جواری
کافی عرصے سے یہاں کی نجی محفلوں میں اس بگڑے رئیس جواری کا بہت ذکر ہے جس نے چین کے جزیرے مکاؤ کے ایک جوئے خانے میں دس ارب روپے کی رقم ہار دی، محفل محفل گفتگو کا موضوع بننے والے شخص کے یہ تذکرے بے سبب بھی نہیں ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جوئے میں ہار دی گئی رقم ادھار میں لی گئی تھی جس وجہ سے یہ واقعہ خبر بنا ورنہ تو جوئے کے سمندر میں بے شمار ٹائی ٹینک خاموشی سے ڈوب جاتے ہیں اور کسی کو کان و کان خبر نہیں ہوتی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ادھار لی گئی رقم جعلسازی سے ادھار لی گئی تھی جس کے سبب مذکورہ شخص کو جیل میں پڑا ہے۔ سینتالیس سالہ اس جواری کے احوالِ پرملال کی تفصیل ہر پہلو سے دلچسپ اور سبق آموز ہے جو ایک ارب پتی باپ کی اکلوتی اولاد اور جاپان کے چند بڑے کاغذ ساز کارخانوں میں سے ایک کا مالک تھا مگر اس سے پہلے مکاؤ کے بارے میں مختصراً بتاتا چلوں کہ سو سال تک پرتگال کے زیر تسلط رہنے کے بعد کچھ سال پہلے چین کو واپس ملنے والا یہ جزیرہ عالمی سطح پر امریکی ریاست لاس ویگاس کی طرح اپنے جوئے خانوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ مختصر سی آبادی پر مشتمل مکاؤ کے بارے میں یہاں تک بیان کیا جاتا ہے کہ وہاں کی مائیں جس بچے کو بازار سے سودا سلف لانے کے لیے پیسے دیتی ہیں وہ بچہ بھی پیسے لے کر پہلے کسینو (جوا خانہ) جاتا ہے بعد میں گھر کا سامان خریدنے کے متعلق سوچتا ہے۔ مکاؤ کے علاوہ دائیو پیپرز کارپوریشن کے اس سابق مالک نے کئی ارب روپے سنگاپور کے ایک جوئے خانے میں بھی حالیہ دنوں کے دوران ہار دیے تھے جو ادھار کے دس ارب روپوں کے علاوہ ہیں۔ سنگاپور کے اس جوئے خانے کی خصوصیت یہ تھی کہ وہاں پر گاہک زیادہ بڑی رقم کا جوا کھیل سکتے ہیں۔ بیرون ملک جوا کھیلنے کا ممکنہ سبب غالباً جاپان میں جوئے خانوں کی عدم موجودگی تھی گو کہ گھڑ دوڑ، لاٹری اورپاچنکو سلاٹ کی شکل میں جوئے خانے تو یہاں پر موجود ہیں لیکن جوئے خانے قانونی طور پر ممنوع ہیں۔
یہاں جوئے خانے اور سلاٹ کا فرق بتاتا چلوں کہ سلاٹ میں جوئے کی خودکار مشینیں رکھی گئی ہوتی ہیں جن میں سکے ڈال کر کھیلتے ہیں جبکہ مقابلے پر کھیلنے والا کوئی نہیں ہوتا اور انفرادی طور پر ہی تمام کھیل سر انجام پاتے ہیں، تاش کے پتے بھی یہاں ممنوع ہوتے ہیں جبکہ کسینو کا حسن ہی تاش کے پتوں سے کھیلے جانے والے کھیل ہوتے ہیں یا پھر لڈو کے دو دانوں کی گھومتی مشینوں پر اچھل کود کے ساتھ جواریوں کے جتھے میں شامل لوگوں کے چہروں کے ہر آن بدلتے تاثرات ہوتے ہیں۔ کسینو کے قریب قریب تمام اہم آئٹم گروپ کی شکل میں ہی کھیلے جاتے ہیں جن میں ڈیلر کا کلیدی کردار ہوتا ہے جبکہ سلاٹ میں ڈیلر کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ پاچنکو سلاٹ جاپان کی سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والی انڈسٹری ہے۔
آج کل یہاں قانون ساز اسمبلی کے اراکین کا ایک گروپ کسینو کو قانونی اجازت دینے کے حوالے سے پارلیمان میں ایک بل پیش کرنے کے لیے جوڑ توڑ میں مشغول ہے جبکہ دوسری طرف میڈیا خصوصاً اخبارات میں اس امر کی بڑی شدّ و مد کے ساتھ مخالفت کی جا رہی ہے۔ مذکورہ بل کے حامی اراکین پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ کسینو کی اجازت دینے سے حکومت کو ٹیکس کی شکل میں خاطر خواہ آمدن ہونے کے علاوہ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے جبکہ مخالفین کا استدلال ہے کہ ممکنہ طور پر کئی کھرب روپے کی اس صنعت سے ملک کو معاشی استحکام تو شاید ملے یا نہ ملے مگر ایک بات یقینی ہے کہ اس سے سماجی عادات و اطوار اور مشرقی اقدار ضرور تباہی کا شکار ہوں گی۔ کسینو کے منفی اثرات سے خبردار کرنے کے لیے آج کے جاپان ٹائمز نے اس موضوع پر اداریہ لکھا ہے جس میں بطور مثال اس جواری کو ہی پیش کیا گیا ہے جو کہ اپنے اربوں روپے ہارنے کے علاوہ قرض میں لیے گئے دس ارب روپے ہار کر اب جیل میں ہے اور عدالتوں میں اپنے اوپر قائم کردہ مقدمات کا سامنا کر رہا ہے۔ دو سال کے قلیل عرصے میں جوئے کے طفیل اپنا کاروبار و زندگی برباد کر لینے والا یہ شخص جب طالب علم تھا تو روزانہ اپنے ذاتی جہاز پر اوساکا سے ٹوکیو کلاس پڑھنے کے لیے پرواز کیا کرتا تھا مگر اب زیرو ہوا ہے تو ایسا کہ کچھ بھی باقی نہیں بچا۔
اس جواری کا تذکرہ کرتے ہوئے مجھے بار بار اُن شیخ صاحب کا واقعہ یاد آرہا ہے جو بہت معروف بیوپاری تھے اور مرتے وقت اپنے کاروباری جانشین بیٹے کو نیک چلن کی ہدایت کرنے کے بعد کہنے لگے کہ بیٹا مگر پھر بھی تم برائی سے باز نہ آسکو تو میری اس وصیت پر ضرور عمل کرنا کہ اگر کبھی بدکاری کرنی ہو تو دن کے وقت کرنا اور جوا کھیلنے کو جی چاہے تو کسی استاد جواری سے کھیلنا۔ شیخ صاحب کی وفات کے بعد ان کا نوجوان بیٹا کاروبار سنبھال چکا تو سفلی جذبات سے مغلوب ہو کر بدکاری کی راہ پر چل نکلا۔ مرحوم والد کی وصیت اسے یاد تھی اس لیے اس پر عمل پیرا رہا اور جلد ہی اس نے محسوس کیا کہ دن کے وقت لوگ اسے مشکوک جگہوں اور مشکوک لوگوں کے ساتھ دیکھتے ہیں جس سے وہ اپنی ہی نظروں میں شرمندہ شرمندہ رہتا تھا لہٰذا اس نے یہ راستہ ترک کر دیا۔ اب سوچا کہ جوئے سے جی بہلایا جائے تو جوئے کے بارے کی گئی والد کی نصیحت یاد آگئی اس لیے اس وصیت کا پاس کرتے ہوئے وہ جوئے خانے گیا تو وہاں موجود لوگوں سے استفسار کرنے لگا کہ اس نے وہاں کے سب سے بڑے جواری کے ساتھ جوا کھیلنا ہے۔ خیر وہاں موجود ایک شخص جس پر سب متفق نظر آرہے تھے کہ وہ سب سے بہتر ہے آگے بڑھا اور اپنا تعارف کروا چکا تو شیخ صاحب کے برخوردار نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارا بھی کوئی استاد ہے؟ مذکورہ جواری نے بتایا کہ فلاں بازار کے فلاں چوک میں بیٹھا شخص میرا استاد ہے۔
یہ اطلاع پا کر برخوردار بغیر مزید وقت ضائع کیے، اس جواری کے ساتھ جوا استاد کھیلنے کے لیے چل پڑا۔ جب بتائے گئے پتے پر پہنچا تو اس جواری سے بھی برخوردار نے اس استاد کی بابت پوچھا تو وہ مسئلہ سمجھ گیا اور بتانے لگا کہ اس علاقے میں ہم سب کا استاد جواری شہر سے باہر اک پہاڑی پر خیمہ زن ہے، تم اس سے جا کر مل لو، وہی سب لوگوں کا متفقہ گرو مانا جاتا ہے۔ برخوردار جب بتائی گئی پہاڑی پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ خیمہ پھٹا پڑا ہے اور ممدوح جواری ایک لنگوٹ کے علاوہ لباس سے بھی بے نیاز ہے۔ یہ منظر دیکھ کر برخوردار نے احتیاطاً پوچھ ہی لیا کہ کیا واقعی آپ اس علاقے میں جوئے کے فن میں سب کے استاد ہیں؟ جواری نے اثبات میں سر ہلایا جس پر برخوردار نے کہا: جناب! آپ تو بڑی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں تو استاد جواری نے جواب دیا کہ بیٹا جب جوئے میں استادی ہاتھ آتی ہے تو تب تک صرف لنگوٹ ہی باقی رہ جاتا ہے۔
استاد جواری کی یاد کا سبب اربوں روپے ہارنے والے جواری کا عدالت میں دیا گیا بیان بھی ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ وہ تو صرف اپنا نقصان پورا کرنے کے لیے جوا کھیل رہا تھا اور سوچ یہ تھی کہ وہ کسی طرح ایک بار جوئے میں ہاری ہوئی رقم واپس جیت لے تو پھر کبھی جوئے کے قریب نہیں جائے گا۔ بظاہر کتنا معصومانہ بیان لگتا ہے مگر کم و بیش ہر جواری کی یہی سوچ ہوتی ہے کہ کسی طرح پرانا نقصان پورا کر لوں اور اسی چکر میں وہ مزید نقصان کرتا جاتا ہے۔ لاس ویگاس کے مشہور کسینو میں ملازمت کا تجربہ رکھنے والے ایک دوست کی بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کسینو میں کبھی کوئی شخص نہیں جیتا، ہمیشہ کسینو ہی جیتتا ہے۔