اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔ قسط نمبر 1
شو رش کاشمیری نے عورت کے ایک روپ طوائف پر تہلکہ خیز کتاب لکھ کر مردوں کے سماج کا چہرہ نوچ لیا تھا۔یہ کتاب تحریر کرنے کے بعد انہوں نے بیس سال تک اسکی اشاعت اس لئے نہ کی کہ ان میں یہ سکت ہی نہیں رہی تھی کہ بنت حوّا کو بازار کی جنس بنائے جانے کی اس داستان کو شائع کرسکتے ۔۔۔شورش کاشمیری اردو صحافت کی دبنگ اور شعلہ بیاں شخصیت تھے ۔ ایوب خان کے دور میں جب آمریت کا راج تھا ،ایک نڈر صحافی کے طور پر انہوں نے مارشل لا کو للکارااور پابند سلاسل بھی رہے،دینی حلقوں میں انکا بے حد احترام تھا،سماج کے ہر پہلو پر انکی گہری نظر تھی ۔جب انہوں نے ’’اس بازار میں‘‘ کو تاریخی تمدنی حوالوں سے لاہورکے موجودہ بازار حسن تک دراز کرکے لکھا تو کہرام مچ گیا تھا کہ فحاشی کے نام پر عورت کو جس نفرت کا سامنا تھا ،اس کتاب کی دلدوز کہانیوں نے ان اسباب کا کچا چٹھہ کھول کر بیان کردیا تھا ۔ داد عیش دینے والوں کے چہرے بے نقاب ہوکر رہ گئے تھے ۔اس کتاب میں انہوں نے عورت کے طوائف بننے،اسکی مجبوریوں اور سماجی و مذہبی رویوں پر کیا کچھ لکھا ہے ،آپ بھی جانئے ۔ ..
رہزنی کا پہلا شکار
عورت میں مجرمیت کی قائم مقام فحاشی ہے۔ ایک پیدائشی فاحشہ اخلاقی پاگل ہے۔ ایک مجرم اور ایک فاحشہ میں یکساں خصوصیتیں ہیں۔ اخلاق کا فقدان ، سنگدلی کا وجود ، بدکاری کا میلان ، تلون مزاجی ، تن آسانی عارضی اور سطحی مسرتوں کا شوق اور خود بینی وخود نمائی کا جذبہ ۔
طوائف کا مستعمل مفہوم بازاری عورت ہے ۔ ہر اس عورت کو جو اپنے جسم یا آواز کا بیوپار کرتی ہے۔ طوائف کہتے ہیں۔ ویسے لغت میں طائفہ کی جمع طوائف ہے اور طائفہ جوق (مندلی )کو کہتے ہیں ۔ چونکہ مصر میں رقاصاؤں کی ٹولی کو جوق کہتے تھے ۔اس لیے طائفہ بھی جوق ہی کے معنی میں مستعمل ہوگیا۔ پھر رفتہ رفتہ طوائف نے جمع سے مفرد کے معنی پیدا کر لئے۔ اور اب اس کا اطلاق ہر اُس عورت پر ہوتا ہے جو پیشہ کماتی ہے۔ ان فاحشات کو ٹھیٹھ اُردو میں بیوایارنڈی بھی کہتے ہیں۔
یہ کہنا محال ہے کہ سب سے پہلی طوائف کون ہوئی ہے اس کا تعلق کس ملک یا قوم سے تھا، اُس کے باپ یا بھائی کون تھے ، اور کس شقی القلب نے پہلے پہل اس کو بیوا بننے پر مجبور کیا۔ بہ ظاہر چند معلومات ہیں جو سینہ بہ سینہ چلی آتی ہیں یا بعض آثار و مظاہرین ہیں جن سے ایک اندازہ استوار ہوتا ہے اور کچھ قیاس ہیں جن پر ایک عمارت کھڑے ہوسکتی ہے ۔ ان سب کے مطالعہ سے یہ ضرورثابت ہوتا ہے کہ دُنیا میں رہزنی کا پہلا شکار عورت کی عصمت ہوتی ہے اور غالباً انفرادی ملکیت کا تصور بھی اسی سے ماخوذ ہے۔ یعنی محنت کے استحصال سے مدتوں پہلے عصمت کا استحصال شروع ہو چکا تھا۔
جیسے جیسے معاشرہ بدلتا گیا عورت سے تعلقات کی نوعیتیں اور خصوصیتیں بھی بدلتی گئیں۔ ہر زمانہ میں ایک نیا روپ رہا۔ معلوم نہیں دھات اور پتھر کے زمانوں میں عورت اور مرد کے تعلقات کا صحیح نقشہ کیا تھا۔ لیکن سامنتی دور کی ایک خاص مدت تک ہر مرد عورت کو شہوانی غذا سمجھتا رہا اور اس کے حصول کا طریقہ شکمی غذا کے حصول سے مختلف نہ تھا۔ا یک طاقت ور قبیلہ کمزور قبیلہ کی آبادیوں پر چڑھائی کردیتا ۔ سردار گھوڑے پر سوار ہوتا ۔ چند لوگ نقاروں پر چوٹ لگاتے اور باقی نبرد آزما ہوتے ، حملہ آور مفتوح مردوں کو قتل کر دیتے جو عورتیں مردوں کے تخلیہ میں آچکی ہوں اُن کو ہلاک کر ڈالتے ۔ کنواریوں کو لشکرون میں بانٹ دیتے اور اس طرح فاتح بن کر لوٹتے۔
۔۔
بظاہر عجیب سی بات ہے۔ لیکن ایشیائی اقوام میں برات کا جو طریقہ رائج ہے اس پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ شادی دراصل اس عسکریت ہی کے ثقافتی ارتقا کی ایک معاشری صورت ہے اور وہ زیور دُلہنیں پہنتی ہیں ان عسکری فتحمندیوں ہی کی علامتیں ہیں۔ مثلاً ہتھکڑیوں کا بدل چوڑیاں ہیں یا کڑے، بیڑیوں کی جگہ پاؤں کی جھانجنیں ہیں ، طوق کی جگہ ہنسلی مالا اور کنٹھا ہیں۔ نکیل کی جگہ نتھ اور بالیاں ہیں۔ اس طرح دُلہن کے ماتھے پر جوسونے کا ٹیکا ہوتا ہے اس کی صورت عورت کے اندام پر ہے۔ اب بھی قیدی عورتوں کی جو صدیوں پُرانی تصویریں دیکھنے میں آئی ہیں ، ان سے اس کی توثیق ہوتی ہے۔
یہ دور گیا تو اشتراک فی النسواں کی بنیاد پڑی۔ یعنی ایک عورت کو اُس مرد کی ملکیت قرار دیے دیا گیاجو اس کی دسترس رکھتا تھا، بعض محققین کا خیال ہے کہ فحش کے غیر شعوری مرض کا ابتدائی علاج نظام اُمہانی اور نظام بطریقی کا قیام تھا جو ہزار ہاتاریخی کروٹوں کے بعد مرد اور عورت کے موجودہ رشتوں تک پہنچا ہے۔ چنانچہ عورتوں کے فحش پر بیسوائی کی جو مُہر لگی ہے اُس کے عمر چند ہزار برس سے زیادہ نہیں۔ البتہ اس سوال پر خاصا اختلاف ہے کہ فحاشی عہد و حشت کی یاد گار ہے یا نہیں ؟
بعضوں کا خیال ہے کہ فحش کاری عہد و حشت سے بہت بعد کی چیز ہے ۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس عہد کا انسان اس تصور ہی سے خالی الذہن تھا۔ عورت اور مرد شروع ہی سے ازدواجی زندگی میں رہے صرف ماحولی صورتیں بدلتی رہیں۔ لیکن اس پرسب کا اتفاق ہے کہ شروع شروع میں ازواج کی تین صورتیں تھیں۔ اوّلاً مرد کئی بیویوں کا شوہر ہوتا۔ ثانیاً عورت کے کئی شوہر ہوتے ۔ ثالثاً عورت اور مرد ایک محدود زمانہ کے لیے ایک دوسرے کے لئے مخصوص ہو جاتے تھے۔ چنانچہ عورت کے اس فحش ہی کا نتیجہ دُختر کشی کا رواج تھا۔
ایک اور عجیب بات جو ہمیں نظر آتی ہے وہ انسان کے ابتدائی مذاہب سے فحش کا کٹھ بندھن ہے۔ تمام مذاہب انسان کی دُکھتی ہوئی پیٹھ کو سہارا اور کے لئے آنے تھے لیکن مرور زمانہ سے اُن کی اصلی روح تو ختم کر دی گئی ایک جسم باقی رہ گیا اور وہ ان لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا جو فحش کے مختلف محرکات کو بھی منجملہ عبادات سمجھتے رہے ۔یہ تو انسان کے ابتدائی مذاہب کا حال تھا۔ خود عالمی مذاہب متدادِ زمانہ کے باعث اپنے پیروؤں کی نفسی خواہشوں کا شکار ہوگئے اور رفتہ رفتہ انسانی فطرت کی کجروی نے ان میں بھی فحش کے لئے کوئی نہ کوئی گوشہ تلاش کر لیا۔ چنانچہ آج عالمی معاشرہ میں جتنی بھی فاحشات ہیں تمام تر’’ مذہبی ‘‘ ہیں اور ’’مذہبی ‘‘ اس مفہوم میں کہ وہ ’’خدا و آخرت ‘‘ کے تصور پر ہماری ہی طرح یقین رکھتی ہیں۔
یونان کے ایک مشہور سیاح ہیرو ڈوٹنس (500ق م ) نے لیڈیا کے سفرنامہ مین شاہ الیانیس کے مقبرہ کا جو حال لکھا ہے اس میں بتایا ہے کہ اُس کی تیاری میں جو رقم صرف ہوئی اُس کا بڑا حصہ پیشہ ور عورتوں کو دیا ہوا تھا ، اسی مورخ کا کہنا ہے کہ عام لوگوں کی لڑکیاں پیشہ کماتیں اور اپنے جہیز کے لئے روپیہ جمع کرتی تھیں۔ بابل کے لوگ اپنی عورتوں کے افرادیتہ دیوی کے مندر میں مردوں سے اختلاط کے لئے بھیج دیتے تھے۔ ان عورتوں کو چوٹی میں پھول گندھے ہوتے تھے ۔یہ غیر مردوں کی راہ تکتیں۔ جب کوئی عورت کسی مرد کو پسند آجاتی تو وہ اُس کی جھولی میں چاندی کا سکہ پھینک دیتا ۔وہ چارونا چار اُس سکہ کو قبول کر لیتی اور ساتھ ہوجاتی۔ گھر لوٹتی تو اُسے فخر کی چیز سمجھا جاتا تھا۔
(جاری ہے)