حضرت عثمان غنی ؓ ۔۔۔ ذوالنورین جن کے نکاح میں نبی پاک ؐ کی دو صاحبزادیاں رہیں
عبدالرشید عراقی:
ذوالحجہ کی آخری تاریخوں میں خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ پر ایک مجوسی ابولولو فیروز نے نماز فجر میں قاتلانہ حملہ کیا۔ جس میں آپ شدید زخمی ہوگئے۔ اور یکم محرم 24 ھ کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ نے شہادت سے پہلے یہ وصیت فرمائی کہ حضرت عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہم یہ چھ آدمی تین دن کے اندر اندر کسی کو خلیفہ منتخب کرلیں اور تین دن صہیب رومی قائم مقام خلیفہ ہوں گے۔ دو دن نئے خلیفہ کے انتخاب کے لئے بحث و مباحثہ جاری رہا لیکن کوئی بات طے نہ ہوسکی۔ تیسرے دن حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا: کہ ہم میں سے تین آدمی ایک ایک شخص کے حق میں دستبردار ہو جائیں۔ تاکہ چھ کی بحث تین میں محدود ہوجائے۔ اس پر حضرت زبیرؓ حضرت علیؓ کے حق میں اور حضرت سعدؓ بن ابی وقاصحضرت عبد الرحمنؓ بن عوف کے حق میں دستبردار ہوگئے۔
حضرت عبد الرحمانؓ بن عوف نے کہا: کہ میں امیدواری سے دستبردار ہوتا ہوں اب بحث صرف حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ بن ابی طالب میں رہ گئی۔ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے ایثار کیا تھا۔ اس لئے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ دونوں نے اپنا آخری فیصلہ ان کے سپرد کردیا۔ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے تمام صحابہ کرامؓ کو مسجد نبوی میں جمع کیا۔ اور ایک مختصر تقریر کی۔ اور اپنا فیصلہ حضرت عثمانؓ کے حق میں دے دیا۔ یہ 4 محرم 24 ھ کا واقعہ ہے۔
چنانچہ حضرت عثمانؓ جن کا تعلق بنی امیہ سے تھا۔ تیسرے خلیفہ راشد منتخب ہوئے۔
حضرت عثمانؓ کا شجرہ نسب پانچویں پشت پر
آنحضرتﷺ سے مل جاتا ہے۔ شجرہ نسب یہ ہے:
عثمان بن عفان ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف/ والدہ کی طرف سے بھی شجرہ نسب پانچویں پشت پر نبی اکرمﷺ سے مل جاتا ہے۔ شجرہ نسب یہ ہے:
ارویٰ بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبدشمس بن عبدمناف۔
حضرت عثمانؓ کی نانی بیضا ام حکیم البیعار رسول اللہ ﷺ کے دادا سردار عبدالمطلب کی صاحبزادی اور آپﷺ کے والد حضرت عبد اللہ کی سگی بہن تھیں اس لحاظ سے حضرت عثمانؓ نبی اکرمﷺ کی سگی پھوپھی کے نواسے تھے۔ اور حضرت علیؓ سے بھی آپ کا یہی رشتہ تھا۔
جب آنحضرتﷺ نے مکہ مکرمہ میں دعوت اسلام کا آغاز کیا۔ اور آپﷺ کی دعوت کو جس شخص نے سب سے پہلے قبول کیا۔ وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اسلام قبول کرنے کے بعد آنحضرتﷺ کے رفیق اور معاون بن گئے۔ آپ کو جو شخص ملتا تو آپ اسے اسلام کی دعوت دیتے۔ آنحضرتﷺ نے جب اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ تو اس وقت حضرت عثمانؓ کی عمر 34 سال تھی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب آپ کو دعوت اسلام دی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی گفتگو سے اس قدر متاثر ہوئے کہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔
اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت عثمانؓ کو وہ شرف حاصل ہوا۔ جو ان کی کتاب مناقب و فضائل کا درخشاں باب ہے۔ یعنی رسول اللہﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت رقیہؓ کا نکاح آپ سے کردیا۔ جنگ بدر 2 ہجری کے موقعہ پر حضرت رقیہؓ نے وفات پائی۔ (حضرت رقیہؓ کی بیماری کی وجہ سے حضرت عثمانؓ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے) تو رسول اللہﷺ نے اپنی تیسری صاحبزادی حضرت ام کلثومؓ کا نکاح آپ سے کردیا۔ اوریہ وہ شرف ہے جو پوری انسانی تاریخ میں کسی شخص کو حاصل نہیں ہوا۔ گویا یہ آپ کی ایک خاص خصوصیت ہے۔
حافظ سیوطیؒ فرماتے ہیں کہ:
’’علمائے اسلام کا قول ہے کہ حضرت عثمانؓ کے علاوہ پوری تاریخ انسانیت میں کوئی شخص ایسا نہیں گزرا۔ جس نے کسی نبی کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا پھر اس وجہ سے آپ کو ذوالنورین (دو نوروں والا) کہا جاتا ہے‘‘۔
جب کفار مکہ کی طرف سے مسلمانوں پر عرصہ حیات بہت زیادہ تنگ کردیا گیا۔ تو آنحضرتﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ قریبی ملک حبشہ ہجرت کرجائیں۔ وہاں کا عیسائی بادشاہ نجاشی بہت نیک سیرت آدمی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس کے ملک میں تمہیں کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ چنانچہ بیشتر مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ ان میں حضرت عثمانؓ بھی معہ اپنی زوجہ محترمہ حضرت رقیہؓ کے شامل تھے۔
حضرت عثمانؓ کچھ عرصہ حبشہ میں مقیم رہے۔ جب واپس آئے تو دوسری بار مدینہ طیبہ مع اپنی اہلیہ محترمہ کے ہجرت کی۔
حضرت عثمانؓ ابتدا ہی سے تجارت کے پیشہ سے منسلک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے کاروبار میں بہت برکت عطا فرمائی تھی۔ چنانچہ ان کا شمار مکہ کے رؤسا میں ہوتا تھا۔ جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو مدینہ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں تھا جو ایک یہودی کی ملکیت تھا۔ اور یہودی نے اس کو اپنی معاش کا ذریعہ بنایا ہوا تھا۔ مسلمانوں کی اس وقت مالی حالت اچھی نہ تھی اس لئے اس کنویں کے پانی کے حصول کیلئے انہیں بڑی مشکل پیش آرہی تھی۔ حضرت عثمانؓ نے کوشش کرکے اس یہودی سے نصف کنواں خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کردیا۔ یعنی ایک دن یہودی اس کنویں کا پانی استعمال کرتا تھا۔ اور ایک دن مسلمان اس کنویں کا پانی استعمال کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد یہودی نے اپنا نصف حصہ بھی حضرت عثمانؓ کو فروخت کردیا۔ حضرت عثمانؓ نے یہ کنواں عام مسلمانوں کیلئے وقف کردیا۔ تو آپ رسول اللہﷺ کی اس بشارت کے حقدار ٹھہرے۔
’’جو شخص بیر رومہ کو خرید کر وقف کردے۔ اس کیلئے جنت ہے‘‘۔(صحیح بخاری)
عہد نبوی میں جو غزوات ہوئے۔ ان میں حضرت عثمانؓ نے شرکت کی۔ سوائے غزوہ بدر کے کہ اس میں آپ اپنی زوجہ محترمہ حضرت رقیہ بنت رسول اللہﷺ کی بیماری کی وجہ سے شرکت نہ کرسکے۔ رسول اللہﷺ نے ان کی تیمار داری اور عیادت کیلئے مدینہ منورہ میں آپ کو چھوڑ دیا۔ حضرت عثمانؓکے ساتھ حضرت اسامہؓ بن زیدبھی تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: کہ
’’تم دونوں کو شرکت جہاد کا اجر اور مال غنیمت میں حصہ ملے گاجیسا ان لوگوں کو ملے گا جو اس جنگ میں شرکت کررہے ہیں‘‘۔
غزوہ تبوک رسول اللہﷺ کے غزوات میں سب سے آخری غزوہ ہے اس غزوہ کا دوسرا نام ’’جیش العسر‘‘ بھی ہے کیونکہ اس وقت مسلمانوں پر سخت بے سروسامانی کا عالم تھا۔ موسم سخت گرم، قحط، اور گرانی اور سفر بہت طویل تھا۔ رسول اللہﷺ نے اس غزوہ کیلئے مسلمانوں سے مالی تعاون کی اپیل کی تو حضرت عثمانؓ نے مستدرک حاکم کی روایت کے مطابق دس ہزار مجاہدین اسلام کے خوردونوش اور دیگر تمام اخراجات کا ذمہ لیا۔ اس کے علاوہ ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور ایک ہزار دینار رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کئے۔ تو آپﷺ بہت خوش ہوئے: اور ارشاد فرمایا:
’’آج کے بعد عثمانؓ کا کوئی کام اسے نقصان نہیں پہنچاسکے گا۔‘‘
پھر ارشاد فرمایا:
اے اللہ میں عثمانؓ سے راضی ہوگیا تو بھی اس سے راضی ہوجا۔ آنحضرتﷺ کی رحلت کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ حضرت عثمانؓ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اور اہم امور میں ان سے مشورہ لیتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے انتقال کے بعد حضرت عمر فاروقؓ دوسرے خلیفہ راشد ہوئے۔ خلافت فاروقی میں ہرمعاملہ میں حضرت عثمانؓ سے صلاح و مشورہ لیتے رہے۔ حضرت عمرؓ نے سب سے پہلے مجلس شوریٰ قائم کی۔ تو حضرت عثمانؓ کو بھی مجلس شوریٰ کا رکن نامزد کیا۔
حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت کے بعد حضرت عثمانؓ تیسرے خلیفہ راشد منتخب ہوئے۔ ان کی خلافت کا زمانہ بارہ سال ہے۔ پہلے چھ سال بڑے امن سے گزرے۔ لیکن آخری چھ سال افراتفری میں گزرے۔ اور دنیا کا رنگ ہی پلٹ گیا۔ اس انقلاب کی اصل وجہ یہ تھی کہ صحابہ کرامؓ کی وہ مبارک جماعت جس نے رسول اکرمﷺ کے چہرہ مبارک کی روشنی میں زندگی اور اتحاد کے سبق سیکھے تھے اس دنیا سے رخصت ہورہی تھی۔نئی نسلیں جو اس جماعت کی وارث ہوئیں تقویٰ اور اتحاد میں ان کی وارث نہ بن سکیں۔
حضرت عثمانؓ کے خلاف ایک سازش کے تحت فتنہ کھڑا کیا گیا۔ اور یہ سازش عبدا للہ بن سباجو کہ نسلا یہودی تھا اور اوپر سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا تھا تیار کی گئی۔ چنانچہ ایک گروہ نے حضرت عثمانؓ کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کیا۔ اور حضرت عثمانؓ پر پانچ الزامات لگائے گئے۔
یہ سب الزامات قطعی طورپر سازشیوں کی شرارت کا نتیجہ تھے۔
مفسدین کو اصلاح منظور نہ تھی۔ انہوں نے مدینہ میں یورش کردی۔ اور حضرت عثمانؓ کے محل کا محاصرہ کرلیا۔ اور سامان رسد پہنچانے میں رکاوٹ بن گئے۔ آخر ایک دن حضرت عثمانؓ اپنے محل کی چھت پر تشریف لے گئے۔ اور باغیوں سے مخاطب ہوئے اور آپ نے جو عہد رسالت میں عظیم کارنامے انجام دےئے تھے۔ وہ ان کو یاد دلائے۔ باغیوں نے اس کی تصدیق کی۔ لیکن وہ محاصرہ اٹھانے کیلئے تیار نہ ہوئے ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ آپ خلافت سے دستبردار ہوجائیں۔ لیکن آپ نے یہ مطالبہ مسترد کردیا۔ بعض صحابہ کرامؓ نے آپ کو باغیوں کے خلاف عملی اقدام اٹھانے کا مشورہ دیا۔ آپ نے فرمایا:
میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہیں کرسکتا۔ مجھے یہ منظور نہیں کہ میں رسول اللہﷺ کا خلیفہ ہوکر امت کا خون بہاؤں، میں وہ خلیفہ نہیں بنوں گا جو امت محمدیہ میں خونریزی کی ابتداء کرے۔
رسول اللہﷺ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی پیش گوئی فرماچکے تھے۔ چنانچہ 18 ذوالحجہ 35 ھ بروز جمعہ باغی قصر خلافت میں داخل ہوگئے۔
حضرت عثمانؓ روزے سے تھے قرآن مجید کی تلاوت فرمارہے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صاحبزادے محمد بن ابوبکر پیش پیش تھے۔ اس نے آگے بڑھ کر حضرت عثمانؓ کی ریش مبارک پکڑ کر زور سے کھینچی تو حضرت عثمانؓ نے فرمایا:
بھتیجے اگر آج تمہارے والد حضرت ابوبکر صدیقؓ زندہ ہوتے۔ تو تمہاری اس حرکت کو پسند نہ فرماتے۔
محمد بن ابی بکریہ سن کر پشیمان ہوا۔ اور پیچھے ہٹ گیا۔ مگر کنانہ بن بشیر نے آپ کی پیشانی پر کاری ضرب لگائیجس سے حضرت عثمانؓ زمین پر گر پڑے اور فرمایا۔ بسم اللہ توکلت علی اللہ۔
دوسرا وار سودان بن حمران نے کیا، جس سے خون کا فوارہ چل نکلا اور اس کے ساتھ ہی امیر المومنین تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمانؓ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔
شہادت عثمانؓ کی خبر آناً فاناً تمام ممالک میں پھیل گئی۔ اس وقت حضرت حذیفہؓ نے ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا کہ بعد کے تمام واقعات صرف اسی ایک جملے کی تفصیل ہیں۔
آپ نے فرمایا:
’’عثمانؓ کے قتل سے اسلام میں ایک ایسا رخنہ پڑگیا کہ اب وہ قیامت تک بند نہیں ہوگا‘‘۔
مولانا ابوالکلام فرماتے ہیں:
’’اسلامی تاریخ میں نفاق کی ایک لکیر ہے۔ یہ لکیر حضرت عثمانؓ کے خون سے کھینچی گئی اور اسی میں اسلام کا پورا جاہ و جلال دفن ہوگیا۔