کی جانے والی کال کئی گنا مہنگی ہوگئی۔ ہم پہلے اس بات پر کُڑھا کرتے تھے کہ پاکستان کے لئے کال کا ریٹ ہمیشہ بھارت سے زیادہ رہا ہے، حالانکہ ٹیلی فون کمپنیوں کو پاکستانیوں سے زیادہ آمدن ہوتی ہے، کیونکہ پاکستانی کالیں کرنے اور لمبی کالیں کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ کنجوس بھارتی دو منٹ سے زیادہ لمبی کال کر لیں تو انہیں غش پڑ جاتا ہے، لیکن ان نئے ٹیکسزکے بعد تو فرق بہت بڑھ گیا ہے اور پاکستانیوں نے سستی کالوں کے لئے جن کمپنیوں سے کنٹریکٹ کر رکھے تھے،انہوں نے انہیں باقاعدہ آگاہ کیا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے ٹیکس عائد کرنے کی وجہ سے وہ اپنے ریٹ آٹھ، نو گنا بڑھا رہے ہیں۔ وہ یہ ٹیکس ختم کرانے کے لئے کوشاں ہیں، اگر اُنہیں کامیابی حاصل ہوئی تو پھر پہلے والے ریٹس پر کال کی سہولت دی جائے گی۔ مَیں نے ایک ایسی ہی کمپنی سے سروس لے رکھی تھی جو دو سینٹ فی منٹ دیتی تھی ۔اگرچہ یہ دوسروں سے قدرے مہنگی تھی، لیکن مجھے اس لئے پسند تھی کہ اس میں کوئی پِن نمبر وغیرہ ڈالنے کا کوئی جھنجھٹ نہیں تھا۔ مَیں پاکستان کے کسی نمبر کے مقابل ایک لوکل نمبر حاصل کر کے اسے اپنے فون میں محفوظ کر سکتا تھا اور جب چاہتا اس لوکل نمبر کو معمول کے مطابق ڈائل کر کے پاکستان اس کے مقرر کردہ نمبر پر بات کر لیتا تھا۔ اس ٹیکس کے بعد اس کمپنی نے پاکستان کے لئے 8.9 سینٹ فی منٹ کر دئیے ہیں۔ یہ گویا نو سینٹ ہی ہیں۔ امریکی اندازمیں گاہک کو نفسیاتی طور پر آٹھ کا تاثر دے کر تھوڑی تسلی کا سامان کیا جاتا ہے۔ یہی کمپنی آسٹریلیا کے لئے ڈیڑھ سینٹ، بنگلہ دیش کے لئے 2.9 سینٹ (تین سینٹ سمجھ لیجئے) جرمنی کے لئے 0.75 سینٹ، بھارت کے لئے ڈیڑھ سینٹ وصول کرتی ہے۔ کچھ کمپنیاں انڈیا، بنگلہ دیش اور کینیڈا کے لئے مفت کال کی سہولت دے رہی ہیں۔ کالنگ کارڈز پر پاکستان کے لئے چند منٹ ملتے ہیں جبکہ بھارت کے لئے گھنٹوں بات ہو سکتی ہے۔ پاکستان اس وقت اس فہرست میں مہنگے ترین چند ممالک میں سے ایک ہے۔ متحدہ عرب امارات کے لئے قریباً 14 سینٹ لگتے ہیں۔ تارکین وطن جو پاکستان میں اربوں ڈالر کا زر مبادلہ بھیجتے ہیں، پاسپورٹ کی فیس، ویزا کی فیس، نیکوپ کی فیس حتیٰ کہ سفارت خانے سے کاغذات کی تصدیق تک کی فیس ادا کرتے ہیں۔ کیا اُنہیں اُن کے یاروں اور پیاروں سے بات چیت کے لئے بھی بھاری فیس دینا ہوگی؟      ٭

مزید :

کالم -