سیاسی  توازن  اور گڈ گورننس  (آٹھواں  حصہ) 

 سیاسی  توازن  اور گڈ گورننس  (آٹھواں  حصہ) 
 سیاسی  توازن  اور گڈ گورننس  (آٹھواں  حصہ) 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہوا۔ ہاتھا پائی ہوئی۔ گالی گلوچ ہوئی اور  اینٹی سٹیٹ عناصر کو کہنے کو موقع ملا کہ دیکھیں یہ لوگ جن کا کام قانون سازی ہے اسمبلی ہال میں سٹریٹ فائیٹ کررہے ہیں۔ گالی گلوچ کررہے ہیں اور  نازیبہ حرکات کے مرتکب ہورہے ہیں۔ بعد کی ایک  ویڈیو میں ایک خاتون پھوٹ پھوٹ کر روتی  ہوئی دیکھی گئی۔  انہیں شاید  چوٹ لگی تھی۔ یا  انہیں دکھ تھا کہ وہ  غلط وقت پر غلط جگہ موجود تھیں۔ شدید مذمت ہوئی۔ ویڈیوز  وائرل ہوئی۔ اور نقصان یہ بھی  ہوا کہ وطن  عزیز کی سا  لمیت اور  استحکام پر اعتماد کرنے والوں کو شک و شعبہ  پیدا  ہوا کہ جس ملک اور  قوم کے مستقبل پر انہیں بھروسہ ہے۔ کیا  اسکی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے۔ یا  یہ کہ سیاستدان لوگ قابل بھروسہ نہیں ہیں۔ جرائم  پیشہ  افراد کی  طرح لڑ جگڑ رہے ہیں۔ وغیرہ  وغیرہ۔
 ہم اس واقعے کو  بین الاقوامی  تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جسے ہم گالی گلوچ کہتے ہیں۔ وہ  پورے مغرب میں گالی گلوچ نہیں مانی جاتی۔ بلکہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران ممالک میں ہمارے وطن عزیز  کے گلی کوچے کی گالیاں اصل میں گالیاں ہوتی ہی نہیں۔ یعنی عورت کی گالی کوئی گالی نہیں ہوتی۔ ہاں  البتہ بھارت میں وہ گالی مانی جاتی ہے۔بھارت کا کلچر بالی  ووڈ  کا کلچر ہے۔ جس میں مرد کو عورت کی گالیاں دی جاتی ہیں۔کیا بھارتی کلچر سرائیت کر گیا ہے ہمارے  احوان  زیریں میں اور  احوان  بالا  میں۔ عدالتوں میں اور  دفاترز  میں۔ کھیل کے میدانوں میں اور  برصغیر کے طول و عرض میں۔  اور کو ن سی جگہ بچی ہوئی ہے۔ نہیں تو کیا یہ کلچر  برصغیر کی تقسیم کے وقت  ساتھ لاے تھے ہمارے دادا  پردادا؟  
بات  ہورہی ہے پارلیمنٹ میں دھینگا  مشتی کی۔  پنچز  اور مکے  بازی کرمنل لا کے ذمرے میں آتے ہیں۔ ہاتھ سے دوسرے کو  اس کی مرضی کے خلاف چھونا بھی  بین  الاقوامی قوانین  کے تناظر میں کرمنل لا کے  ذمرے میں آتا ہے۔  سلامتی کونسل کے کسی مستقل ممبرممالک کے ہاں عورت کی گالیاں کلچر کا حصہ نہیں ہیں۔ ہماری ایک کولیگ ایک تصویر سے متعلق ہم سے استفسار کرنے لگی کہ یہ جو سینکڑوں اور  ہزاروں  میں لوگ جمع ہیں ان میں عورتیں نظر نہیں آرہی۔ میں نے عرض کی کون سے عورتیں؟ کہنے لگی اتنے سارے مرد جمع  ہیں تو عورتیں بھی تو ہونی چاہیے۔ میں نے عرض کی اگر ان مرد حضرات کی عورتوں کا  پوچھ رہی ہیں تو وہ گھروں میں ہونگی۔ان مرد حضرات کے لیے کھانا بنا رہی ہونگی اور  صفاتی ستھرائی کررہی ہونگی۔ میری کولیگ نے مجھے یوں دیکھا گویا  مجھے زندہ  زمین میں گھاڑ  دے گی۔ میرے اس جواب نے میری کولیگ کو ہمیشہ کے لیے مجھ سے متنفر کردیا تھا۔ اگر میں کلچر کو  پورا سمجھتا ہوتا تو اپنی کولیگ کے سوال کو کسی طرح ٹال دیتا۔
 ؑعربوں کی گالی گلوچ کس طرح کی ہوتی ہے؟ لیکن وہ گالی گلوچ تو عربی زبان میں ہوتی ہوگی۔عربی زبان تو پاک زبان ہے۔
ہمارے ایک معزز دوست نے ہمیں بتایا کہ عربی  باشندے غصے میں جو گالی دیتے ہیں وہ کتا کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ انکی کافی گندی گالی ہے۔ اور یہاں ناروے میں کتا کہنا تو بلکل گالی نہیں ہے۔ کتے کو یہاں لوگ ساتھ سلانے پر آمادہ رہتے ہیں۔ کیا کہا آپ ناروے کے کلچر کو نہیں جانتے؟ ناروے کی ہسٹری سکینڈی  نیویا کی ہسٹری ہے۔ ہسٹری  میں یہ لوگ سمندری ڈاکوں جانے جاتے ہیں۔ ان کی ہسٹری میں یہ بھی لکھا ہے کہ انہوں نے کسی دور میں برطانیہ کے کے کچھ حصوں پر قبضہ بھی کرلیا تھا۔ اور دوسری جنگ عظیم میں ناروے نے برطانیہ کے ساتھ مل کہ گیم چینجر کا رول پلے کیا تھا۔  
یہاں ناروے میں شروع شروع میں زبان سیکھنے کے لیے ایک ادارے میں باقائدہ  داخلہ لینا پڑتا ہے۔ اور چھ ماہ سال گزرنے کے بعد بھی  زبان سیکھنے کا عمل کچھ ادھورا سا لگ رہا تھا۔ پتہ چلا کوئی گالی ہی نہیں سکھائی گئی تھی۔ سوچنے پر پتہ چلا جو گالیاں ہمیں معلوم ہیں و ہ تو انکی گالیاں ہی نہیں ہیں۔ زبان والے ادارے نے تو نہیں سکھائی اس کے بجاے ہم نے اپنی باس سے درخواست کی اگر کبھی فرسٹیشن دور کرنی ہو تو یہاں کی گالیا ں کیا ہیں؟ ہماری باس کھل کہ مسکرائی۔ ہماری باس نے ہمیں بتایا کہ یہاں ایک بڑی گالی یہ ہے کہ کسی کو کہا  جاے کہ تو گندگی کا  تھیلاہے۔ ہم نے وہ گالی  ازبر کی لیکن ہمیں لگا  اس گالی میں کوئی اتنی جان نہیں تھی۔ سوچ میں پڑھ گیے یہ کیا گالی ہے؟ کچھ برس بعد اس گالی کی سمجھ آگئی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم کسی دوسرے شخص کو کہیں کہ وہ  چیٹر یا  بددعانت آدمی ہے۔ ہمیں اپنی باس سے دل ہی دل شکوہ  رہا کہ زیادہ  جاندار  اور کڑوی گالیاں نہیں سکھائی محترمہ نے۔ ہماری باس مہذب گھرانے کی ایک مہذب خاتون تھیں۔ لیکن جو گالی محترمہ نے ہمیں سکھائی تھی وہ اس  ملک اورمعاشرے کی بہت گندی گالی ہے۔
 کیا یہ بالی ووڈ کلچر کا  اثر تھا کہ ہماری ایک خاتون سیاستدان نے ٹی۔وی شو کے دوران ایک دوسرے مرد سیاستدان  پر تھپڑ کا  وار کردیا۔ تھپڑ کیا  چیز ہے۔ تھپڑ ایک مکے یا  پنچ سے کم چوٹ کا باعث  بنتاہے۔ لیکن اسکی علامتی حیثیت ایک گالی یا بے عزتی کے زمرے میں آتی ہے۔ مغرب میں ایسا نہیں ہے۔ چنانچہ تھپڑ بھی کلچرل چیز ہے جس کی وضاحت  اور مسیج  برصغیر کے کلچر میں مختلف ہے۔برصغیر میں تھپڑ کی علامتی حیثیت گالی کی ہی ہوتی ہوگی۔
یہ ساری بات کرنے کا مقصد کیا ہے؟ ایک سٹیٹ کی قانون سازی  اور گورننس میں یہ ساری باتیں نان  ایشیوز ہیں۔ عوام کو اس سارے کنفوژن میں کس نے ڈال رکھا ہے؟ عوام خود اس میں پڑے ہوے ہیں؟ پالیسی سازی۔ قانون سازی او ر سٹیٹ گورننس بہت سنجیدہ  ایشیوز ہیں۔ کیا کہا عوام ایشیوز اور  نان  ایشیوز میں فرق سمجھتے ہیں؟ پھر ان فضول بحثوں میں کون اپنا  اور ملک و قوم کا قیمتی وقت  برباد کررہا ہے؟ آپ ایک ویگن میں سوار ہوکر دوسرے قصبے جاتے ہیں تو  لوکل ڈائیالیکٹ میں تبدیلی محسوس کرتے ہیں۔ بس پکڑ کر دوسرے شہر جاتے ہیں تو دوسری زبان سننے کو ملتی ہے۔ جہاز پکڑ کہ دوسرے براعظم جاتے ہیں تو پورا کلچر،  زبان یکسر برعکس ملتے ہیں۔ کلچر،  زبان کے تعصبات اپنی جگہ۔ مقابلہ ہے اکانومی کا، کرنسی کا  اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھ جانے کا۔  
اللہ ہمارا  حامی  اور  ناصر  ہو۔

۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.   ‎

مزید :

بلاگ -